نومبر 23, 2024

پلوامہ سازش اور مودی کے مذموم عزائم ؟

تحریر: عمر فاروق

 یہ 14 فروری 2019 کا دن ہے جب مقبوضہ کشمیر کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں لیت پورہ ہائی وے پر پلواماکے قریب ایک خودکش حملے کی خبر آآتی ہے۔ اس حملے میں 40 سے زائدفوجی ہلاک ہوجاتے ہیں 78 بسوں پر مشتمل اس فوجی قافلے میں شامل نیم فوجی دستے مقبوضہ کشمیرمیں تعیناتی کے لیے جارہے تھے ۔ویسے تو اس شاہراہ پر 24 گھنٹوں فوجی پہرہ رہتا ہے مگراس دن فوجی قافلے کی نقل و حرکت کے دوران سول ٹریفک کو مکمل طورپرروک دیا گیاتھا یعنی مکھی کو بھی اس وقت اس شاہراہ پر اڑنے کی اجازت نہیں تھی مگرپھربھی اتنابڑاحملہ ہوگیا جوکہ سوالیہ نشان تھا ۔
اس حملے سے چند روز پہلے بھارت میںاگلے انتخابات کی مہم زوروں پر تھی، رائے عامہ کے جائزوں میں بتایا گیا تھا کہ اقتصادی بدحالی اور ملک میں امن عامہ کی بگڑتی صورت حال کے پیش نظر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت میں کمی آئی ہے اور اوروہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آ سکے گی۔ بلکہ بھارت میں ایک بار پھر ایک معلق پارلیمان وجود میں آئے گی ۔مگر جوں ہی پلواما حملہ ہوا تو حالات نے اچانک ایسا پلٹا کھایا کہ بی جے پی کو بڑی کامیابی ملی۔ جبکہ یہ ریکارڈ پرموجود ہے کہ کشمیریوں نے پہلے دن سے خبردار کیا تھا کہ ایسا کوئی حادثہ ضرور ہوگا جو بی جے پی کی شکست کو جیت میں بدل دے گا۔
مودی اوران کے حامیوں نے اس حملے کاالزام پاکستان پرلگادیااورایک منظم منصوبہ بندی سے بھارتی میڈیا کے ذریعے اس کی خوب تشہیر کی گئی، جذباتی تقریروں اور بیانات کی بھر مار ہوئی، پاکستان کے خلاف بھرپورپروپیگنڈہ کیاگیابی جے پی نے فوجی جوانوں کے لہواوربھارتی جذبات سے کھیلناشروع کیامودی نے الیکشن میں کامیابی کے لیے ہندوتوااورپاکستان مخالف کارڈکوخوب استعمال کیا۔پھراس کے ساتھ 26فروری کوبالاکوٹ سرجیکل سٹرائیک کاڈرامہ رچاکرمودی نے ملک میں قوم پرستی کاجنونی ماحول بناکریہ سب اپنے حق میں استعمال کیا ۔
مقبوضہ کشمیرکے اس وقت گورنرستیہ پال نے اب مودی کی لنکاڈھائی ہے انھوں نے کہا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں نے خود اس دن مودی کوبتایاتھا جب انہوںنے مجھے فون کیا تو میں نے ان سے کہا کہ یہ ہماری غلطی سے ہوا ہے تو انھوں نے ہمیں چپ رہنے کے لیے کہا۔ ہم نے ایک دو چینل سے یہ بات کہی تھی لیکن انھوں نے کہا کہ یہ ہماری چیز ہے ہمیں بولنے دو تم چپ رہو۔انھوں نے کہا کہ اجیت ڈووال نے بھی مجھے کہا، آپ مت بولیے آپ چپ رہیے۔ مجھے تب ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ حکومت کا مقصد اس حملے کا الزام پاکستان پر لگا کر انتخابی فوائد حاصل کرنا ہے۔۔بھارتی صحافی کرن تھاپر نے اس پر کہا کہ یعنی یہ ایک طرح سے سرکارکی پالیسی تھی کہ پاکستان پر الزام لگائو، ہم لوگ اس کا کریڈٹ لیں گے اور یہ ہمیں انتخابات میں مدد دے گا۔
ہمارے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ستیہ پال ملک کے انکشافات نے ایک بار پھر پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کے مئوقف کی تصدیق کی ہے۔ ان انکشافات سے واضح ہوا ہے کہ کس طرح انڈیا کی قیادت اندرونی سیاسی فوائد کے لیے عادتا اپنے مظلوم ہونے کا شرمناک بیانیہ اور پاکستان مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے۔ترجمان نے امید ظاہرکی ہے کہ عالمی برادری تازہ ترین انکشافات اور انڈیا کی خودغرضی وسیاسی مفادات پرمبنی پاکستان مخالف پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لے گی۔ وقت آگیا ہے کہ انڈیا کو پلوامہ حملے کے بعد علاقائی امن کو نقصان پہنچانے والے اقدامات کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
اس حملے کے حوالے سے اس وقت بھی شکوک وشبہات کااظہارکیاجارہاتھا اورپاکستان کی طرف سے مسلسل اس حملے کے شواہدمانگے جاتے رہے مگربھارت نے کوئی ثبوت نہیں دیا البتہ بھارت کے اندرسے اس حملے کے حوالے سے متعددلوگوں اس حملے میں مودی اوراس کے ہمنوائوں کوملوث قراردیا۔انڈیا کی ہندو قوم پرست جماعت مہاراشٹرنو نرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے بھی اس وقت دعوی کیا تھا کہ اگر پلوامہ کے حملے کے بارے میں قومی سلامتی کے مشیراجیت ڈووال سے پوچھ گچھ کی جائے تو اس حملے کی پوری حقیقت عیاں ہو جائیگی۔راج ٹھاکرے نے ہلاک ہونے والے انڈین سیکورٹی اہلکاروں کو ‘سیاسی مظلوم’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہر حکومت اس طرح کی صورتحال تخلیق کرتی ہے لیکن مودی کی حکومت میں یہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے ۔
اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ پلوامہ کا واقعہ انڈیا کا باقاعدہ منصوبہ تھا۔ر اب انڈیا کی طرف سے زہر افشانی اور پروپیگنڈا کے بعد بھی یہ ثابت ہو گیا کہ یہ انڈیا کی پہلے سے سوچی سمجھی سازش تھی۔مودی نے اس حملے کی آڑمیں کئی مقاصدحاصل کیے ۔اس حملے کے صرف ایک ماہ بعد ہی حریت کانفرنس کی اکائیوں لبریشن فرنٹ اور جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیا گیا، ان کے دفاتر بند ہو گئے اور درجنوں رہنمائوں کو قید کردیا گیا۔اس حملے کے پانچ ماہ بعدباقاعدہ پلان کے تحت مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 اور 35 سی کو ختم کرکر دیاگیا۔جس سے ثابت ہوتاہے کہ یہ ان کا پہلے سے سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کی تیاری کے یہ سب مراحل تھے۔
فالس فلیگ آپریشن جنگی حکمت عملی کا ایک حصہ ہوتا ہے اور اس سے مراد ایک ایسا دہشتگردانہ حملہ ہے جو کوئی ملک یا ایجنسی اپنے ہی عوام یا سرزمین کے خلاف کرتی ہے تاکہ دشمن ملک یا ایجنسی کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہرا سکے اور اس حملے کو بنیاد بناتے ہوئے دشمن ملک کے خلاف جارحانہ حکمت عملی اپنا سکے۔مگرانڈیانے ہمیشہ اپنے لوگوں کوقتل کرکے پاکستان کے خلاف الزام لگاکرقومی اوربین الاقوامی مفادات اورہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کیں ، بعدمیں تحقیقات سے ثابت ہوا کہ ایسے واقعات میں پاکستان ملوث نہیں مگراس وقت تک پانی سرسے گزرچکاہوتاہے ۔اس حوالے سے بے شمارمثالیں موجود ہیں ۔
انڈیا نے 20 مارچ 2000 میں امریکی صدربل کلنٹن کے انڈیا اور پاکستان کے دورے کے دوران کشمیر کے ضلع اننت ناگ کے علاقے چھٹی سنگھ پورہ میں 35 سکھوں کوقتل کرکے اس کاالزام کشمیری مجاہدین اورپاکستان پرلگادیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ خود ان کی فوج اور ان کی انٹیلی جنس کا کیا دھرا تھاجبکہ امریکہ کی پہلی خاتون وزیرخارجہ میڈلین البرائٹ نے بھی اپنی کتاب میں انکشاف کیا کہ کلنٹن کو چٹی سنگھ پورہ واقعے میں ہندو انتہا پسندوں کا ہاتھ ہونے کا شبہ تھا ۔کلنٹن نے کہا تھا کہ اگر وہ بھارت کاسفر نہ کرتے تو چٹی سنگھ پورہ متاثرین زندہ ہوتے۔
اسی طرح 2019میں ایک این جی اونے اپنی رپورٹ مقبوضہ کشمیرمیں 7000 سے زائد اجتماعی قبروں کاانکشاف کیا جس میں ہزاروں کشمیریوں کوشہیدکرکے دفن کیاگیا تھا ۔بعدمیں ثابت ہواکہ بھارتی فوج کے افسران نے ایوارڈ لینے کے لیے بے گناہ لوگوں کو مارا ۔ 18فروری 2007 کو سمجھوتہ ایکسپریس میں دھماکے سے 68 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 44 پاکستانی تھے۔اس حملے کاالزام بھی بھارت نے پاکستان پرلگایامگرحملے میں ملوث آسیم آنندنے عدالت میں اعتراف کیا کہ ہندو انتہا پسند جماعت راشٹریہ سیوک سنگھ اس میں ملوث ہے۔
مزیدیہ کہ مہاراشٹر کے پولیس انسپکٹر جنرل ہیمنت کرکرے نے تحقیقات سے اس واقعے کو “ہندوتوا دہشت گردی” یا “زعفرانی دہشت گردی” قرار دیا تھا۔ مگربعد ازاں کرکرے کو 2008 کے ممبئی آپریشن کے دوران نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا گیا۔ جس کے بعد ان کی بیوہ نے الزام لگایا کہ سارا آپریشن را اور انڈین آرمی کے افسر کرنل پروہیت نے کیا۔ دسمبر 2001 میں انڈیا کی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام بھی پاکستان پر عائد کیا گیا اور اس میں کشمیری رہنما افضل گرو کو ناحق طریقے سے پھانسی دی گئی اور اس حوالے سے انڈیا کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ افضل گرو کو پھانسی دی جائے تاکہ انڈیا کا ضمیر مطمئن رہے۔ایسے واقعات سے بھارت کی تاریخ بھری پڑی ہے کہ کس طرح اس نے اپنے لوگوں کوقتل کرکے الزام پاکستان پرلگایا۔
اس وقت بھی مودی بھارتی افواج کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کررہاہے تاکہ مستقبل میں پھرکوئی ڈرامہ رچاسکے ۔ مودی سرکار انتہا پسند ہندو نظریات رکھنے والے فوجی افسران کو مسلسل ترقیاں دے رہاہے ۔ اس وقت 4 ریٹائرڈ فوجی افسران گورنر اور لیفٹیننٹ گورنر کے عہدوں پر فائز ہیں۔آپریشن پراکرم 2002 میں حصہ لینے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ پر نائیک کو 16 فروری 2023 میں اروناچل پردیش کا گورنر لگا دیا گیا۔ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ پرانائیک پر 2009 میں فراڈ کے ذریعے راجستھان میں 12 ایکڑ زمین ہتھیانے کا الزام بھی ہے۔ سرینگر میں واقع 15 کور کمانڈ کرنے اور کشمیریوں پر ظلم ڈھانے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ گرمیت سنگھ کو ریاست اتر کھنڈ کا گورنر لگا دیا گیا۔ بحر ہند میں بڑھتی امریکی دلچسپی کے پیشِ نظر 2017 میں انڈیمان اور نائیکو بار کا گورنر ایڈمرل ریٹائرڈ DK جوشی کو لگا دیا گیا۔فروری 2023 میں پاکستان کے خلاف نفرت انگیز خیالات رکھنے والے بریگیڈئر ریٹائرڈ BD مشرا کو لداخ کا لیفٹیننٹ گورنر لگا دیا گیا۔ چاروں گورنروں کی سیاسی وابستگی بی جے پی سے ہے اور پاکستان کے خلاف انتہا پسند نظریات کے مالک ہیں۔
ستمبر 2016 میں جعلی سرجیکل سٹرائیکس کا اعلان کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ رنبیر سنگھ کو انعام کے طور پر 2018 میں کمانڈر ناردرن کمانڈ لگا دیا گیا۔ اپریل 2019 میں اتر پردیش کے وزیراعلی یوگی ادیتیا ناتھ نے دعوی کیا تھا کہ بھارتی سینا درحقیقت مودی سینا ہے۔ 2016 میں نریندر مودی نے بپن راوت کو دو سینئر افسران پر ترقی دے کر آرمی چیف نامزد کیا۔ بپن راوت کے RSS کے سربراہ موہن بھگوت سے دیرینہ اور قریبی تعلقات تھے۔بی جے پی کا کھل کہ سیاسی ساتھ دینے پر جنرل بپن راوت کو جنوری 2020 میں چیف آف ڈیفنس سٹاف تعینات کر دیا گیا تھا۔ 2015 میں بپن راوت کی زیر کمان 3 کور نے میانمار میں سرجیکل سٹرائیکس کا دعوی کیا تھا۔
2018 کشمیر میں فوجی گاڑی پر فاروق احمد ڈار کو باندھنے والے میجر گگوئی کا بپن راوت نے کھل کر دفاع کیا تھا۔ 2017 میں دوکلم بارڈر پر چائنہ کے خلاف اور 2019 میں بالاکوٹ سرجیکل سٹرائیکس کا ڈرامہ رچا کر مودی کو سیاسی فائدہ پہنچایا گیا۔بپن راوت نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ کشمیری پتھر پھینکنے کے بجائے ہم پر فائر کریں تاکہ ہم انھیں مزہ چکھا سکیں۔ بپن راوت نے مودی سرکار کے شہریت کے نئے قوانین کا بھی کھل کر دفاع کیا تھا۔
بھارت میں اگلے سال پھر الیکشن ہے جبکہ مودی نے امسال جی 20کااجلا س کشمیرمنعقدکرنے کااعلان کررکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ مسلسل اس خدشے کااظہارکیاجارہاہے کہ مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے کی ہوس اوراپنے مذموم مقاصدحاصل کرکے لیے جی 20کے اجلاس کے کے موقع پر پاکستان کے خلاف ایک اور فالس فلیگ آپریشن کرکے عالمی برداری کوگمراہ کرسکتاہے اس لیے ہمیں بیداری کاثبوت دیناہوگا اورمودی کی چالوں کابھرپورجواب دیناہوگا ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

15 − 3 =