تحریر: محمد شاهد رضا خان
زمانہ حاضر کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ جو اہلبیت علیہم السلام کے پیروکاروں کے درمیان خاص اہمیت کا حامل ہے وہ یہ ہے کہ امام زمانہ عجل اللہ تعالی کے دور غیبت میں ان کے شیعوں اور چاہنے والوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟ تاکہ وہ ان پر عمل پیرا ہو کر آپ(ع) کے ظہور کے لیے زمینہ ہموار کریں۔ اس تحریر میں ہم بغیر کسی تمہید اور مقدمہ کے ان ذمہ داریوں میں سے چند ایک کی طرف اشارہ کرتے ہیں جنہیں ہمیں ایک منتظر ہونے کے عنوان سے انجام دینا ضروری ہے ورنہ ہم آپ (ع) کے سچے منتظر نہیں سو سکیں گے:
1: امام عصر (ع) کی معرفت
یہ حقیقت ہے کہ جب تک ہم امام وقت علیہ السلام کو نہیں پہچانیں گے، ان کی معرفت حاصل نہیں کریں گے ہرگز ان کے واقعی انتظار کرنے والے نہیں بن سکتے ہیں۔ امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ ایک دن امام حسین علیہ السلام اپنے اصحاب کے مجمع میں داخل ہوئے اور خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اکرم (ص) پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:
«يا ايها الناس ان الله ما خلق العباد الا ليعرفوه فاذا عرفوه عبدوه فاذا عبدوه استغنوا بعبادته عن عبادة من سواه، فقال له رجل: بابى انت وامى يابن رسول الله ما معرفة الله؟
قال: معرفة اهل كل زمان امامهم الذى يجب عليهم طاعته (1)؛
اے لوگو! خداوند عالم نے بندوں کو صرف اس لیے پیدا کیا ہے کہ اس کی معرفت حاصل کریں، جب اس کی معرفت حاصل کر لیں تو اس کی عبادت کریں اور جب اس کی عبادت کریں تو اس کے غیر کی عبادت سے بے نیاز ہو جائیں۔ ایک شخص نے عرض کیا: اے فرزند رسول میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں، اللہ کی معرف سے کیا مراد ہے؟
فرمایا: ہر زمانے کے لوگوں کو اپنے اس امام کی معرفت حاصل کرنا جس کی اطاعت ان پر واجب ہے۔
اسی طرح رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهلية (2)؛
جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت حاصل کئے بغیر مر جائے تو وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔
امام زمانہ (ع) کے دوران غیبت میں جن دعاوں کو پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے ان کے مضامین کی طرف توجہ کرنے سے بھی اس مسئلہ کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ان دعاوں میں سے ایک معروف و مشہور دعا جو شیخ صدوق علیہ رحمہ نے اپنی کتاب کمال الدین میں نقل کی ہے پڑھتے ہیں:
«اللهم عرفنى نفسك فانك ان لم تعرفنى نفسك لم اعرف نبيك، اللهم عرفنى نبيك فانك ان لم تعرفنى نبيك لم اعرف حجتك، اللهم عرفنى حجتك فانك ان لم تعرفنى حجتك ضللت عن دينى (3)؛
خدایا! تو خود ہمیں اپنی معرفت دلا، اگر تو نے اپنی معرفت نہ دلائی تو ہم تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے، بارالہا! ہمیں اپنے نبی کی معرفت دلا، اگر تو نے اپنے نبی کی معرفت نہ دلائی تو ہم تیری حجت کی معرفت حاصل نہیں کر پائیں گے۔ پروردگارا! اپنی حجت کی معرفت دلا اگر تو نے اپنی حجت کی معرفت نہ دلائی تو ہم اپنے دین سے گمراہ ہو جائیں گے۔
2: ولایت اہلبیت علیہم السلام سے تمسک
اہلبیت(ع) کی ولایت دو طرح کی ہے:
1؛ ولایت تکوینی۔
2؛ ولایت تشریعی۔
ولایت تکوینی کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ معصومین علیہم السلام اذن الہی سے کائنات کے اندر تصرف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ جیسے انبیاء اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے معجزات کا رونما ہونا ان کے ولایت تکوینی کے مالک ہونے کی دلیل ہے۔
ولایت تشریعی کا مطلب یہ ہے کہ ائمہ معصومین (ع) مومنین اور اسلامی سماج کے سرپرست اور ہادی ہیں۔ بنابر ایں ائمہ معصومین میں سے ہر امام اپنے زمانے میں اپنی امت کا ہادی اور سرپرست رہا ہے اور ان کی ہدایت کرتا رہا ہے۔
عصر غیبت میں امام علیہ السلام کا انتظار کرنے والوں کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ولایت ائمہ معصومین سے متمسک رہیں۔ ان کے کائنات میں حق تصرف رکھنے کے معتقد اور ان کی ہدایت تشریعی پر عمل پیرا رہیں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
«طوبى لشيعتنا المتمسكين بحبلنا فى غيبة قائمنا (4)؛
خوش نصیب ہیں ہمارے وہ شیعہ جو ہمارے قائم کے زمانے میں ہماری ولایت سے متمسک رہیں۔
امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا:
«من ثبت على موالاتنا «ولايتنا» فى غيبة قائمنا اعطاه الله عزوجل اجرالف شهيد من شهداء بدر و احد (5)؛
جو شخص ہمارے قائم کی غیبت کے دور میں ہماری دوستی اور ولایت پر ثابت قدم رہے خداوند عالم ان ہزار شہیدوں کا اجر و ثواب اسے عطا کرے گا جو بدر و احد میں شہید ہوئے ہوں۔
اور امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
«ياتى على الناس زمان يغيب عنهم امامهم؛
ہمارے شیعوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ان کا امام ان سے غائب ہو جائے گا۔
زرازہ نے پوچھا:
اس دور میں لوگ کیا کریں گے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا:
«يتمسكون بالامر الذى هم عليه حتى يتبين لهم (6)؛
وہ اس امر (ولایت) سے متمسک رہیں گے جو ان کے اوپر قرار دی گئی ہو گی یہاں تک کہ ظہور ہو جائے۔
3: انتظار فرج
عصر غیبت میں مومنین کا ایک فریضہ یہ ہے کہ اپنے امام کا شدت سے انتظار کریں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: «افضل اعمال امتى انتظار الفرج (7)؛
میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے۔
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «اقرب ما يكون العباد من الله جل ذكره و ارضى ما يكون عنهم اذا افتقدوا حجة الله جل و عز و لم يظهر لهم و لم يعلموا مكانه و هم فى ذلك يعلمون انه لم تبطل حجة الله جل ذكره و لا ميثاقه، فعندها فتوقعوا الفرج صباحا و مساء (8)؛
اس وقت بندے اللہ سے نزدیک ہوں گے اور اللہ ان سے راضی ہو گا جب اللہ کی حجت ان کے درمیان سے غائب ہو اور وہ اس کی جگہ کو نہ پہنچانتے ہوں اس کے باوجود وہ یہ یقین رکھتے ہوں کہ خدا کی حجت ہمارے درمیان سے نہیں اٹھی ہے۔ لہذا وہ صبح و مساء اس کے ظہور کا انتظار کرتے رہیں۔
امام صادق علیہ السلام نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کرتے ہوئے فرمایا: «سياتى قوم من بعدكم، الرجل الواحد منهم له اجر خمسين منكم، قالوا: يا رسول الله! نحن كنامعك ببدر و احد و حنين و نزل فينا القرآن؟ فقال: انكم لو تحملوا لما حملوا لم تصبروا صبرهم (9)؛
تم لوگوں کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس میں سے ہر ایک شخص تم میں پچاس افراد کا ثواب کمائے گا۔ کہا: یا رسول اللہ! ہم جنگ بدر و احد اور حنین میں آپ کے ساتھ تھے اور ہمارے درمیان قرآن نازل ہوا ہے؟ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: جو کچھ وہ تحمل اور برداشت کریں گے اگر تم کرنا چاہو تو ان جیسا صبر نہیں کر پاو گے۔
دوسری مرتبہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: انتظار الفرج بالصبر عبادة (10)؛
صبر اور حوصلہ کے ساتھ ظہور کا انتظار کرنا عبادت ہے۔
امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں: «ما احسن الصبر و انتظار فرج (11)؛
کتنا اچھا ہے صبر کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔
امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: «له غيبة يرتد فيها اقوام و يثبت فيها على الدين آخرون، فيؤذون و يقال لهم: «متى هذا الوعد ان كنتم صادقين » اما ان الصابر فى غيبته على الاذى و التكذيب بمنزلة المجاهد بالسيف بين يدى رسول الله (12)؛
اس(مھدی) کے لیے غیبت کا دور ہو گا کہ جس میں کچھ قومیں دین سے خارج ہو جائیں گی اور کچھ اپنے دین پر باقی رہیں گی۔ پس انہیں اذیت و ازار دی جائے گی اور ان سے کہا جائے گا: اگر تم سچ کہتے ہو تو یہ ظہور کا وعدہ کب پورا ہو گا؟ لیکن جو لوگ اس اذیت و ازار اور دشمنوں کی طرف سے جھٹلائے جانے کے باوجود ان کی غیبت پر صبر سے کام لیں گے ان کا مقام اس مجاہد کی طرح ہو گا جس نے رقاب رسول خدا (ص) میں تلوار چلائی ہو۔
4: اصلاح نفس
منتظرین کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ خود کی اصلاح کریں، اخلاق حسنہ اور صفات کمالیہ سے اپنے آپ کو آراستہ و پیراستہ کریں۔ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «من سره ان يكون من اصحاب القائم، فلينتظر وليعمل بالورع و محاسن الاخلاق، و هو منتظر (13)؛ جو شخص چاہتا ہے کہ امام ہمارے قائم کے اصحاب میں سے ہو، اسے چاہیے کہ انتظار کرے، ورع اور پرہیز گاری اختیار کرے اور نیک اخلاق اپنائے پس ایسا شخص حقیقی منتظر ہو گا۔
اسی طرح امام صادق علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا: «ان لصاحب هذا الامر غيبة فليتق الله عبده وليتمسك بدينه (14)؛
بتحقیق صاحب امر کے لیے ایک غیبت کا زمانہ ہو گا لہذا اللہ کے بندوں کو تقویٰ اختیار کرنا ہو گا اور ان کے دین سے متمسک رہنا ہو گا۔
5: سماجی اصلاح
دوران غیبت میں مومنین کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماج اور معاشرے کی اصلاح بھی کریں۔اگر ہر انسان اس ذمہ داری کو سمجھ کر اپنے گھر سے شروع کرے تو یقینا سماج خود بخود سدھر جائے گا، معاشرے سے برائیاں ختم ہو جائیں گی اور نتیجۃ پورا معاشرہ امام زمانہ(ع) کی حکومت کو قبول کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔
امام باقر علیہ السلام نے دوران غیبت شیعوں کی ذمہ داریوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «ليعن قويكم ضعيفكم و ليعطف غنيكم على فقيركم ولينصح الرجل اخاه النصيحة لنفسه (15)؛
تم میں سے صاحبان قدرت ضعیفوں کی مدد کریں، غنی اور مالدار فقیروں کی دستگیری کریں اور ہر انسان اپنے بھائی کو مفید نصیحت کرے۔
خداوند عالم کا اشاد ہے: «كنتم خير امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون عن المنكر)… (16)؛
تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کے لیے خلق کیا گیا ہے (چونکہ) تم نیکی کی ہدایت کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔۔۔
امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «ان الامر بالمعروف و النهى عن المنكر سبيل الانبياء و منهاج الصلحاء، فريضة عظيمة بها تقام الفرائض و تامن المذاهب و تحل المكاسب و ترد المظالم و تعمر الارض و ينتصف من الاعداء و يستقيم الامر (17)؛
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر انبیاء کا راستہ اور صلحا کا طریقہ ہے۔ یہ ایک ایسا عظیم فریضہ ہے جس سے فرائض اور واجبات قائم رہتے ہیں، راستے پر امن رہتے ہیں، معیشت حلال ہوتی ہے، مظالم اور فساد کم ہو جاتے ہیں، زمین آباد ہوتی ہے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور دیگر امور آسانی سے انجام پاتے ہیں۔
یقینا اگر تمام مسلمان امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو فریضہ سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوں تو معاشرہ ہدایت کے راستوں پر گامزن ہو جائے اور حکومت قائم آل محمد (ص) کے لیے زمینہ فراہم ہو جائے گا۔
منابع:
1) بحارالانوار، ج 5، ص 312 و كنز الفوائد، كراجكى، ص 151.
2) بحار الانوار، ج 8، ص 368 و ج 32، ص 321 و ينابيع الموده، القندوزى، ج 3، ص 372.
3) كمال الدين، ج 2، ص 512.
4) وہی حوالہ، ج 2، باب 34، ح 5.
5) وہی حوالہ ، ج 1، ص 439.
6) وہی حوالہ ، ج 2، باب 33، ح 44.
7) مجمع البحرين، ص 297.
8) كافى، ج 2، باب نادر فى الغيبه، ص 127.
9) كافى، ج 8، ص 37 و مكيال المكارم، ج 2، ص 290.
10) الدعوات، قطب الدين راوندى، مدرسة الامام المهدى، ص 41.
11) بحار الانوار، ج 52، ص 129.
12) كمال الدين، ج 1، ص 437.
13) غيبت نعمانى، ص 200، ح 16.
14) كافى، ج 2، باب فى الغيبه، ص 132.
15) بشارة المصطفى لشيعة المرتضى، عماد الدين طبرى الآملى الكنجى، چاپ نجف اشرف، ص 113. 16) آل عمران/110.
17) الكافى، ج 5، ص 56؛ التهذيب طوسى، ج 6، ص 180 و تحف العقول، ص 227.