تحریر: ایس اے زاہد
اسرائیل کے بارے میں پاکستان کا مؤقف تاریخی اور واضح ہے۔ پاکستان طویل عرصے سے فلسطین کاز کے سخت ترین حامیوں میں سے ایک ریاست کے طور پر نمایاں ہے جو کہ دیگر مسلم ممالک کے مقابلے میں اس بارے میں اپنے مضبوط مؤقف پر قائم ہے۔
اس پوزیشن کی جڑیں ایک اسلامی جمہوریہ کے طور پر پاکستان کی شناخت اور امت مسلمہ کے ساتھ اس کی وسیع تر وابستگی میں پیوست ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تصور پاکستان کی اس شناخت کے بالکل متضاد ہے۔ فلسطین نواز مؤقف نہ صرف سیاسی ہے بلکہ یہ پاکستانی معاشرے اور رائے عامہ میں گہرا سرایت اختیار کر چکا ہے۔
اس کی جھلک پاکستانی حکومتوں کی مسلسل پالیسیوں سے واضح نظر آتی ہے جن میں فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے اقدامات کی کھلی مذمت ، سفارتی تعلقات سے انکار اور اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی فورمز پر کھل کر فلسطینی ریاست کی حمایت شامل ہے ۔ پاکستان کے اسرائیل مخالف جذبات کی شدت کا اندازہ 1948ءمیں اسرائیل کے قیام کی شدید مخالفت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ پاکستان نے اسرائیل کے قیام کی مخالفت کرنے والی دیگر مسلم اقوام کے ساتھ اتحاد کرتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم (OIC) اور دیگر اسلامی بلاکس میں رکنیت کے ذریعےاپنے مؤقف کو مزیدمضبوط کیا جہاں فلسطین کا ز ایک مرکزی مسئلہ رہا ہے۔
بطور وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی نے اپنے دور حکومت میں ’’عوامی طور‘‘ پر فلسطینی کاز کے لئے پاکستان کی روایتی حمایت کو برقرار رکھا ، غزہ میں اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی، فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کا اظہار کیا اور مسئلہ فلسطین کے حل تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے خیال کو مسترد کر دیا۔
یہ پوزیشن ملکی توقعات اور پاکستان کی دیرینہ خارجہ پالیسی کے مطابق تھی لیکن وہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے مؤقف کا از سرنو جائزہ لینے کے عوامی بیانات کے برعکس خواہاں تھے۔ بانی پی ٹی آئی کے برطانیہ کی گولڈ اسمتھ فیملی کے ساتھ قریبی تعلق اور اس فیملی کا اسرائیل نو از نظر یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ گولڈ اسمتھ فیملی کا برطانیہ میں سیاسی اثر و رسوخ بھی واضح ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے اس فیملی کے ساتھ قریبی تعلق کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ لندن میئر کے انتخاب کے موقع پر انہوں نے جمائما کے بھائی زیک گولڈ اسمتھ کی کھل کر حمایت کی یہاں تک کہ مسلم امیدوار صادق خان کی مخالفت اور زیک کی حمایت کے لیے کوششیں کیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی ہمدردیاں کن کے ساتھ ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ بانی پی ٹی آئی نے گولڈ اسمتھ فیملی کے ذریعے اسرائیلی حکام کو پیغامات بھیجے جن میں پاکستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے اور پاکستان میں مذہبی گفتگو کو اعتدال پر لانے کے لئے رضامندی کا اشارہ ملتا ہے۔ اگر یہ رپورٹس درست ہیں تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل کے بارے میں ان کے نقطہ نظر میں کتنی لچک ہےاوریہ پاکستان کے مؤقف سےکتنا متضاد و بر عکس رویہ ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ بانی پی ٹی آئی اپنی سابقہ بیوی جمائما کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ رابطے میں تھے۔ گزشتہ دنوں اسرائیلی اخبار ’’ٹائمز آف اسرائیل‘‘ میں ایک محقق صحافی غیور بشیرو وا کا ایک بلاگ شائع ہوا ہے جس میں بہت اہم اور چونکا دینے والے چشم کشا انکشافات کئے گئے ہیں۔ مضمون میں لکھا گیا ہےکہ اس معاملے میں اسرائیل اور گولڈ اسمتھ فیملی کے تعلقات کو مد نظر رکھنا ضروری ہے ۔ جبکہ دوسری طرف بانی پی ٹی آئی اور اس فیملی کےقریبی تعلق کا اہم اور بنیادی کردار ہے۔
مذکورہ مضمون میں مزید لکھا گیا کہ زیک گولڈ اسمتھ کے برطانیہ میں یہودیوں اور اسرائیل کے حامی گروپس کے ساتھ تعلقات نے بانی پی ٹی آئی کو متاثر کرتے ہوئے نئی سوچ دینے میں کردار ادا کیا ہوگا۔ تبھی تو انہوں نے لندن میئر کے انتخاب میں سامنے آکر ایک مسلمان کے مقابلے میں زیک کی حمایت کی تھی۔
مضمون نگار کے مطابق بانی پی ٹی آئی ایک لچکدار شخصیت کے مالک ہیں اسلئے پاکستان میں فلسطینیوں بارے مؤقف میں تبدیلی کے لیے وہ موزوں شخصیت ہیں جیسا کہ وہ پس پردہ اسرائیلی حکام کے ساتھ رابطوں میں یہ اشارہ دیتے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی دور حکومت میں بعض حکومتی سیاسی شخصیات کے اسرائیل کے خفیہ دورے کا بھی چرچا ہوا تھا لیکن اس وقت اس معاملے کو جلد دبادیا گیا تھا۔
اس مضمون سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی صہیونیوں کی ضرورت تھے اور ہیں۔ اور ان کی رہائی کے بینفشری بھی وہیں ہونگے۔ اگرچہ یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ فلسطینیوں کے قتل عام پر پاکستانی عوام کی سوچ کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ اگر بانی پی ٹی آئی اسرائیل کی ضرورت ہیں تو خود ان کو بھی اس وقت ہر اس ذریعے کی مدد درکار ہے جو ان کی رہائی میں تعاون کر سکے ۔
مذکورہ آرٹیکل کےبیان کئے گئے حقائق تک پہنچنا نہ صرف حکومت کا فرض ہے بلکہ ضروری ہے کہ قوم کو تحقیقات کے نتیجے میں سامنے آنے والے سچ سے آگاہ کرے کیونکہ اگر یہ سچ ہے تو یہ فلسطین کاز کو نقصان پہنچانے اور قوم کے جذبات مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
بشکریہ جنگ