جون 6, 2024

سیاسی جماعتوں کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں۔ طالبان

سیاسیات-افغانستان میں طالبان نے کہا ہے کہ افغانستان میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر مکمل پابندی ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق عبوری وزیر انصاف جسٹس شیخ مولوی عبدالحکیم شرعی نے کابل میں اپنی وزارت کی سالانہ رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں مکمل طور پر روک دی گئی ہیں، کیونکہ ان جماعتوں کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں ہے، ان کی شریعت میں کوئی حیثیت نہیں ہے، ان جماعتوں سے کوئی قومی مفاد وابستہ ہے اور نہ ہی قوم انہیں پسند کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے آفیشل میڈیا آؤٹ لیٹ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں وزیر انصاف جسٹس شیخ مولوی عبدالحکیم شرعی کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا۔ اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان طالبان ایک تحریک کے طور پر اقتدار پر اجارہ داری جاری رکھیں گے اور ان کا ملک میں آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

طالبان کے وزیر انصاف عبدالحکیم شرعی نے افغان دارالحکومت کابل میں ایک نیوز کانفرنس میں پابندی کا اعلان کیا۔انہوں نے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کے کام کرنے کی کوئی شرعی بنیاد نہیں ہے۔ وہ قومی مفاد کو پورا کرتی ہیں اور نہ ہی قوم ان کو پسند کرتی ہے۔ دو سال قبل جب اس وقت کے طالبان نے جنگ سے تباہ حال افغانستان پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا تھا، تب تک 70 سے زیادہ بڑی اور چھوٹی سیاسی جماعتیں وزارت انصاف میں باضابطہ طور پر رجسٹرڈ تھیں۔ ایک افغان سیاسی مبصر توریک فرہادی نے کہا کہ طالبان خلیجی ممالک کی مثال کی پیروی کرتے ہیں جن میں سیاسی جماعتیں نہیں ہیں۔ملک کے مستقبل کے بارے میں گفتگو میں حصہ لینے کے لیے خواتین اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی شرکت کی ضرورت ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ یہ پابندی کب نافذ کی گئی لیکن افغان طالبان جامع حکومت بنانے کے لیے عالمی دباؤ کے خلاف مزاحمت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی عبوری حکومت میں تمام قوموں اور قبائل کے نمائندے شامل ہیں اور ان کی حکومت وسیع البنیاد ہے۔ افغان طالبان گزشتہ حکومت کو بدنام اور کٹھ پتلی سیاست دان کہتے ہوئے ان کی شمولیت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت میں شرکت غیر ملکی قابض افواج اور ان کے کٹھ پتلیوں کے خلاف ان کی طویل جدوجہد سے غداری ہوگی۔ اگرچہ طالبان حکومت نے عام طور پر سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی لیکن اس بیان کو اس حوالے سے پہلے سرکاری بیان کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

3 × one =