مئی 14, 2024

انقلاب ایران کے خلاف کاروائیاں (تیسراحصہ)

تحریر: سید اعجاز اصغر

انقلاب مخالف قوتوں نے یونیورسٹی اور ثقافتی مراکز کے درمیان ایسے زرخرید افراد کا انتخاب کیا جنہوں نے دشمن اسلام کے قبیح ایجنڈے کو پورا کرنے کیلٸے غدارانہ کردار ادا کیا اور اب تک ادا کر رہے ہیں، یہ غدار نہ صرف ایران کے خلاف ہیں بلکہ پاکستان عراق، شام ، لبنان اور فلسطین میں اسرائیلی و امریکی ایجنٹوں کے روپ میں دہشتگردی، فرقہ واریت اور تخریب کاری میں ملوث ہوتے ہیں، ان غداروں نے ولایت ولی فقیہ کے خلاف نئی نسل کے ذہنوں کو زہریلا کرنے کا بے بنیاد شوشہ چھوڑا ہے کہ ولایت ولی فقیہ اور امام معصوم علیہ السّلام کا تقابل کر کے نابلد افراد کو مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ
امام خمینیؒ فرماتے ہیں: کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ فقیہ کو عطا کردہ ولایت کی یہ اہلیت اسے نبوت یا امامت کی منزلت تک بلند کر دے گی ،
ولایت فقیہ ایسے نظریہ کا نام ہے جس کے ذریعے مجتہد جامع الشرائط، فقیہ یا مفتی، کو اسلامی اقدار کے قیام اور اسلامی احکام کے نفاذ کے لیے اسلامی معاشرے پر حکومت کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
امامؑ مہدی علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ فقہا میری طرف سے تم لوگوں پر حجت ہیں اور امام معصومؑ کے حکم کی اطاعت کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ امامؑ کے یہ کلمات نیابتِ عامہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لہذا جیسے امام معصومؑ لوگوں کے امور چلانے میں خدا کی طرف سے ہم پر حجت ہیں، فقیہ بھی ان امور کو چلانے میں ہم پر امامؑ کی طرف سے حجت ہے۔ جو کسی کی نیابت میں امور چلائے وہ اس کا جانشین ہوتا ہے، گویا امامؑ نے اپنی توقیع میں ہمیں ایک ضابطہ دے دیا، جس کے تحت ہمیں جانشین کا تعیّن بھی ہوگیا، جو کہ حدیث کے راوی (فقہاء) ہیں اور دوسرا ان جانشین کا لوگوں پر اختیار بھی معیّن کر دیا کہ وہ امامؑ کی طرف سے لوگوں پر حجت ہیں۔ پس ایک فقیہ کا فریضہ وہی ہوا، جو امام معصومؑ کا فریضہ ہے، مگر فرق یہ کہ امام معصوم کا انتخاب اللہ تعالٰی کے ذمہ ہے اور امام معصوم علیہ السّلام کی غیبت طولانی میں غیر معصوم فقہا آئمہ طاہرین علیہم السّلام کے نائب ہیں، اور یہ نائب کوئی عام شخص نہیں بن سکتا بلکہ ہم انسانوں میں سے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگار ہے، سب سے زیادہ اعلم ہے، ہر واجب ادا کرتا ہے اور حرام کاموں سے اجتناب کرتا ہے اس کی طرف رجوع کرنا مذہب تشیع میں واجب ہے، ولایت فقیہ کے حوالے سے سابقہ علماء کرام کی تائید و حمایت کے حوالے تاریخ کی معتبر کتب میں درج ہیں

تاکہ لوگ اس کی اطاعت کریں۔

ولایتِ فقیہ کے قائل علماء قدیم و جدید:

ولایتِ فقیہ کا مسئلہ جدید نہیں بلکہ انتہائی قدیم علماء بھی اس کے قائل تھے۔ اختصار کی خاطر چند علماء کے اسمائے گرامی اور ان کی کتابوں کے حوالہ جات کہ جہاں انہوں نے فقیہ کے پاس ولایت ہونے کو قبول کیا ہے، ذکر کیا گیا ہے ان کے اسماء مندرجہ ذیل ہیں:

1۔ شیخ مفیدؒ متوفّی ٤۱۳ھ، المقنعة، ص٨١٠

2۔ شیخ طوسیؒ متوفّی ٤٦٠ھ، الخلاف، ج٦، ص٢٣٦

3۔ علامہ حلیؒ متوفّی ٧٢٦ھ، تذكرة الفقهاء، ج١، ص٢٥١

4۔ شہید اول محمد بن مکیؒ متوفّی ٨٧٦ھ، الدروس الشرعية، ج٢، ص٤٧

5۔ شہید ثانی زین الدین بن علیؒ متوفّی ٩٦٥ھ، مسالك الأفهام، ج٦، ص٢٦٥

6۔ احمد مقدس اردبیلیؒ متوفّی ٩٩٣ھ، مجمع الفائدة، ج٩، ص٢٣٠

7. آیت اللہ شوستریؒ متوفّی ١٠١٩ھ، شرح إحقاق الحق للمرعشي النجفي، ج٢٩، ص١١١

8۔ سید علی طباطبائیؒ متوفّی ١٢٣١ھ، رياض المسائل، ج١٢، ص٢٧٦

9۔حسن نجفیؒ متوفّی ١٢٦٦ھ، جواهر الكلام، ج٢١، ص٣٩٧

10۔ آیت اللہ حسین بروجردیؒ متوفّی ١٣٨٣ھ، دراسات في ولاية الفقيه وفق الدولة الإسلامية، ج١، ص٤٥٩

11۔ علامہ محمد حسین طباطبائی متوفّی ١٤٠٢ھ، تفسير الميزان، ج٦، ص٤٨

12۔ آیت اللہ تقی بہجتؒ متوفّی ١٤٣٠ھ، بیرسخ شما و باسخ ھای آیت اللہ العظمی بہجت، ص٧٤-٧٦

13۔ آیت اللہ سیستانی، يسألونك عن الولي لأكرم بركات، ص٨٠

14۔ آیت اللہ جوادی آملی، ولايت فقيه و ولايت فقاهت و عدالة، ص٣٨-٣٩

اسکے علاوہ اور بھی متعدد مشہور علماء قدیم و جدید ہیں، جو ولایتِ فقیہ کے قائل ہیں،
اس کے علاوہ دشمن تشیع ولایت فقیہ کو متنازعہ بنانے کا بے بنیاد حربہ استعمال کرتا ہے، تو آیا
ولایت فقیہ فقہی معاملہ ہے یا کلامی۔ ؟

ولایتِ فقیہ فقہی معاملہ ہے اور علمِ کلام کی بحث سے خارج ہے، کیونکہ یہ بلا واسطہ قرآن کریم سے ثابت نہیں اور ہمارا محور و مرکز قرآن کریم ہے، اسی لیے یہ مندرجہ ذیل پانچ اقسام میں سے کسی میں بھی شمار نہیں:

*1۔* اصولِ دین. *2۔* ضروریاتِ دین. *3۔* اصولِ مذہب. *4۔* فروعِ مذہب. *5۔* فروع بغیر ضروریات کے۔ ( اختصار کی خاطر ان پانچ قسموں کو بغیر وضاحت کے بیان کرتے ہوئے صرف نام پر ہی اکتفا کیا گیا ہے )

چونکہ ولایتِ فقیہ ان پانچوں اقسام میں شامل نہیں، اسی لیے ولایتِ فقیہ کا انکار کرنے والا نہ تو دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے کہ کافر قرار پائے اور نہ ہی مذہبِ شیعہ سے کہ مرتد ہو جائے، جیسے اگر کوئی شخص نماز و روزہ کہ جس کے انجام دینے کا حکم خدا نے دیا ہے، بجا نہ لائے تو وہ گناہگار ضرور ہوگا، چونکہ اس نے فعلِ حرام کا ارتکاب کیا ہے، لیکن دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا، پس اسی طرح ولایتِ فقیہ کا انکار کرنے سے کفر و ارتداد تو ثابت نہیں ہوتا لیکن اس کی مخالفت کرنا یقیناً استعماری سوچ، سازش اور فتنہ ہے۔ زیادہ تر وہ لوگ ولایتِ فقیہ کا انکار کرتے ہیں، جن کا تعلق نصیریت سے ہے۔ نصیری نہ تو مولا علیؑ کیساتھ مخلص ہے اور نہ ہی مولا علیؑ کے خدا کیساتھ، پھر کیونکر وہ مولا علیؑ کی نسل میں سے(سید علی خامنہ ای) اور دیگر فقہاء و مراجع عظام کیساتھ مخلص ہوسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص جاہل حکمرانوں کی حکومت و رہبریت کو قبول کرسکتا ہے تو ایک عادل و عالِم فقیہ کی حکومت و رہبریت کیوں نہیں؟ “هَلْ يَسْتَوِى الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ، کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟(سورة الزمر/9)
مندرجہ بالا ولایت ولی فقیہ کی وضاحت کے پیش نظر دشمن تشیع کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے،

بقیہ قسط چہارم میں ملاحظہ فرمائیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

seven + 6 =