تحریر: ماشاءاللہ شاکری (پاکستان میں ایران کے سابق سفیر)
13 جون 2025ء کی صبح صیہونی حکومت نے ہمارے ملک کی سرزمین پر بزدلانہ حملہ کیا، جس کا جواب ایران کی جانب سے ایک فوری کارروائی کی صورت میں دیا گیا۔ صیہونی حکومت کے ساتھ ہمارے ملک کی فوجی کشمکش کے 12 دنوں کے دوران، مختلف حکومتوں اور اقوام کی طرف سے بہت سے ردعمل سامنے آئے، جن میں سے ہر ایک نے متعلقہ فریقین کے طرز عمل کی نشاندہی کی۔ ان تمام ممالک میں، ہندوستان اور پاکستان کی حرکات و سکنات مختلف پہلوؤں کے حوالے سے نہایت اہم ہیں، جن پر ہم نے ذیل کے تجزیہ میں روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ پہلے مرحلے میں ہندوستان کے رویئے کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ بھارت نے ابتدا میں اس تنازع میں اپنی غیر جانبداری برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ہندوستانی حکومت اس ظاہری غیر جانبداری میں اپنے تضادات کو چھپا نہیں سکی۔ اسرائیلی حملے کے آغاز کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کئی دنوں تک خاموش رہے۔ 22 جون کو انہوں نے ایرانی صدر کو فون کیا۔ اس مختصر گفتگو میں دونوں فریقین نے "موجودہ صورتحال” پر تبادلہ خیال کیا۔
مودی نے تصادم کے بڑھنے پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے خطے میں "امن، استحکام اور سلامتی” کے قیام کے لیے "مذاکرات اور سفارت کاری” کی سفارش کی۔ مودی کے بیانات سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اسرائیلی حکومت کی مذمت کرنے سے گریز کر رہے تھے۔ یہ بات چیت اس سے چند گھنٹے قبل ہوئی ہے، جب امریکہ ایران کے خلاف جنگ میں داخل ہوا اور اس نے نطنز، فردو اور اصفہان کے جوہری مقامات پر حملے انجام دیئے۔ مودی نے اس گفتگو میں یا اس کے بعد کے بیانات میں امریکی مداخلت کا ذکر تک نہیں کیا۔ شاید حیرت کی بات نہ ہو، حملے کے پہلے دن 13 جون کو اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ہندوستانی ہم منصب کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ایرانی سرزمین پر اپنے حملے کا جواز پیش کیا۔ اس گفتگو میں مودی نے ’’تعلقات میں کمی‘‘ کا ذکر نہیں کیا اور صرف ’’خطے میں امن اور استحکام‘‘ قائم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اس حوالے سے ایک اور واقعہ قابل ذکر ہے۔ 12 جون کو، صیہونی حکومت کے ایرانی سرزمین پر حملے سے ایک دن پہلے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک قرارداد منظور کی گئی، جس میں "غزہ میں متحارب قوتوں اور صیہونی غاصب فوج کے درمیان فوری، غیر مشروط اور مستقل جنگ بندی” کا مطالبہ کیا گیا۔ قرارداد میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ کی ناکہ بندی اٹھائے اور غزہ کے عوام تک خوراک کی امداد پہنچانے کے لیے تمام گزرگاہیں کھول دے۔ یہ شاید نیتن یاہو کی فون کال کی وجہ سے تھا یا اس کی دیگر وجوہات تھیں کہ بھارت ان 19 ممالک میں شامل ہوگیا، جنہوں نے قرارداد پر ووٹنگ سے پرہیز کیا۔ بھارت واحد ایشیائی ملک تھا، جس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ یہ قرارداد برطانیہ اور آسٹریلیا کے مثبت ووٹوں سمیت 149 ووٹوں سے منظور ہوئی۔ یہ بھی شاید نیتن یاہو کے فون کال کی وجہ سے تھا کہ ہندوستان نے چین کی پہل پر شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے جاری کردہ بیان کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اس بیان میں ایران پر اسرائیل کے حملے کی مذمت کی گئی تھی۔
متعدد ہندوستانی سیاست دان اور یہاں تک کہ تجزیہ کار، جیسے ششی تھرور (ایم پی) اور سبرامنیم جے شنکر (وزیر خارجہ)، ہندوستان کے اس طرز عمل کو ملک کی "ملٹی الائنمنٹ پالیسی” کا نام دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک ایسا تصور ہے، جس کی ہندوستان بین الاقوامی برادری میں عکاسی کرنا چاہتا ہے۔ یعنی ہندوستان امن ساز کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے یا کم از کم اس کی تصویر پیش کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اگر دہلی کا رجحان جانبدارانہ ہوگا تو اس کی امن ساز کردار ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے۔ تاریخی مثالوں کی روشنی میں، اس طریقہ کار کا انتخاب ہندوستان کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بنا ہے۔ یہ اپنے ہاتھوں میں موجود باقی اوزاروں کو سست کر دیتا ہے اور ڈاکٹر شانتی میریٹ ڈی سوزا کے الفاظ میں، یہ بین الاقوامی برادری میں ایک پسماندہ عنصر بن جاتا ہے۔
شاید، ہندوستان کے رویئے کا تجزیہ کرتے ہوئے، اگر ہم اعداد و شمار اور اقتصادی اشاریوں کو سامنے رکھیں تو ہندوستان کی پوزیشن کو سمجھنا آسان ہوسکتا ہے۔ ایران کے ساتھ ہندوستان کے اقتصادی تعلقات، جن کا ماضی شاندار تھا، اب بہت نازک صورتحال سے دوچار ہیں۔ بھارت (جو کبھی غیر وابستہ ملک تھا) نے امریکہ کے کہنے پر ایرانی تیل خریدنا بند کر دیا۔ گذشتہ مالی سال میں ایران کو ہندوستان کی برآمدات 1.25 بلین ڈالر تھیں اور ہمارے ملک سے برآمدات نہ ہونے کے برابر تھیں۔ جن لوگوں کو اس سال 8 مئی کو (حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران) دونوں ممالک کی مشترکہ کمیشن کی آخری میٹنگ یاد ہے، انہیں مزید وضاحت کی ضرورت نہیں۔ صیہونی حکومت نے گذ شتہ سال بھارت کو 2.9 بلین ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے۔ اس کے علاوہ، تجارتی سامان کی تجارت کے لحاظ سے ہندوستان ایشیا میں صیہونی حکومت کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ یہ تعداد 2023ء میں 10.77 بلین ڈالر تک پہنچ گئی (اسرائیلی ہتھیاروں کی قیمت کو چھوڑ کر)۔
ہندوستان مشرق وسطیٰ اقتصادی راہداری کے رکن ممالک کی زنجیر میں تل ابیب کا مقام خاص ہے۔ صیہونی حکومت نے پاکستان کے ساتھ فوجی تصادم میں واضح طور پر بھارت کی سیاسی، انٹیلی جنس اور ہتھیاروں کے حوالے سے حمایت کی۔ ایران کی چابہار بندرگاہ کے ترقیاتی پروگرام میں ہندوستان کی موجودگی کی شکل اور عمل دخل، ہندوستانیوں کے مبالغہ آرائی کے باوجود، ایران کے بارے میں ہندوستان کی اقتصادی پالیسی دکھاوا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے اس بندرگاہ میں اپنی معمولی سرمایہ کاری کے ساتھ اپنے ایجنٹوں کو اس بندرگاہ میں داخل ہونے کا ایک بہانہ فراہم کیا ہے۔ مذکورہ بندرگاہ میں ہندوستان کی موجودگی کی وجہ سے ہمارے ملک سے چین کی طرف ٹرانسپورٹیشن میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ ان حقائق کے باوجود ہندوستانی مبصرین چابہار منصوبے کو دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی واحد خصوصیت سمجھتے ہیں۔
تاہم، ہندوستانی رائے عامہ اور معاشرے میں خاص طور پر مسلمانوں میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (IRGC) کے لیے مقبول حمایت موجود ہے۔ اس کے علاوہ، ایران اسرائیل جنگ کے تناظر میں کچھ ہندوستانی سیاسی حلقوں، جیسے کانگریس پارٹی اور بائیں بازو کی جماعتوں نے ہندوستانی حکومت کے پرو اسرائیل موقف پر تنقید کی ہے۔ حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کی رہنماء سونیا گاندھی نے بھارتی حکومت کے رویئے کو "بھارت کے اخلاقی اور روایتی معیارات سے ہٹنا” قرار دیا۔ تاہم، سونیا گاندھی کے بیانات اور ایران کی حمایت میں ہندوستان میں کچھ عوامی یکجہتی اور اتفاق رائے کا بی جے پی حکومت پر کوئی خاص اثر ہونے کا امکان نہیں ہے۔ تاہم، بھارتی میڈیا پر ہونے والے کچھ تجزیئے یہ بتاتے ہیں کہ بھارت کو اپنی مغربی ایشیا کی پالیسی کے تناظر میں نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ایک مفاہمت کار کے طور پر اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنے کا خواہش مند ہے تو اسے اپنی غیر جانبداری ثابت کرنا ہوگی۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنے دفاعی اور اقتصادی مفادات میں بھی توازن رکھنا ہوگا۔ اگر ہندوستانی منظر نامے کو مناسب وزن دینا ہے تو اس مبہم بیان کو واضح بیانیہ میں تبدیل کرنے پر زیادہ توجہ دی جانی چاہیئِے۔
تازہ ترین خبروں اور تبصروں کیلئے ہمارا واٹس ایپ چینل فالو کیجئے۔