جولائی 27, 2024

واقعات بعد از قتل امام حسین علیہ السلام

تحریر: کوثر عباس قمی

مسلم حصاص بیان کرتا ہے کہ ابن زیاد نے مجھے دارالامارہ کی اصلاح کیلئے بلایا ہوا تھا۔ اور میں اپنے کام میں مشغول تھا کہ اچانک کوفہ کے اطراف و جوانب سے شورو غل کی آوازیں آنے لگیں۔ اسی اثنا میں ایک خادم آیا۔ میں نے اس سے دریافت کیا کہ کیا وجہ ہے آج کوفہ میں شورو غل ہو رہا ہے۔اس نے کہا کہ ابھی ابھی ایک خارجی(خاکم بدہن )قاتل کا سر لایا جا رہا ہے جس نے یزید پر خروج کیا تھا۔ میں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا؟ کہا حسین ابن علی(علیہم السلام)۔ میں یہ سنتے ہی دم بخود ہو کر رہ گیا۔ جب خادم چلا گیا تو میں نے دوہتھڑ اپنے منہ پر مارے۔ قریب تھا کہ میری آنکھیں ضائع ہو جائیں۔ اس کے بعد میں ہاتھ منہ دھو کر دارالامارہ کی پچھلی طرف سے کناسہ کے مقام پر پہنچا جہاں لوگ سروں اور قیدیوں کی آمد کا انتظار کر رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد ایک قافلہ پہنچا جو چالیس اُونٹوں پر مشتمل تھا۔ جن پر اولاد حضرت فاطمۃ الزہرا(س) سوار تھی۔ ان میں کچھ بچے اور مستورات تھیں۔ امام زین العابدین (ع)بے پلان اُونٹ پر سوار تھے۔رگہائے بدن سے خون جاری تھااور آپ کی حالت بیماری اور ضعف کی وجہ انتہائی کرب ناک تھی۔

آلِ محمد (ص)کی خستہ تنی دیکھ کر اہل کوفہ صدقہ کی کھجوریں اور روٹیوں کے ٹکڑے بچوں کی طرف پھینکتے تھے۔ جناب امّ کلثوم یہ فرما کر:یا اہل کوفہ ان الصدقۃ علینا حرامکہ اے اہل کوفہ! صدقہ ہم پر حرام ہے کھجوریں وغیرہ بچوں کے ہاتھوں سے لے کر نیچے پھینک دیتی تھیں۔ لوگ خاندانِ نبوت کی یہ حالت زار دیکھ کردھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔جناب امّ کلثوم (سلام اللہ علیہا)نے فرمایا۔

اے اہل کوفہ خاموش ہو جاؤ! تمھارے مرد ہمیں قتل کرتے ہیں اور تمھاری عورتیں ہم پر روتی ہیں۔ خدا وند عالم روز قیامت تمہارے اور ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا۔

مسلم کہتا ہے:

یہ بی بی گفتگو کر رہی تھیں کہ اچانک صدائے شور و شغب بلند ہوئی۔ کیا دیکھتا ہوں کہ(دوسری طرف سے)شہدائے کربلا کے سر نیزوں پر سوار لائے جا رہے ہیں۔ ان میں آگے آگے جناب امام حسین کا سرِ اقدس تھا اور وہ سر بدرِ کامل کی طرح تابندہ اور درخشندہ تھا۔ اور تمام لوگوں سے زیادہ رسولخداؐ کے ساتھ مشابہ تھا۔ ریش مبارک خضاب کی وجہ سے بالکل سیاہ تھی۔ چہرہ انور ماہتاب کی مانند مدوّر اور روشن تھا اور ہوا ریش مبارک کو دائیں بائیں حرکت دے رہی تھی۔ جب جناب زینب عالیہ کی اپنے بھائی کے سر مبارک پر اس حالت میں نظر پڑی تو اس منظر سے بیتاب ہو کر فرط غم و الم سے چوبِ پالان پر اس زور سے سر مارا کہ خون جاری ہوگیا۔(١)

جب اس حال میں یہ لٹا ہوا قافلہ کوفہ کے درو دیوار کے قریب پہنچ گیا۔ ہاں! ہاں! وہی کوفہ جس میں جناب امیر علیہ السلام کے ظاہری دور خلافت میں جناب زینب و امّ کلثوم شہزادیوں کی حیثیت سے رہ چکی تھیں اور آج قیدیوں کی حیثیت سے داخل ہو رہی تھیں۔ آہ!

اے فلک آں ابتدا ایں انتہائے اہلِ بیت (ع)

کوفہ کے زن و مرد جو ہزاروں کی تعداد میں یہ نظارہ دیکھنے کے لئے وہاں جمع تھے۔آلِ رسول کو اس تباہ حالت میں دیکھ کر زار و قطار رونے لگے۔ امام زین العابدین نے نحیف و نزار آواز کے ساتھ فرمایا:

تنوحون وتبکون من جانمن ذاالذی قتلنا

اے کوفہ والو ! یہ تو بتاؤ ہمیں قتل کس نے کیا ہے۔ ؟

اسی اثنا میں ایک کوفیہ عورت نے بالائے بام جھانک کر دیکھا اور دریافت کیا کہ تم کس قوم و قبیلہ کی قیدی ہو۔ بیبیوں نے فرمایا: نحن اساری آلِ محمد (ص)۔ ہم خاندانِ نبوت کے اسیر ہیں۔ یہ سن کر وہ نیک بخت عورت نیچے اتری اور کچھ برقعے اور چادریں اکٹھی کر کے ان کی خدمت میں پیش کیں۔جن سے پردگیانِ عصمت نے اپنے سروں کو ڈھانپ لیا۔

اس موقعہ پر عقیلہ بنی ہاشم

حضرتِ زینبِ عالیہ صلوات اللہ علیہا نے بھی ایک فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا

لوگوں کے گریہ و بکا اور شور و شغب کی وجہ سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔لیکن راویان اخبار کا بیان ہے کہ جونہی شیرِ خدا کی بیٹی نے لوگوں کو ارشاد کیا کہ انصتوا خاموش ہو جاؤ ! تو کیفیت یہ تھی کہ ارتدت الانفاس و سکنت الاجراس آتے ہوئے سانس رک گئے اور جرس کارواں کی آوازیں خاموش ہو گئیں۔اس کے بعد خطیب منبر سلونی کی دختر نے خطبہ شروع کیا تو لوگوں کو حضرت علی (ع) کا لب و لہجہ اور ان کاعہد معدلت انگیز یاد آگیا۔راوی (حذام اسدی یا بشیر بن خریم اسدی) کہتا ہے:

خدا کی قسم میں نے کبھی کسی خاتون کو دختر علی (ع)سے زیادہ پرزور تقریر کرتے ہوئے نہیں دیکھا(بی بی کے لب و لہجہ اور اندازِ خطابت سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ) گویا جناب امیر المومنین کی زبان سے بول رہی ہیں۔ بالفاظ دیگر یوں محسوس ہوتا کہ حضرت امیر آپ کی زبان سے بول رہے ہیں۔

جب سیدہ سلام اللہ علیہا خطبہ دے چکیں تو منہ دوسری طرف پھیر لیا۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ لوگ حیران و سرگرداں ہیں اور تعجب سے انگلیاں مونہوں میں ڈالے ہوئے ہیں۔میں نے ایک عمر رسیدہ شخص کو دیکھا جو میرے پہلو میں کھڑا رو رہا تھا۔اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو چکی تھی۔ہاتھ آسمان کی طرف بلند تھے اور وہ اس حال میں کہ رہا تھا

میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ! آپ کے بزرگ سب بزرگوں سے بہتر، آپ کے جوان سب جوانوں سے افضل، آپ کی عورتیں سب عورتوں سے اشرف، آپ کی نسل سب نسلوں سے اعلیٰ اور آپ کا فضل عظیم ہے۔

اس کے بعد علی کی بیٹی حضرت امّ کلثوم بنت حیدر کرار (زینب صغری’) نے بآواز بلند آہ و بکا کرتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا :

پھر حزن و ملال میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھے۔

وائے ہو تم پر ! تم نے بلا قصور میرے بھائی کو شہید کیا۔اس کی سزا تمہیں جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں دی جائے گی۔تم نے ایسے خون بہائے جن کے بہانے کو خدا، رسول اور قرآن نے حرام قرار دیا تھا۔تمہیں آتش جہنم کی بشارت ہو کہ جس میں تم ابد الآباد تک معذب رہو گے۔ میں اپنے اس بھائی پر جو بعد از رسولخدا (ص) سب لوگوں سے افضل تھا زندگی بھر روتی رہوں گی اور کبھی نہ خشک ہونے والا سیلِ اشک بہاتی رہوں گی۔

جناب امّ کلثوم کے خطبہ کا اس قدر اثر ہوا کہ روتے روتے لوگوں کی ہچکیاں بندھ گئیں۔عورتیں اپنے بال بکھیر کر ان میں مٹی ڈالنے لگیں اور چہروں پر طمانچے مارنے شروع کئے۔اسی طرح مرد شدت غم سے نڈھال ہو کر اپنی داڑھیاں نوچنے لگے۔ اس روز سے زیادہ رونے والے مرد اور عورتیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔

لوگ ابھی گریہ و بکا کر رہے تھے کہ امام زین العابدین(ع) نے انہیں خاموش ہونے کا حکم دیا۔چنانچہ جب سب لوگ خاموش ہو گئے تو امام سجاد علیہ السلام نے خدا کی حمد و ثنا اور پیغمبر اسلام (ص) پر درود و سلام بھیجنے کے بعد فرمایا:

اے لوگو ! جو شخص مجھے پہچانتا ہے، وہ تو پہچانتا ہی ہے اور جو شخص نہیں پہچانتا میں اسے اپنا تعارف کرائے دیتا ہوں میں علی ابن الحسین ہوں۔ وہ حسین جو بلا جرم و قصور نہر فرات کے کنارے ذبح کیا گیا۔میں اس کا بیٹا ہوں جس کی ہتک عزت کی گئی ، جس کا مال و منال لوٹا گیااور جس کے اہل و عیال کو قید کیا گیا۔ میں اس کا پسر ہوں جسے ظلم و جور سے درماندہ کر کے شہید کیا گیا اور یہ بات ہمارے فخر کے لئے کافی ہے۔ اے لوگو ! میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں،کیا تم نے میرے پدرِ عالی قدر کو دعوتی خطوط لکھ کر نہیں بلایا تھا ؟ اور ان کی نصرت و امداد کے عہد و پیمان نہیں کئے تھے ؟ اور جب وہ تمہاری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے تشریف لائے تو تم نے مکر و فریب کا مظاہرہ کیا اور ان کی نصرت و یاری سے دست برداری اختیار کر لی۔ اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ ان کے ساتھ قتال کر کے ان کو قتل کر دیا۔ہلاکت ہو تمہارے لئے کہ تم نے اپنے لئے بہت برا ذخیرہ جمع کیااور برائی ہو تمہاری رائے اور تدبیر کے لئے! بھلا تم کن آنکھوں سے جناب رسول اکرمؐ کی طرف دیکھو گے،جب وہ تم سے فرمائیں گے کہ تم نے میری عترت اہل بیت کو قتل کیا اور میری ہتک حرمت کی اس لئے تم میری امت سے نہیں ہو۔

راویان اخبار کا بیان ہے کہ جب امام کا کلامِ غم التیام یہاں تک پہنچا تو ہر طرف سے لوگوں کے رونے اور چیخ و پکار کی آوازیں بلند ہونے لگیں اور ہر ایک نے دوسرے کو کہنا شروع کیا: ھلکتم وما تعلمون یعنی تم بے علمی میں ہلاک و برباد ہو گئے ہو۔

ان خطبات کے بعد اسیران اہل بیت کا لٹا ہوا قافلہ دربارِ ابن زیاد کی طرف روانہ ہوا۔ ادھر ابن زیاد نے تمام لوگوں کو حاضری کا اذن عام دے رکھا تھا۔ اس لئے دربار، درباریوں اور تماش بینوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ سب سے پہلے شہداء کے سر دربار میں پہنچائے گئے اور اس کے بعد اسیران کرب و بلا کو دربار میں پیش کیا گیا۔

موٴرخین کا بیان ہے کہ جس وقت سرہائے شہداء اور بنات رسول خدا داخل دربار ہوئے تو ابن زیاد بساط شطرنج پر تھا اور وہ محونا شتہ وشراب تھا سروں کے دربار میں پہنچے کے بعد ابن زیاد نے سر امام حسین علیہ السلام کو طشت طلا میں پیش کرکے زیر تخت رکھوا دیا تھا ۔

شیخ مفید کتاب الارشاد

جلد 2 صفحہ 114 و 115

پہ لکھتے ہیں کہ

عبید اللہ کے پاس جب حضرت امام حسین ؑ کا سر پیش ہوا تو اس نے اپنے ہاتھ میں موجود چھڑی کے ساتھ آپ کے ہونٹوں اور دانتوں کی بے حرمتی کی تو دربار میں موجود صحابئ رسول خدا ؐ زید بن ارقم یہ گستاخی دیکھ کر رونے لگے اور کہنے لگے : اس چھڑی کو ان ہونٹوں سے اٹھا لو. خدا کی قسم! میں کئی مرتبہ ان ہونٹوں پر رسول اللہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا. عبید اللہ یہ سن کر خشمگین ہوا اور غصے سے بولا : خدا تجھے رلائے! کس چیز پر آنسو بہاتے ہو؟ فتح پر آنسو بہاتے ہو؟بخدا ! اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ تمہاری عقل زائل ہو چکی ہے تو میں تمہاری گردن اڑا دیتا. زید نے جب یہ سنا تو دربار سے نکل گئے

اہلبیت رسول رسن بستہ دربار کے ایک گوشہ میں کھڑے ہوئے تھے کہ ابن زیاد نے حکم دیا کہ قید خانہ سے مختار کو ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں حاضر دربار کیا جائے لوگوں نے حکم ابن زیاد کے مطابق حضرت مختار علیہ الرحمہ کوزنجیروں میں جکڑا ہوا دربار لاحاضر کیا ۔علما لکھتے ہیں کہ ابن زیاد نے مختار سے کہا اے مختار تم ابن ابو تراب حسین کا بڑا دم بھرتے تھے ۔لو یہ دیکھو کہ ان کا سر یہاں آیا ہوا ہے ۔حضرت مختار کی نگاہ جونہی سر امام حسین پر پڑی بے اختیار ہو گئے آپ نے کہا کہ اے ابن زیاد تو نے جو کچھ کیا سب برا کیا اگر خدا نے چاہا توبہت جلد اس کا نتیجہ دیکھ لے گا ۔اس کے علاوہ آپ نے کچھ منہ سے نہ کہا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت مختار نے جونہی سر حسین پر نگاہ کی جوش میں آکر زنجیروں میں بند ھے ہوئے ہونے کی حالت میں ہی ابن زیاد پر حملہ کر دیا اور ایک روایت کی بنا پر انہوں نے اپنے ہاتھوں کی زنجیر توڑ ڈالی اور جھپٹ کر حملہ کرنا چاہا لیکن لوگوں نے پکڑ لیا ۔ اس کے بعد فرمانے لگے ایک ہزار مرتبہ موت آنے سے زیادہ مجھے اس وقت سرحسین دیکھ کر تکلیف پہنچی ہے ۔حضرت مختار ابھی دربار ہی میں تھے کہ اہل بیت رسول خدا کے رونے کی صد ا بلند ہوئی واجداہ واحسینا ہ اے نانا رسول اور اے حسین غریب ،حضرت مختار یہ منظر دیکھ کر خون کی آنسو رونے لگے ۔ ابن زیاد نے حکم دیا کہ مختار کی زنجیریں اور کس دی جائیں اور انہیں قید خانہ میں لے جاکر ڈال دیا جائے ۔ چنانچہ لوگوں نے زنجیریں اور کس دیں اور انہیں لے جا کر قید خانہ میں ڈال دیا۔

ابن زیاد نہایت رعونت سے اسیروں کو دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر ایوان کے آخری حصہ میں ایک باوقار خاتون پر پڑی جو تمام تر پریشانیوں اور غریب الوطنی کے باوجود پرسکون بیٹھی تھیں۔ اس نے نہایت تلخ لہجے میں پوچھا یہ خاتون کون ہے مجمع خاموش رہا

اس نے آپے سے باہر ہوکر کہا بتاتے کیوں نہیں؟

ایک خاتون (حضرت فضہؓ) نہایت متانت سے گویا ہوئیں۔ یہ علیؓ کی بیٹی سیدہ زینب سلام اللہ علیہا ہیں۔

سیدہ زینب کا نام سنتے ہی ہیبت طاری ہوگئی پھر سنبھل کر نہایت تلخ لہجے میں بولا:

’’خدا کا شکر! اس نے تمہیں رسوا کیا

موت کے گھاٹ اتارا ،

تمہارے ناپسندیدہ ارادوں کو بے نقاب کیا‘‘۔

یہ سننا تھا کہ فاتح خیبر اور صاحب ذوالفقار کی بیٹی تاجدار کائنات ﷺ کی نواسی نے اقتدار شکن اور سلطنت فشار انداز میں یوں خطاب فرمایا:

’’شکر ہے اللہ کا جس نے اپنے محبوب نبی کی نسبت سے ہمیں عزت بخشی اور ہمارے گھرانے کو کمال طہارت کا شرف عنایت کیا۔ بے آبرو و رسوا وہ ہوتا ہے جو آئین اسلام کی خلاف ورزی کرے یاد رکھ وہ ہم نہیں ہمارا غیر (کوئی اور) ہے‘‘

تلوار کی باڑھ جیسے اس تیز جواب سے خدا کے دشمن کی آنکھوں میں خون اتر آیا گستاخی سے کہا:

دیکھا اللہ نے تمہارے کنبے اور تمہارے بھائی پر کیسا حشر توڑا؟

ابن زیاد انتہائی شقاوت سے بنی ہاشم کے طہارت نسبت، عزت مآب خاندان اور فخر کائنات شہید کربلا کے بارے میں ہرزہ سرائی کررہا تھا۔ ثانی زہراؓ نے دلیری سے جواب دیا۔

تم نے وہ کام کیا جس کے سبب کچھ دور نہیں کہ آسمان پھٹ پڑے، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں تمہاری برائیاں آفاق گیر ہیں تمہاری بداعمالیوں نے پوری دنیا کوگھیرے میں لے رکھا ہے۔

سنو تم حیران ہو کہ اس واقعہ سے آسمان نے خون کیوں نہ برسایا؟

ٹھہرو! عذاب آخرت اس سے زیادہ تمہیں رسوا کرے گا اور بھی اس وقت جبکہ نہ کوئی تمہارا حامی ہوگا نہ مددگار۔

ہاں! یقین مانو یہ مہلت کے لمحے تمہارے بوجھ کو ہلکا نہیں کرسکتے۔

وقت قبضہ قدرت سے باہر نہیں ہے۔

انتقام کی گھڑیوں کو قریب سمجھو اور داور محشر، گنہگاروں کی گھات میں ہے۔

تم اس وقت کیا جواب دو گے جب پیغمبر خدا ﷺ تم سے کہیں گے کہ تم آخری امت ہو

تم نے میری اولاد میرے اہل بیت میری حرمت اور میری ناموس کے ساتھ کیا کیا۔ میرے گھرانے کی ہستیوں کو اسیر بنایا اور قتل کیا۔ کیوں! میرے احسانات رشد و ہدایت کی یہی جزا تھی؟ یہی صلہ تھا کہ میرے بعد میرے عزیزوں اور میری آل اولاد کے ساتھ یہ سلوک کیا جاتا؟

اہل کوفہ! اندیشہ ہے کہ کہیں تمہارا وہی حشر نہ ہو جو شداد اور اس کی امت کا ہوا۔

ابن زیاد! تو نے ہمارے بڑوں کو تہ تیغ کیا۔ ہمارے عزیزوں میں سے کسی کو نہ رہنے دیا۔ ہمارے سایہ دار درخت کی شاخیں کاٹ دیں۔ ہمارے پھلے پھولے درختوں کو جڑ سے نکال ڈالا۔ اب اگر قلب و جگر کی آگ یونہی بجھتی ہے تو پھر سمجھنے کو تو سمجھ لے کہ ٹھنڈک پڑگئی حقیقت روز حشر آشکار ہوگی اس وقت تم ہوگے اور آتش جہنم کے انگارے ہوں گے۔

تو حقائق پر پردہ ڈالنے کے لے بدکلامی پر تل گیا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جو میرے دکھی دل کی آواز ہے ہماری ہر بات حقیقت کی ترجمان ہے۔

فوجِ یزید نے قافلہ حسینی کو بدترین مصائب میں مبتلا رکھا مگر علی کی بیٹی نے ایسا فصیح و بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا کہ دنیا آج تک حیران ہے۔

کربلا کی جرات مند سپہ سالار نے خوفناک فضا میں ابن زیاد کی اسلام دشمنی سے پردہ اٹھایا اور ناپاک طینت شخص کو اس کے ہی ایوان اقتدار میں رسواکردیا۔ جس کا مشاہدہ وہاں بیٹھے ہوئے افراد نے کیا جو ابن زیاد کی دہلیزسلطنت پر اپنی پیشانی رگڑ رگڑ کر احساس آدمیت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

اس کے بعد مایوس ہوکر ابن زیاد نے امام زین العابدین کی جانب اشارہ کرکے دریافت کیا یہ کون ہے؟

تب سید الساجدین نے اپنا تعارف بھی کرایا اور اس کی حقیت بھی بھرے دربار میں کھول دی

انکا منہ توڑ جواب سن کرغصے سے کہنے لگا تیری کیا مجال میرے سامنے گستاخی کرے جلاد کو بلا کر کہنے لگا اس نوجوان کی گردن اڑادو۔ سیدہ زینبؓ ابن زیاد کی بربریت کا مظاہرہ دیکھ رہی تھیں اس کی بدکلامی سن کر ظالم و ستمگر حکمران کی پرواہ کیے بغیر امام سے لپٹ کر ابن زیاد سے مخاطب ہوئیں:

کیا آل محمد ﷺ کے ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین کرنے سے تیرے دل کو تسکین نہیں ہوئی۔ اب یہ ہی ہمارے خاندان کی نشانی بچ گیا ہے۔ اس کی طرف بری آنکھ اٹھا کر مت دیکھنا ورنہ تجھے میری لاش سے گزرنا پڑے گا اور جب تک میری جان میں جان ہے تو زین العابدینؓ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔

ابن زیاد نے رسول زادی کی بے مثال جرات و شجاعت کے سامنے ہتھیار ڈال دیا اور جلاد کو حکم دیا۔

اسے کچھ نہ کہو ورنہ زینب کے خون میں ہاتھ رنگین کرنا پڑیں گے جو ہمارے لیے دشوار ہے اور اس کے سنگین نتائج ہم برداشت نہیں کرسکیں گے۔

تاریخ گواہ ہے کہ ابن زیاد کو اس کے بعد کبھی آرام نصیب نہ ہوا۔ کیونکہ کربلا کے قافلے کی ترجمان سیدہ زینب سلام اللہ علیہا نے اسلامی فکر اور انسانی ضمیر کو کچھ اس طرح جگادیا تھا کہ یہ بیداری ایک باقاعدہ تحریک بن گئی اور کوفہ سے لے کر شام تک تمام محلوں میں پھیل گئی اور سارے شبستانوں کے چراغ گل ہوتے نظر آنے لگے۔

یہ عقیلہ بنی ہاشم کی تقریروں اور سیدہ زینبؓ کے جرات مندانہ کلام کا اثر تھا کہ صحابی رسول عبداللہ ابن عفیفؓ بھرے مجمع میں سراپا احتجاج بن گئے۔ اسی طرح خاندان غامد اور بنو وائلہ کے جیالے بھی حکومت مخالفت میں سرگرم عمل ہوگئے۔ ابن قتیبہ لکھتے ہیں:

عبیداللہ ابن زیاد کو جلد ہی یہ برا وقت دیکھنا پڑا کہ بصرہ جیسے شہر میں جہاں وہ گورنر تھا جب وہ تقریر کرنے کھڑا ہوتا تو عوام اس پر اینٹوں اور پتھروں کا مینہ برساتے تھے۔

(رو ضۃ المجاہدین علامہ عطا الدین حسام الواعظ ص10طبع ایران ۔و۔ ریاض القد س جلد ص136طبع ایران)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eighteen + 8 =