جولائی 27, 2024

نظام امامت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔۔۔

تحریر: رستم عباس

اسلام زندگی گزارنے کے لیے مکمل نظام حیات متعارف کرواتا ہے۔ دین محمدی میں انسان کو زندگی کے ہر شعبے کے لیے ھدایت فراہم کی جاتی ہے۔ایک انسان کی انفرادی نجی زندگی ہو یا ایک سوسائٹی معاشرے کی اجتماعی معاملات حیات ہوں۔اسلام نے کسی بھی پہلوئے زندگی کو نظر انداز نہیں کیا۔

آپ دیکھ لیں۔ایک نومولود جو دنیا میں وارد ہوتا ہے جیسے وہ ماں کے بطن سے دنیا میں آتا ہے۔فورا ہی اسلام اظہار وجود کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اس بچے کو غسل دو اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے میں اقامت کہو۔تاکہ نومولود کو خوشخبری ملے کہ اس کے والدین شرف اسلام سے مشرف ہیں۔اور اس کے علاؤہ جب انسان مرتا ہے تو بھی اسلام کے احکامات موجود ہیں کہ اب اس کو کیا کرنا ہے۔

اس کے علاؤہ خمس زکات امربلمعروف و نہی عن المنکر اسلام کے وہ احکامات ہیں جو اجتماع سے معاشرے سے تعلق ہیں۔

اسی طرح اسلام معاشرے کی زمام داری کے لیے حاکمیت کے لیے جامع نظام حکومت دیتا ہے۔

یہ نظام بلکل بےعیب ہے انسانیت کی فلاح وبہبود کا موضوع ترین نظام حکومت ہے۔

وہ نظام اسلام ولایت و امامت کہلاتا ہے۔اس نظام کا اعلان رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آخری حج کے اختتام پر خطبہ حجتہ الوداع میں کیا۔کہ اپنے سب سے قابل ذہین ترین شجاع ترین اور پاکباز ترین سب زیادہ علم رکھنے والے شاگرد علی ابن ابی طالب کی حاکمیت کا اعلان کیا ناصرف علی کو ولی امت بتایا بلکہ ان کے بعد ان کے گیارہ بیٹوں کو نام لے امت کا حاکم نامزد کر دیا۔

ایک کے بعد ایک ولی ایک دن کے لیے بھی وقفہ نہیں رکھا کہ امت کو موقع ملے کہ وہ اپنی مرضی سے حاکم بن لیں۔اگر صرف علی علیہ السّلام کی حاکمیت کا اعلان کرتے تو پھر گنجائش نکالنے والے نکال لیتے۔ لیکن ان کے بعد 11جانشین بنا کر قیامت تک لے لیے یہ رستہ بند کر دیا۔لیکن ایک مشکل غیبت کبریٰ میں ظاہر ہوئی کہ امام معصوم پردہ غیبت میں چلے گئے۔یہاں بھی دین خدا نے رہنمائی کے بغیر نہیں چھوڑا۔اور خود غیب امام نے اپنی توقیع میں ارشاد فرمایا

کہ ہمارے بعد ہونے والےنئے حوادث میں اپ نے ہمارے راویان حدیث کی طرف رجوع کرنا ہے۔ہم ان پر حجت ہیں اور وہ تم پر حجت ہیں۔اللہ نے جو نظام بنایا ہے وہ امامت و ولایت ہے۔اور اس میں وقفہ نہیں ہے۔جب نبی موجود ہوں تو خود نبی حاکم ہیں امام ہیں نبی کے بعد انکے جانشین یعنی ائمہ اطہار امت کے حاکم و ولی ہیں اور جب امام پردہ غیبت جائیں تو انکے جانشین فقہاء کو حق حکومت و ولایت حاصل ہے۔اس کے لیے ضروری نہیں کہ ان کے پاس مسند اقتدار بھی ہو لیکن امت نے اپنے ہر معاملے کو ان کے سامنے ہی پیش کرنا ہے۔مسند اقتدار پر اگرچہطاغوت قابض بھی ہوں ۔کوئی اور اس نظام سے دور ہو تو ہو سکتا ہے لیکن شیعہ کے پاس امامت کو قبول کرنے کے سواء کوئی چارہ نہیں ہے۔

پوری تاریخ میں تشیع کو رافضی کیاجاتا رہا ہے۔رافضی یعنی انکار کرنے والے۔کیونکہ کہ شیعہ نے امامت کے علاؤہ کسی بھی نظام حکومت کو نہیں مانا۔پہلے تین خلفاء حاکم ہوئے شیعہ نے انکار کیا۔بنوامیہ آئے شیعہ نے نہیں مانا۔بنوعباس آئے شیعہ نے بنو عباس کو نہیں مانا۔قرامطہ آئے شیعہ نے انکو بھی نہیں مانا فاطمی اسماعیلی آئے شیعہ نہیں مانا۔عثمانی آئے شیعہ نہیں مانا

لیکن پتہ نہیں کون سی بلا نازل ہوئی کہ جموریت کو شیعہ مان بیٹھے ہیں۔وہ تو اللہ بھلا کرے امام خمینی کا جس نے شیعہ کو بھولا ہوا سبق یاد دلوایا ہے۔۔

یہ میں نظریاتی تشیع اصلی جعفری تشیع کی بات کر رہا ہوں۔اور تشیع کی بنیاد ہی نظام امامت پر ہے دوسرے فرقے اپنے باطن میں جمہوری سقیفائی ہیں

لیکن اگر شیعہ امامت کو چھوڑ کر جمہوریت کو اپناتا ہے تو اور کچھ ہو نہ ہو رفض اور تشیع اس کے ہاتھ سے چلا جائے گا۔

اس لیے نظام امامت کے بغیر چارہ نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

two × 4 =