جون 1, 2024

پاک،ایران چپقلش پر غم وخوشی کے جذبات

تحریر: علی سردار سراج

آپ میں سے ہر کسی کی زندگی میں ایک ایسا موقع ضرور آیا ہوگا کہ بیک وقت دو متضاد کیفیات کو آپ نے تجربہ کیا ہو۔

امیروں کی زندگی کا نہیں معلوم غریب لوگوں کے لئے یہ ایک آشنا کیفیت ہے۔

بیٹا جوان ہو کر محنت مزدوری کرنے ملک سے باہر جا رہا ہو تو والدین جہاں بیٹے کے فراق میں مغموم ہوتے ہیں وہاں اپنی غربت کے ایام کے خاتمے کا سوچ کر فرط مسرت سے آنکھیں بھی پر نم ہوتی ہیں ۔

ان دنوں ہرمحب وطن پاکستانی کی یہی کیفیت ہے۔

اس کی آنکھوں میں مسرت کے آنسوؤں ہیں تو دل بھی مغموم ۔

وہ خوشی محسوس کر رہا اس بات پر کہ کئی دہائیوں کی ذلت آمیز زندگی میں پہلی دفعہ ایک ایسا موقع بھی ملا کہ وہ اپنے پاکستانی ہونے پر اور افواج پاکستان پر فخر کرکے سر بلند کرے ۔

افواج پاکستان نے اگرچہ اپنے ملک کے مفرور دہشت گردوں پر ہی حملہ کیا ہے،نیز اپنے ہمسایہ، دیرینہ دوست اور برادر اسلامی ملک کے اندر میزائل گرائے ہیں، اس کے باوجود آنکھیں خوشی سے نم ہیں کیونکہ بالآخر یہ ایک ذلت آمیز خاموشی کا پایان لگتا ہے۔

شاید اب ہم اس قابل ہو جائیں کہ ،امریکہ اور ہندوستان کے مقابلے میں بھی ایسا غرور آمیز رد عمل دکھا سکیں، شاید کشمیر، فلسطین اور دوسرے مظلومین کی حمایت کے لئے بھی یہی غیرت جاگ جائے گی؛کیونکہ مظلوم کی حمایت کی پہلی اور اساسی شرط یہی ہے کہ ایک انسان یا ایک قوم احساس عزت اور سر بلندی کرے ۔وگرنہ جس شخص اور قوم کے اندر احساس حقارت اور احساس ذلت پایا جاتا ہو وہ کبھی بھی برائی کو روک نہیں سکتا ہے ۔

یہ فرمان امیر المومنین علیہ السلام ہے۔

لَا یَمْنَعُ الضَّیْمَ الذَّلِیْلُ! وَلَا یُدْرَكُ الْحَقُّ اِلَّا بِالْجِدِّ۔

ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتا اور حق تو بغیر کوشش کے نہیں ملا کرتا۔( خطبہ 29)

پاکستان کو بنانے والے غیور مسلمان تھے لہذا انہوں نے بے سروسامانی کے عالم میں اس ملک کو آزاد بھی کرایا اور اس کی بقاء کے لئے بے پناہ قربانیاں بھی دیں۔

لیکن بدقسمتی سے بہت ہی جلد یہ ملک ان لوگوں کے ہاتھوں میں چلا گیا جنہیں یہ اہم سبق ( مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، کافر ہو تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ) پڑھایا ہی نہیں گیا تھا ۔ لہذا وہ مستکبرین جہان کا اسلحہ اور ظاہری قدرت کے سامنے تسلیم خم ہوئے اور ملک عزیز گویا، امریکہ اور دوسری جابر طاقتوں کی دوسری کالونی بن گیا، جہاں چاہا ڈرون حملے کیے اور جس کو چاہا ملک سے اٹھا کر لے گئے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسے لوگ امریکہ کی جیلوں میں بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اور ملک کو ایٹمی طاقت بنانے والے ڈاکٹر قدیر جیسے ہیروز نظر بندی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

شہر اقتدار اسلام آباد سے صرف ایک سو تین کلومیٹر دور ایبٹ آباد، پر امریکی افواج نے حملہ کرکے اسامہ بن لادن کو قتل کرکے جنازہ اٹھا کر لے گئیں تو بیگانے کی جنگ میں شامل ہوکر اسی ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کو لقمہ اجل بنانے والے جنرل پرویز مشرف کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ کوئی مذمتی بیان ہی دے دیتے ۔ خدا عمران خان کا بھلا کرے کہ اس نے پہلی دفعہ( Absolutely not ) کہہ کر قوم کو بھی سر بلند کیا اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود خود بھی ایک قومی ہیرو میں تبدیل ہو گئے ۔

یہ بار دوم ہے کہ پاکستان کی عظیم قوم احساس غرور کر رہی ہے، کیونکہ ان کی عظیم افواج نے پہلی دفعہ ایک بیرونی حملے پر فوری اور جرآت مندانہ رد عمل دکھایا، یہ قوم اس خوشی پر فرط مسرت کے آنسو بہا رہی ہے اور امید رکھتی ہے کہ اب اقوام عالم کےسامنے سر اٹھا کر جینے کے قابل ہو جائے گی، اور کوئی ہمیں ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں کرے گا چاہیے وہ کوئی سپر پاور ہی کیوں نہ ہو ۔

البتہ یہ خوشی اس صورت میں دیر پا ثابت ہو سکتی ہے کہ پاکستان اندرونی طور پر بھی مستحکم ہو، جو سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی خوشحالی اور امنیت کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔

کوئی بھی ملک اپنے آئین کے خلاف حرکت کرتے ہوئے آگے نہیں بڑھ سکتا ہے ۔

پاکستان کے نام کے اندر اس کے آئین کی عکاسی ہے۔

” اسلامی جمہوریہ پاکستان”

نہ یہ ملک کسی ایک فرقے کا ہے اور نہ اس کے قوانین فرقہ وارانہ سوچ پر بن سکتے ہیں ۔

لہذا وہ لوگ جو اس کو ایک فرقے کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، اور اپنے مخالفین سے حق حیات کو بھی چھین لیتے ہیں، وہ اس ملک کی اساس کے مخالف ہیں،یہ لوگ ملک کو اس کی پٹری سے اتارنے کے خواہاں ہیں۔ بالخصوص مولوی منظور مینگل جیسے لوگ جو اپنے ملک کے علاوہ ہمسایوں کے لئے بھی دہشت گردوں کی تربیت کرتے ہیں۔

سپاہ سالار سید عاصم منیر کے بقول : یہ آج کے خوارج ہیں : خوارج ایک فتنے کا نام ہے،جس کا علاج بصیرت اور حدت شمشیر ہے۔

پاکستان کا آئین اسلامی ہے، تو اس کا نظام حکومت جمہوری ہے۔ جس میں قوہ مجریہ کے انتخاب کے لیے سالم انتخابات کا عمل مظہر جمہوریت اور جمہور کا آئینی حق ہے۔

لہذا کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ جمہور سے اس کا جمہوری حق چھین لے۔

کوئی بھی ملک کے جمہوری نظام میں خلل ایجاد کر رہا ہے تو وہ بھی پاکستان کو انحراف کی طرف دھکیل رہا ہے، فرق نہیں پڑتا ہے کہ وہ یہ کام نیک نیتی کی بنیاد پر کر رہا ہے یا بد نیتی کی وجہ سے ۔

ماہرین کا خیال یہ ہے کہ امنیت اور سیاسی استحکام کے ساتھ ہی ملک کی معیشت مستحکم ہوتی ہے ۔

لہذا ملک کے مقتدر اداروں سے بالخصوص ان لوگوں سے جنہوں نے ایک بیرونی اٹیک کا بروقت جواب دے کر احساس غرور اور مسرت کا سامان فراہم کیا ہے وہ اسے دیرپا بنانے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں گے ۔

بہرحال اس احساس غرور اور مسرت کے ساتھ ساتھ دل مغموم بھی ہے اس کی کئی وجوہات ہیں ۔

1: کیوں بلوچ عوام دہشت گرد بننے پر مجبور ہیں؟

کیا وہ دہشت گرد پیدا ہوتے ہیں یا حالات کا جبر انہیں دہشت گردی کی طرف لے جاتا ہے؟

پاکستان اور ایران کو سنجیدگی سے اس مسئلے پر غور کرنا چاہیے ان عوامل کو برطرف کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ایک قوم زندگی سے تنگ آکر موت کا راستہ اختیار کرتی ہے۔

2: دو برادر ملکوں کے درمیان ایجاد ہونے والی چپقلش کسی بھی صورت ایک مسلمان کے لئے باعث خوشی اور مسرت نہیں ہوتی ہے ۔

3: اس لڑائی میں ایران اور پاکستان دونوں میں سے ایک کی غلطی اور دوسرے کی مجبوری تھی یا دونوں کی غلطی یا دونوں کی مجبوری، ہر صورت میں قرآن کریم دو مسلمانوں کے درمیان لڑائی کی صورت میں صلح اور اصلاح کی دعوت دیتا ہے، اور یہ ذمہ داری دوسرے مسلمانوں کی بنتی ہے۔

لیکن تعجب آور طور پر مسلمانوں کی اکثریت نے یا تماشائی کا کردار ادا کیا یا اس آگ کو مزید شعلہ ور کرنے کے لئے ایندھن فراہم کرتی رہی جبکہ چین جیسا کمونیسٹ ملک نے آگے بڑھ کر صلح و صفائی کی بات کی جو ہر مسلمان کے لئے باعث شرم ہے ۔

3: غزہ کے اندر مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جا رہے ہیں ،ایسے موقعے پر دو اسلامی قوتوں کے درمیان چپقلش موجب درد والم ہے ۔

4: امید تو یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کی سمجھدار اور سنجیدہ قیادت نہ فقط اس لڑائی کو آگے بڑھنے نہیں دے گی بلکہ ان عوامل اور اسباب کو بھی برطرف کرنے کی کوشش کرے گی جو اس طرح کی تلخی کا موجب بنے ہیں، اس کے باوجود یہ تلخ تجربہ تاریخ کے صفحات میں ثبت ہو جائے گا۔

البتہ اس پوری تلخی کے اندر ایک بہت ہی مثبت نقطہ بھی ہے جو حقیقت میں اس آیت کا مصداق ہے ۔

وعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُوا۟ شَيْـًٔا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۔

ممکن ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار گزرے مگر وہی تمہارے لیے بہتر ہو ۔

2-Al-Baqara : 216

وہ یہی کہ اس تھوڑی سی چپقلش سے ایران اور پاکستان کے وہ دیرینہ اور ازلی دشمن بھی سامنے آگئے جن کو اگر تکلیف ہے تو ان دو برادر ملکوں کے درمیان دوستی اور آشتی سے ہے اور اگر کوئی خوشی ہے تو ان کے درمیان دشمنی اور عداوت سے ہے شاید کچھ لوگوں کی دال ہی ان دشمنیوں میں گلتی ہے ۔

بہرحال اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کی خوشیوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ، یہ ایسا واقعہ نہیں ہے جس پر کوئی مسلمان اور محب وطن خوشی کے شادیانے بجائے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

thirteen + nine =