فروری 2, 2025

پاک ایران گیس معاہدے پر اہم پیشرفت

تحریر: شبیر احمد شگری

اس وقت پاکستان میں گیس کا شدید ترین بحران ہے۔ ایک طرف گھروں میں گیس نہیں ہے تو دوسری طرف گیس کے بلوں میں بے حد اضافے سے عوام بہت پریشان ہیں۔ ایسے موقع پر امید کی کرن نظر آئی ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایک عرصے سے تعطل کا شکار پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں۔جوکہ اہم ترین پیش رفت ہے، دیر آید درست آید کے مصداق پاکستان نے اپنے 80 کلو میٹر علاقے میں پائپ لائن بچھانے کاحتمی فیصلہ کرلیا ہےاس سلسلے میں کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کا معاملہ زیر غور آئے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران سرحد تک ابتدائی طور پر 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانا چاہتا ہے جس کے لئے توانائی کمیٹی سے منظوری کے بعد کابینہ سے حتمی منظوری لی جائے گی۔ 80 کلو میٹر پائپ لائن بچھانے کے لئے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے منصوبے پر بات چیت کا آغاز 1995 میں ہوا تھا۔اور 2008میں طے پانے والے معاہدے میں ابتدا میں بھارت بھی شامل تھا لیکن امریکہ کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد بھارت نے اس منصوبے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔اس کے بعد پاکستان اور ایران نے دوطرفہ طور پر اس معاہدے کو آگے بڑھانےکا فیصلہ کیا۔ پاکستانی صدرنے دورہ ایران کے دوران ایک فریم ورک پر دستخط کئے تھے، اور پاکستان اور ایران کے صدور نے مارچ 2013ء میں اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا اور اس منصوبے کو ’امن پائپ لائن‘ کا نام دیا گیا ۔

دو طرفہ معاہدے کی رو سے یہ بھی طے پایا کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو 2014ء کے آخر تک مکمل نہیں کرتا تو یکم جنوری 2015ء سے ایران سے گیس نہ لینے پر پاکستان یومیہ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا۔دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ 25 سال کیلئے کیا گیا تھا، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ 2ہزار 757کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن منصوبہ ہے ۔ منسوبے کے مطابق پاکستان کو 750 ایم ایم سی ایف ڈی (75 کروڑ مکعب فٹ) گیس یومیہ حاصل ہونا تھی جو کہ گوادر پورٹ کے مکمل ہونے پر ایک ارب مکعب فٹ ہوجانا تھی اور اضافی 25 کروڑ مکعب فٹ گیس گوادر میں استعمال کی جانا تھی۔منصوبے کے ابتدائی تخمینے کے مطابق اِس پر سات ارب امریکی ڈالر رقم خرچ ہونا تھے اور منصوبے کو پاکستان کے توانائی بحران کے تناظر میں گیم چینجر قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر اس پر امریکی اعتراضات سامنے آ گئے۔لیکن اب صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ امریکہ تو اپنے ملک میں مزے کررہا ہے لیکن پاکستان میں گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، سردیوں میں تو گیس کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہی تھی لیکن اب گرمیوں میں بھی گیس کی مسلسل فراہمی مسئلہ بن گئی ہے،اورقیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔گذشتہ ایک ماہ کے دوران گیس کی قیمتیں کئی بار بڑھی ہیں۔ چند روزقبل آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں مزید 67فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم فروری سے ہوگا۔دوسری جانب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) انرجی سیکٹر پر مزید ٹیکسوں میں اضافے کا مطالبہ کررہا ہے۔اِن حالات میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو جرمانے سے بچنے کے لیے پہلے مرحلے کے تحت گوادر سے ایرانی سرحد تک 81 کلومیٹر پائپ لائن بچھانی ہے۔ اس لئے پاک ایران گیس لائن منصوبے کو دو مرحلوں میں مکمل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی)نے 781 کلومیٹر طویل منصوبے میں سے پہلے مرحلے کو مکمل کرنے کی منظوری دی ہے جس کے تحت گوادرسے پائپ لائن شروع کر کے تقریباً 80 کلومیٹر تک کا حصہ بچھایا جائے گا۔ اگر امریکہ کی طرف سے کوئی اعتراض سامنے نہ آیا تو اگلے مرحلے میں اسے نواب شاہ سے منسلک کیا جائے گا۔ ایران پہلے ہی پاکستان کی ڈیڈ لائن میں ستمبر 2024ء تک توسیع کر چکا ہے،اب پٹرولیم ڈویژن کو جلد از جلد وفاقی کابینہ سے انتظامی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم (آئی ایس جی ایس) کے پاس 81 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کیلئے فنڈز دستیاب ہیں۔ وزارت خزانہ کے پاس ساڑھے تین سو ارب روپے (1.2 ارب ڈالرز) کی رقم موجود ہے جو جی آئی ڈی سی (گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس) کی مد میں جمع کیے گئے تھے۔

اس منصوبے کے تحت ایران اپنی طرف کا کام مکمل کر چکا ہے لیکن یہ پروجیکٹ 2014ء سے تاخیر کا شکار ہے۔اِس سلسلے میں ایران پاکستان کو تین نوٹس بھی دے چکا ہے، تازہ ترین نوٹس تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل موصول ہوا تھا، پہلا نوٹس ایران نے 2019ء میں بھیجا تھا ۔2022ء میں پاکستان کو دوسرا نوٹس بھیجا گیا تھا کہ پاکستان اپنی سائیڈ پر گیس پائپ لائن منصوبے کا حصہ فروری یا مارچ 2024ء تک تعمیر کر لے اب ایران نے اب رواں سال ستمبر تک منصوبے میں توسیع کر دی ہے، اُس نے پاکستان کو اپنی قانونی اور تکنیکی مہارت اور تعاون کی پیشکش بھی کی ہے تاکہ 180 دن کی ڈیڈ لائن کے اختتام سے قبل مشترکہ طور پر برادر ممالک مل کر پہلے مرحلے کو مکمل کرلیں۔ پاکستان منصوبے کی تاخیر کی وجہ یہ بیان کرتا آیا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اس پراجیکٹ پر کام مکمل نہیں کر پایا، تاہم ایرانی حکام اس دلیل کو نہیں مانتے اور امریکی پابندیوں کو بلا جواز قرار دیتے ہیں۔ عراق اور ترکی طویل عرصے سے ایران سے گیس خرید رہے ہیں کیونکہ اُنہیں امریکی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جی ایس پی اے پر فرانسیسی قانون کے تحت دستخط کیے گئے تھے اور اِس سلسلے میں پیرس میں قائم ثالثی عدالت دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات طے کرنے کا فورم ہے۔ اگر اسلام آباد کے حکام مثبت جواب دینے میں ناکام رہے تو تہران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی سے 18 ارب ڈالر کے جرمانے کا مطالبہ کرسکتا ہے۔قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اگر پاکستان نے یہ منصوبہ مکمل نہ کیا تو اِسے 18ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

پاکستان نے جب معاہدہ کیا تھا اِس وقت بھی تو ایران اقتصادی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا، معاہدہ کرتے وقت پاکستان کو تمام تر مسائل کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔اب ایران کی طرف سے تو کام مکمل ہے اور تاخیر اس طرف سے ہے۔بحرحال اب سنجیدگی سے اِس منصوبے کو مکمل کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے،کیونکہ صرف معاہدے ہی کی اہمیت نہیں پاکستان میں گیس کی قلت بھی اہم مسئلہ ہے اس معاہدے کی تکمیل سے ایک بڑا مسئلہ حل ہوجائے گا۔ امریکہ سے بات کرکے اِسے اپنی مجبوریوں اور اِس منصوبے کی اہمیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہےجس سے یقینا وہ بخوبی واقف ہے تھوڑی جدو جہد سے عین ممکن ہے کہ پاکستان کو بھی استثنیٰ حاصل ہو جائے۔اگربر وقت اقدامات کر لئے جاتے تو اب تک یہ منصوبہ مکمل ہو چکا ہوتا، بدقسمتی سے یہ سب پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے، اگر اب بھی سوچ سمجھ کر اس معاملے کو نہ سلجھایا گیا تو نہ صرف گیس کی قلت برقرار رہے گی بلکہ شاید ہمیں معاہدے کے تحت جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے ایسے حالات میں ملک عزیز کے لئے ایک اور مشکل پیدا ہوجائے گی۔اس لئے اس معاہدے پر عمل درآمد کرناعقلمندی کا ثبوت ہے۔ اللہ پاک میرے ارض وطن کی تمام مشکلات کو دور فرمائے۔ اور اسے ایک خوشحال ملک بنادے۔ آمین! اگر ہم جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں تو برادر ہمسایہ ملک ایران ہماری صرف گیس کی ہی نہیں پٹرول اور بجلی کی کمی کو بھی پورا کرسکتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ برادر ہمسایہ ملک میں پٹرول پاکستانی 15 روپے لیٹر ہے۔ اس لئے ایران کے ساتھ صرف گیس ہی نہیں جبکہ بجلی، پٹرول اور اسی طرح دوسرے اہم معاہدے ہونے چاہئے۔ جس طرح یہ چیزیں ہماری ضرورت ہیں اسی طرح پاکستان بھی ایران کی بہت سی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ اور دونوں برادر ہمسایہ اور دوست ممالک مل کر ایک دوسرے کی مشکلیں آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

four + five =