نومبر 24, 2024

روسی صدر نے یوکرین تنازعہ کے حل کے لئے نیا فارمولہ پیش کر دیا

سیاسیات ـ یوکرین کا تنازعہ حل کرنے کیلئے نیا امن فارمولہ پیش کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ یوکرین تنازعہ روس سے مخلصانہ بات چیت کیے بغیر کبھی حل نہیں ہوگا۔

صدر پیوٹن نے کہا کہ روس تاریخ کا سانحے سے بھرا صفحہ پلٹ کر یوکرین اور یورپ سے تعلقات بتدریج بہترکرنا چاہتا ہے تاہم اگر یوکرین اور مغرب بات چیت کی پیشکش کو مسترد کرتے ہیں تو وہی خون خرابے کے ذمہ دار ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ روس پہلے روز سے امن چاہتا ہے مگر مغرب نہ صرف روس کے مفادات کو نظرانداز کررہا ہے بلکہ یوکرین کو روس سے مذاکرات کرنے سے بھی روک رہا ہے۔

روسی صدر کا کہنا تھا کہ یہ احمقانہ لگتا ہے کہ ایک طرف یوکرین پر روس سے بات کرنے پر ممانعت ہے اور ساتھ ہی ماسکو سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بات چیت کرے پھر کہہ دیا جاتا ہے کہ روس نے بات چیت سے انکار کردیا ہے۔

یوکرین کا تنازعہ حل کرنے کیلئے نیا امن فارمولہ پیش کرتے ہوئے روسی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرینی افواج روس سے الحاق کرنے والے یوکرینی علاقوں دونیتسک، لوہانسک، خرسون اور زاپورزیا سے مکمل طورپر نکل جائیں اور یوکرین نیٹو میں شمولیت سے انکار کرے تو اس کے بعد ماسکو جنگ بندی کردے گا اور بات چیت کا آغاز کردیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یوکرین سے متعلق سمجھوتوں کو عالمی معاہدے بنانا ہوگا، جس میں کرائیمیا اور سیوستوپول کو بھی روسی علاقے تسلیم کرنا ہوگا۔

صدرپیوٹن نے توقع ظاہر کی کہ یوکرین اپنے قومی مفاد میں اس نتیجے پر پہنچے گا کہ بات چیت کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ مسئلہ کو منجمد کرنا نہیں بلکہ ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کیلئے یوکرین نیوٹرل، غیروابستہ، غیرایٹمی ملک بنے ساتھ ہی غیر فوجی اور غیرنازی بھی ہو۔

صدر پیوٹن نے واضح کیا کہ قانونی طور پر یوکرین کی پارلیمنٹ سے بات چیت کی جاسکتی ہے تاہم انہوں نے موجودہ صدر کے بارے میں کہا کہ زیلنسکی کی قانونی حیثیت بحال نہیں ہوسکتی۔

صدر پیوٹن نے مزید کہا کہ 2021-22 کے سکیورٹی پروٹوکول پر واپسی ناممکن ہے تاہم بات چیت کے بنیادی اصول وہی رہیں گے۔

2021 میں صدر پیوٹن نے بات چیت کیلئے بنیادی شرط رکھی تھی کہ نیٹو کو اپنے فوجی انفرااسٹرکچر کو 1997 کی پوزیشن پر واپس لے جانا ہوگا تاہم 1999 میں ہنگری، پولینڈ اور جمہوریہ چیک نیٹو میں شامل ہوگئے تھے اور 2004 میں بلغاریہ، لیٹویا، لیتھوینیا، رومانیہ، سلواکیہ، سلوینیا اور اسٹونیا بھی نیٹو کا حصہ بنادیے گئے تھے۔

2009 میں البانیا اور کروشیا، 2013 میں مونٹی نیگرو اور 2020 میں شمالی مقدونیہ بھی نیٹو کاحصہ بن گئے اور نیٹو کی اوپن ڈور پالیسی جاری ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

9 − 2 =