تحریر: انصار عباسی
میرے ایک دوست تحریک انصاف کے بہت بڑے حامی ہیں لیکن ایسی اندھی تقلید کرنے والوں میں شامل نہیں جو حدیں پار کرتے ہوئے پاکستان دشمنی پر اتر آتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حمایت پاکستان میں بہت زیادہ ہے اور اس بنا پر کیا یہ ملکی مفاد میں نہیں کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے کم ہوں اور ملک و قوم کیلئے دونوں اپنی اپنی رنجشیں اور اختلافات بھلا دیں۔
میں نے دوست سے کہا کہ ایسا ممکن ہے لیکن اس کیلئے ایک تبدیلی عمران خان کو اپنے اندر لانا ہوگی اور ایک اہم واقعہ اسٹیبلشمنٹ کو بھلانا ہوگا لیکن یہ دونوں کام ہوتے ہوئے مجھے نظر نہیں آتے۔ میرا کہنا تھا کہ عمران خان نے پاکستان کے اندر سیاست میں نفرت پھیلائی، معاشرے کو تقسیم کردیا اور یہی نفرت فوج کے ادارے کے خلاف بھی پیدا کر دی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں کہ جو نفرت اُن کے اندر اپنے سیاسی مخالفین کے لیے ہے اُسے وہ ختم کر دیں، اُن سے بات کریں، اُن سے ہاتھ ملائیں، قومی اور سیاسی معاملات کے حل کیلئے اُن کے ساتھ بیٹھیں اور اسی طرح فوج کے بارے میں کوئی منفی بات نہ کریں بلکہ ایک بڑے رہنما کی طرح عوام کو جوڑیں اور فوج کے ادارے کے احترام کی بات کریں اور 9؍مئی کے واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے معذرت کریں۔
تاہم ایسا ممکن نہیں۔ عمران خان ایسا نہیں کریں گے اور یہ بات تحریک انصاف کے میرے دوست نے بھی تسلیم کی اور کہا کہ عمران خان کو دل بڑا کرنا چاہیے، اپنے مخالفوں کو اپنا دشمن نہیں سمجھنا چاہیے اور فوج سے کسی صورت لڑنا نہیں چاہیے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو دوبارہ قبول کر سکتی ہے؟ اس پر میری یہ رائے تھی کہ جس طرح گزشتہ ایک ڈیڑھ سال عمران خان نے فوج اور فوجی قیادت کو نشانہ بنایا اور جس طرح عمران خان کے بیانیہ کو لے کر تحریک انصاف کے اندر فوج کے خلاف نفرت پیدا کی گئی جس کے نتیجہ میں 9؍مئی کا واقعہ رونما ہوا، جو فوج کے ادارے پر براہ راست حملہ تھا، اب اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھی ممکن نہیں کہ وہ 9؍مئی کے واقعہ کو بھول جائے۔ یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ ملک کی خاطر دونوں ماضی کو بھلا دیں لیکن میری دانست میں ایسا اب ممکن نہیں۔
یعنی نہ عمران خان بدلیں گے نہ فوج 9؍مئی کو بھلا سکتی ہے۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف کیلئے کیا آپشن بچتے ہیں، کیوں کہ یہ تو حقیقت ہے کہ عمران خان کا ایک بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔ اس بارے میں عمران خان کیلئے سب سے بہتر حکمت عملی یہ ہوسکتی ہے کہ وہ خود کچھ عرصہ کیلئے پیچھے ہٹ جائیں اور اپنا کوئی ایسا جانشین آگے کردیں جو فوج مخالف تصور نہ کیا جاتا ہو اور جس کا 9؍ مئی کےواقعات سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہ ہو۔ لیکن اس کیلئے بھی عمران خان تیار نہیں اور اسی لیے وہ جیل میں موجودگی کے باوجود کسی دوسرے رہنما کو وقتی طور پر بھی پارٹی قیادت دینے کیلئے تیار نہیں۔تحریک انصاف کا المیہ یہ ہے کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کے باوجود پارٹی کی کور کمیٹی ایسے اقدامات کرنے سے بھی ہچکچا رہی ہے جو فوج اور پی ٹی آئی کے درمیان فاصلہ کم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ اب گزشتہ روز بٹگرام واقعہ پر تحریک انصاف کے ووٹروں، سپوٹروں کا سوشل میڈیا پر ردعمل ہی دیکھ لیں۔
نجانے تحریک انصاف کے اندر اپنی ہی فوج کے خلاف اتنی نفرت کہاں سے بھر دی گئی کہ ریسکیو آپریشن میں فوج کے کردار کو ماننےکیلئے تیار نہیں تھے بلکہ الٹا فوج کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا۔ اس موقع پر تحریک انصاف کی قیادت کو بولنا چاہیے تھا، اپنے ٹویٹس، بیانات کے ذریعے فوج کے خلاف منفی پروپیگنڈے کو رد کرنا چاہیے تھا لیکن میں نے ماسوائے تحریک انصاف کے سابق ایم این اے علی محمد خان کے کسی دوسرے رہنما کی طرف سے کوئی ذمہ دارانہ بیان نہیں دیکھا۔ علی نے فوج، ریسکیو سروس، لوکل انتظامیہ اور مقامی افراد سب کی کوششوں کی تعریف کی۔ تحریک انصاف اگر فوج مخالف بیانیہ کو اپنے ووٹروں، سپوٹروں کے ذہنوں سے نہیں نکالتی تو پھر یہ خواہش رکھنا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اُن کے ساتھ تعلقات بہتر ہوجائیںگے، ایک خواب ہو سکتا ہے، حقیقت نہیں۔
بسکریہ روزنامہ جنگ