دسمبر 13, 2024

ھل من ناصر ینصرنی کی گونج

تحریر: حسین شریعتمدار

جب وہ اس گرم اور تپتے صحرا میں پہنچا تو گھوڑے کی لگام کھینچی اور راہوار بھی رک گیا۔ جہاں تک نگاہیں کام کرتی تھیں تپتی ریت اور آسمان پر چمکتا سورج دکھائی دیتا تھا۔ گرمی کی شدت سے گویا آسمان پر دھواں چھایا تھا۔ سوار کسی چیز کی تلاش میں تھا۔ قریب ہی کھڑے ایک بوڑھے شخص سے پوچھنے لگا: اس سرزمین کا کیا نام ہے؟ اس نے جواب دیا: اس جگہ کا نام “غاضریہ” ہے۔ دوبارہ سوال کیا: کیا اس جگہ کا کوئی اور نام نہیں؟ بوڑھا شخص بولا: اسے “نینوا” اور “شاطی الفرات یا شرق فرات” بھی کہتے ہیں۔ وہ سوار ایسی نشانیاں دیکھ رہا تھا جو دوسروں کی آنکھوں سے اوجھل تھیں۔ تمام نشانیاں اسی سرزمین سے ملتی تھیں جس کی اسے خبر دی گئی تھی لیکن نام یہ نہیں تھا۔ دوبارہ پوچھا: کوئی اور نام نہیں ہے؟ بوڑھا شخص بولا: اسے “کربلا” بھی کہتے ہیں۔

سوار نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگا: ” أَرْضُ کَرْبٍ وَ بَلاَءٍ ۔۔۔۔ دکھ اور مصیبت کی سرزمین”۔ یہ وہی صحرا تھا جس کا نام اس نے اپنے جد بزرگوار رسول خدا ص اور والد گرامی امام علی علیہ السلام کی زبان سے سن رکھا تھا۔ جب صفین جاتے ہوئے امام علی علیہ السلام اس سرزمین پر رکے اور اس کی مٹی کو سونگھا اور گریہ کیا اور فرمایا: “اے خاک، تمہاری خوشبو کس قدر اچھی ہے۔ تجھ سے ایسے انسان اٹھائے جائیں گے جو حساب کتاب کے بغیر جنت روانہ کئے جائیں گے۔ یہ سرزمین ایسے عاشق شہیدوں کی قربان گاہ ہے جن کا مرتبہ اس قدر عظیم ہے کہ ماضی اور مستقبل میں کوئی ان کے مرتبے تک نہیں پہنچ پائے گا”۔ یہ وہی سرزمین تھی جس کا اسے وعدہ دیا گیا تھا۔ امام حسین علیہ السلام کا قافلہ اپنی منزل تک پہنچ چکا تھا۔

ولی امر مسلمین امام خامنہ ای فرماتے ہیں: “واقعہ عاشورہ کا لب لباب یہ ہے کہ ظلم اور فساد سے بھری دنیا میں حسین ابن علی علیہ السلام اسلام کی نجات کیلئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس بڑی دنیا میں کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔ حتی ان کے دوستوں نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیا۔ ایسے دوست جن میں سے ہر کوئی ایک گروہ کو میدان جنگ میں لا سکتا تھا اور یزید کے خلاف برسرپیکار ہو سکتا تھا۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کسی نہ کسی بہانے سے ساتھ چھوڑ گیا۔ ابن عباس ایک بہانے سے، عبداللہ ابن جعفر دوسرے بہانے سے، عبداللہ ابن زبیر کسی اور بہانے سے اور باقی صحابہ اور تابعین بھی مختلف بہانوں سے پیچھے ہٹ گئے۔ ان میں ایسی مشہور اور اثرورسوخ کی حامل شخصیات بھی تھیں جو میدان جنگ میں موثر واقع ہو سکتی تھیں۔”

امام خامنہ ای ایک اور جگہ فرماتے ہیں: “عاشورا سے حاصل ہونے والے درس سے زیادہ اہم وہ عبرتیں ہیں جو اس واقعہ سے حاصل ہوتی ہیں۔” سید الشہداء امام حسین علیہ السلام سے لے کر امام زین العابدین علیہ السلام اور ابوالفضل العباس، علی اکبر، قاسم ابن حسن، زہیر ابن قین، حبیب ابن مظاہر، مسلم ابن عوسجہ، حر ابن یزید ریاحی، وھب، جون اور حضرت زینب کبری علیہا السلام، ان سب کے اقوال اور کردار اور اس عظیم حادثے کے تناظر میں ان کا عمل تمام شیعیان اہلبیت ع کیلئے درس کا حامل ہے۔ دوسری طرف عبرت کا مطلب یہ ہے کہ ایک واقعہ کے ظاہری پہلووں سے عبور کر کے اس کی تہہ اور باطن تک پہنچ جانا۔ تاریخ میں رونما ہونے والے واقعہ کی حقیقی وجوہات اور اسباب جان لینے کو عبرت حاصل کرنا کہتے ہیں۔ واقعہ عاشورا کی ایک عبرت اس وقت کے اسلامی معاشرے میں موجود خواص کا طرز عمل ہے۔

وہ خواص جو امام حسین ع کی شخصیت سے بخوبی آگاہ تھے اور یزید کے کردار کو بھی اچھی طرح جانتے تھے لیکن دنیا کی لالچ میں نواسہ رسول کی نصرت کرنے سے باز رہے۔ آج کے اسلامی معاشروں میں بھی ایسے خواص کی کمی نہیں ہے۔ آج ہمیں ایسے خواص سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ ان کی بڑی خصوصیت “منافقت” ہے۔ وہ بظاہر خود کو اسلام اور انقلاب کا شیدائی اور حامی ظاہر کرتے ہیں لیکن درپردہ عالمی استعمار اور اس کی پٹھو قوتوں سے سازباز کر چکے ہیں۔ بظاہر حسینی اور انقلابی نعرے لگاتے ہیں لیکن درپردہ یزید وقت کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ ماضی میں مسلمانوں نے ایسے ہی منافقین سے دھوکہ کھا کر امام حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیا۔ آج ہم ہوشیار رہیں اور منافق خواص کو پہچان لیں تاکہ ماضی کی غلطی دوبارہ دہرائی نہ جائے۔

روز عاشور ظہر کے وقت جب تمام اصحاب اور فرزندان اہلبیت ع شہید ہو چکے تھے اور امام حسین علیہ السلام دشمن کے مقابلے میں بالکل اکیلے رہ گئے تھے تو آپ نے ایک ایسا عمل انجام دیا جس نے سب کو حیران کر دیا۔ آپ نے مدد کیلئے پکارنا شروع کر دیا: “ھل من ناصر ینصرنی۔۔ھل من مغیث یغیثنی”۔ سب حیران تھے کہ حسین ع کسے مدد کیلئے پکار رہے ہیں۔ ان کے تمام ساتھی تو شہید ہو چکے ہیں اور جو باقی رہ گئے ہیں وہ سب ان کے دشمن ہیں۔ لیکن خود امام حسین علیہ السلام اچھی طرح جانتے تھے کہ ان کی یہ پکار صحرائے کربلا تک محدود نہیں رہے گی اور اس کی گونج آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے گی۔ ایک زمانہ ایسا آئے گا جسے “عصر خمینی رح” کہیں گے اور مومن اور انقلابی جوان جوق در جوق اس پکار پر “لبیک یا حسین ع” کا نعرہ لگائیں گے۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

15 + one =