جون 7, 2025

سیاسیات- ہبر معظم نے امام خمینی کی برسی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امام خمینی نے ملک کو خودمختاری عطا کی جس کا مطلب یہ ہے کہ ایران امریکی اشاروں کا انتظار نہیں کرتا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کی رپورٹ کے مطابق، رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے تہران میں امام خمینی کی 36 ویں برسی کی تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران اپنی پالیسی اور فیصلوں میں کسی کا تابع اور حکم کا محتاج نہیں۔

تفصیلات کے مطابق امام خمینیؒ کی 36ویں برسی کے موقع پر تہران میں ایک عظیم الشان عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے رہبر معظم نے حضرت امام خمینیؒ کی پاکیزہ روح کو سلام اور ان کے درجات کی بلندی کی دعا سے کیا۔

انہوں نے کہا کہ کل عرفہ کا دن ہے، جو دعا کا موسم بہار ہے۔ میں نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس دن دعا کریں، اپنی حاجات اور مقاصد خداوند متعال کے حضور پیش کریں اور اس سے مدد طلب کریں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سیاسی نظام جو الحمدللہ آج طاقتور ہورہا ہے، ایک عظیم انقلاب کا ثمر ہے۔ اس انقلاب کے بانی وہ عظیم رہنما ہیں جن کی وفات کو تین دہائیاں گزرچکی ہیں، لیکن ان کی موجودگی آج بھی محسوس کی جاتی ہے اور ان کا انقلابی اثر دنیا پر نمایاں ہے۔ دنیا میں امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ اور صہیونیت سے نفرت دراصل امام خمینیؒ کے انقلاب کی مرہون منت ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے کہا کہ آج مغربی دنیا میں ایک رجحان پیدا ہوچکا ہے کہ لوگ مغربی اقدار سے بیزار ہو رہے ہیں۔ امام خمینیؒ نے ایسا انقلاب برپا کیا جس نے مغرب کو حیران کر دیا۔ وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ ایک ایسا روحانی شخص بغیر کسی اسلحے یا مالی وسائل کے پوری قوم کو میدان میں لے آئے گا۔ انہیں یہ امید نہ تھی کہ یہی انقلاب اور یہی امام امریکہ اور صہیونیوں کو جو برسوں سے ایران پر مکمل تسلط رکھتے تھے، جڑ سے اکھاڑ کر باہر نکال دیں گے۔

رہبر انقلاب نے مزید کہا کہ اگر انقلاب کے بعد کوئی مغرب نواز حکومت برسرِ اقتدار آتی چنانچہ ابتدا میں کچھ آثار موجود تھے تو مغربی طاقتیں یقیناً دوبارہ ایران میں اثر و رسوخ پیدا کر لیتیں اور اپنے ناجائز مفادات حاصل کرتیں، لیکن امام خمینیؒ نے اسلامی اصولوں پر استوار ایک واضح اور دوٹوک موقف اپنایا۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال میں جتنی سازشیں اسلامی انقلاب کے خلاف ہوئیں، دنیا کے کسی معروف انقلاب کے خلاف نہیں ہوئیں۔ اسلامی جمہوریہ نے ہر قسم کی دشمنی، منصوبہ بندی اور سازشوں کے خلاف صبر و استقامت کا مظاہرہ کیا۔ اگر گنا جائے تو شاید ہزار سے زائد سازشیں ایسی ہوں جنہیں اسلامی جمہوریہ نے ناکام بنایا اور بعض کا منہ توڑ جواب بھی دیا۔

رہبر معظم نے کہا کہ احساسات اور جذبات سماجی تحریکوں کے عقلی اور نظریاتی اہداف پر اثرانداز ہوتے ہیں، اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب جذبات کی شدت کم ہو جاتی ہے، تو انقلاب کی وہ راہ بدل جاتی ہے جس مقصد کے لیے وہ برپا کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر فرانسیسی انقلاب میں جذبات کے غلبے کی وجہ سے اس کے اصل مقاصد کو فراموش کردیا گیا۔ لیکن امام خمینیؒ نے اسلامی انقلاب کو جذبات کی اس تباہ کن آفت سے محفوظ رکھا۔

انہوں نے کہا کہ امام خمینی نے جذباتی فیصلوں اور انقلاب کو انحراف سے بچانے کے لئے خصوصی حکمت عملی اختیار کی۔ ولایت فقیہ اور قومی خودمختاری دو بنیادی اصول تھے جو امام کے ذہن میں تھے اور جسے وہ بارہا دہراتے تھے۔ اگر نظام ولایت فقیہ نہ ہوتا تو یہ انقلاب دین کی راہ سے منحرف ہو جاتا۔

رہبر معظم نے قومی خودمختاری کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ قومی خودمختاری کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا سے رابطہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانی قوم اور ملک خود اپنے پیروں پر کھڑے ہوں۔ قومی خودمختاری کا مطلب یہ ہے کہ ملک امریکہ یا اس جیسے دوسرے ممالک کی سبز یا سرخ بتی کا منتظر نہ ہو۔ قومی خودمختاری کا ایک اہم اصول یہ ہے کہ ہم اپنی توانائیوں پر یقین کریں۔

انہوں نے کہا کہ جوہری معاملے میں امریکہ کا منصوبہ مکمل طور پر اس سوچ کے خلاف ہے۔ مزاحمت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بڑی طاقتوں کی مرضی کے سامنے سر نہ جھکائے۔ قومی خودمختاری کا ایک اور اہم اصول ملک کی دفاعی طاقت کو بڑھانا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران نے برسوں کی کوششوں سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے۔ جوہری ٹیکنالوجی صرف توانائی ہی نہیں بلکہ اس سے متعدد شعبے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ یورینیم کی افزودگی جوہری پروگرام کا کلیدی عنصر ہے اور دشمنوں نے اسی نکتے کو نشانہ بنایا ہے۔ ماضی میں 20 فیصد ایندھن کے لیے امریکہ پر انحصار کا تجربہ کیا گیا اور اس کا ناقابل اعتماد ہونا ثابت ہوگیا۔

رہبر معظم نے کہا کہ امریکہ کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ ایران کے پاس ایٹمی ٹیکنالوجی نہ ہو، تاکہ ایران کو امریکہ کی ضرورت رہے۔ ہمارا جواب بالکل واضح ہے کہ امریکہ اس بارے میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ آپ کون ہوتے ہیں فیصلہ کرنے والے کہ ایران کو افزودگی کا حق ہے یا نہیں؟ آپ کی حیثیت ہی کیا ہے؟

رہبر انقلاب نے صہیونی مظالم پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کے مظالم، خاص طور پر غزہ میں ناقابلِ یقین حد تک وحشیانہ ہیں۔ نتن یاہو کس قدر پست، حقیر اور شریر ہے! امریکہ اس ظلم میں شریک ہے اور اسے خطے سے نکال باہر کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے اسلامی ممالک کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطین کے مسئلے پر اسلامی حکومتوں کی بڑی ذمہ داری ہے۔ آج مصلحت پسندی، خاموشی یا غیر جانبداری کا دن نہیں ہے۔ اگر کوئی حکومت کسی بھی صورت میں صہیونی حکومت کی حمایت کرے، تو وہ یقین رکھے کہ یہ اس کے ماتھے پر ہمیشہ کے لیے ایک ننگ ہوگا۔ خطے کی حکومتیں جان لیں کہ صہیونی حکومت پر تکیہ کرکے کسی بھی حکومت کو تحفظ حاصل نہیں ہوسکتا۔ یہ حکومت خدا کے حکم سے زوال کے دہانے پر ہے اور ان شاء اللہ جلد ہی فنا ہو جائے گی۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 × five =