دسمبر 26, 2024

مدیریت خون کوثر

تحریر: سید قمر نقوی

کسی بھی ملت کے عروج و زوال کا اندازہ اسکے فرھنگی رشد سے لگایا جاتا ہے جو کہ تمدن کے قالب میں پروان چڑھتی ہے.اور اس فرھنگی رشد کی بنیاد خاتون ہوتی ہے.کیوں؟اس لیے کہ ایک متدین خاتون ہی ایک متدین خاندان کی روح ہوتی ہے اورایک متدین خاندان ہی ایک متدین اجتماع کی روح ہوتا ہے اور یہ اجتماع تمدن کی بنیاد ڈالتا ہے.

ایک غربی اسٹراٹجسٹ بیٹس ٹاویکو کے بقول ہر ملت تین ادوار فرھنگی سے گزرتی ہے،پہلا اس قوم کا دوران جاھلیت ہے،دوسرا عصر تمدن و علم ہے اور تیسرا مرحلہ اس تمدن کا زوال ہوتا ہے.اور غرب اس پر بہت پریشانی کی حالت میں ہے کہ اب تمدن وہاں سے زوال کر رہا ہے.ایک اور معروف اسٹراٹجسٹ سیموئل ہنگٹنگٹن نے کہا کہ ابھی تمدن ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے اور جہاں پر یہ جاکر اوج پکڑنا چاہتا ہے بہتر ہے ہم اس جگہ کو ہی نابود کردیں اور جس سے سب سے زیادہ انہیں خطرہ ہے وہ تمدن اسلامی ہے.

پس در اصل امانیسٹ (انسان محور)خاتون اور تھیویسٹ (خدا محور)خاتون آمنے سامنے ہیں.

امانیسٹ خاتون کا ریشہ سیمن ڈگوا کی طرف پلٹتا ہے.جہاں کشش کی بنیاد ارزش نہیں بلکہ فقط بیشتر منافع ہے،اخلاق،مودت،ایثاراور فداکاری نام کی کوئی چیز نہیں.جبکہ ایک تھیویسٹ خاتون کا ریشہ سیدہ کونین کی طرف پلٹتا ہے.جسکو مکارم الاخلاق نبی ام ابیھا کہتے ہیں،جو حضرت علی جیسے امام کی ہمسر ہیں کہ انہوں نے مصلحت اسلام کی خاطر 25 سالہ سقوط اختیار کیا (البتہ واضح رہے کہ طول تاریخ میں تشیع بعض جگہوں پر ساقط رہا ہے لیکن ساکن نہیں)تو اس سیدہ کونین نے پشت دروازہ پر ولایت کا دفاع کیا.

اگر جناب سیدہ اس دن پشت دروازہ ولایت کا دفاع نہ کرتی تو آج تمدن اسلامی کا نام لینے والا بھی کوئی نہ ہوتا.ابھی تک کے ناقص مطالعات سے مجھے ذاتی طور پر یہ سمجھ آتی ہے کہ دنیا میں چاہے مادی نظام ہو یا الہی نظام ہو اگر اسکی خواتین میدان میں نہ ہوں تو ممکن ہی نہیں کہ وہ نظام نافذ ہوسکے.ایک مادی اور امانیسٹ انسان کو بھی اپنی حیوانی خواہشات کی تکمیل کیلئے خواتین سے کام لینا پڑتا ہے.اور یہ آپ غربی میڈیا پر ہر روز دیکھتے ہیں ایک صدر سے لے کر ایک فٹابالیسٹ تک نے ہمیشہ خاتون کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالا ہوتا ہے لیکن اسکا راستہ انحرافی ہے.اس کے برعکس الہی خاتون ہے جو اخلاق،فداکاری اور ایثار کے دائرہ میں رہ کر الہی نظام کی تقویت کا سبب بنتی ہے.

ہمیں جناب سیدہ کی شہادت پر دکھ ہے اور گریہ کرتے رہیں گے.لیکن اس سے بھی مھم مسلہ اس شخصیت کے خون کی مدیریت ہے.ہر شخصیت کی شہادت کے بعد اگر اسکے خون کی مدیریت ہوجائے تو ملت درست نتیجہ لیتی ہے ورنہ خون ضائع ہو جایا کرتا ہے.کسی حد تک اس عظیم خون کی مدیریت ہوئی ہے تو چودہ سو سال بعد اس کا ثمرہ انقلاب اسلامی کی صورت میں ملا ہے جو کہ طول تاریخ میں انبیاء،ائمہ کرام اور صالحین کی آرزو تھی.

لیکن یہ سلسلہ یہاں رکے گا نہیں اسکو تمدن اسلامی میں بدلنا ہے.اور اس تمدن کی بنیاد ایک خاتون کی تربیت سے شروع ہو گی.پس جناب سیدہ کے خون کی مدیریت کا مطلب ایسی خواتین تیار کرنا ہے جو آج مصلحین کے قیام کی صورت میں کردار زینبی اور انکے سقوط کی صورت میں کردار فاطمی ادا کر سکیں. لہذا کمر باندھ کر حوصلہ اور بصیرت سے اس تربیت کی وادی میں داخل ہوجائیں.شاید ممکن ہے آپ بھی تمدن اسلامی کی تشکیل کا ایک جز ثابت ہوں.البتہ واضح رہے اسکا عملی میدان تحریر لکھنے سے زیادہ مشکل ہے.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × one =