جولائی 27, 2024

متنازعہ توہین صحابہ بل اور سید باقر حسینی کے خلاف FIR کا معاملہ

تحریر: ایس ایم شاہ

بلتستان امن کا گہوارہ ہے۔ پورے ملک میں جب امن و امان کی صورت حال ناگفتہ بہ تھی تب بھی یہاں سے امن کا پیغام بھرپور طریقے سے پوری دنیا کو جاتا رہا ہے۔ امن و امان کے پیش نظر زندگی کے تمام شعبوں میں یہاں خاطر خواہ ترقی ہو رہی ہے۔ امن و امان کی برقراری کے حوالے سے شروع سے اب تک یہاں کے علمائے کرام کا کلیدی کردار رہا ہے۔

ملک کے دوسرے شہروں کے امن و امان کو خراب کرنے والوں سے یہاں کا امن و سکون بھی برداشت نہ ہوا۔ امن و امان کو خراب کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے بروئے کار لائے گئے۔ کبھی کوہستان، چلاس اور بابوسر جیسے مقامات پر تکفیری ٹولوں کے ذریعے سے بے گناہ شیعہ مسافروں کو شناخت کرکے بسوں سے اتار کر شہید کر دیا گیا۔ 28 فروری 2012 کو سانحہ کوہستان رونما ہوا۔ یہ غم ابھی تازہ تھا اتنے میں 3 اپریل 2012 کو سانحہ چلاس ہوا۔ جس سے پورے گلگت بلتستان میں صف ماتم بچھ گئی۔ یہ زخم ابھی تازہ تھا اتنے میں 16 اگست 2012 کو سانحہ بابوسر نے پورے گلگت بلتستان کو ماتم کدہ بنا دیا۔ ایسے سانحات میں 130 شیعہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔ بے گناہ مسافروں کو جارحانہ انداز میں بسوں سے اتارا گیا۔ شناختی کارڈ چیک کرنے کے بعد انہیں بے دردی سے شہید کیا گیا۔ ان 130 شہیدوں کے ورثاء آج تک اپنے عزیزوں کے قاتلوں کی تلاش میں ہیں۔ گلگت بلتستان کے ہر باسی کے ذہن میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ اگر مقتدر حلقے ان حملوں میں ملوث نہیں تھے تو ابھی تک ان سانحات کے ماسٹر مائنڈ اور دہشتگردوں کی شناسائی کیوں نہیں ہو پائی؟!

آئے روز لاشیں اٹھانے کے باوجود اور 130گھروں کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم، عورتیں بیوہ، بوڑھی مائیں بے سرپرست اور عمر رسیدہ باپ بے سہارا ہونے کے باوجود بھی یہاں کے علمائے کرام گلگت بلتستان کے عوام کو صبر کا دامن تھامے رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ یہاں کے عوام نے بھی علمائے کرام کے فرمان پر لبیک کہتے ہوئے ان تمام مصائب و آلام کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا اور کسی غیر شیعہ مسلمان کو خراش تک نہیں آنے دیا۔ بعدازاں وقتا فوقتاً ہمارے صبر و بردباری کا امتحان جاری رہا۔ اب ایسے وقت میں کہ جب ملک دیوالیہ ہونے کو ہے، معیشت کا پہیہ جام ہوچکا ہے، سیاسی طور پر ابتر صورت حال ہے، کمرتوڑ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے، غربت و افلاس میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ غرض زندگی کے ہر شعبے کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ رژیم چینج ہو رہی ہے۔ امریکہ مشرق وسطیٰ سے پسپا ہوکے نکلنے کے لیے آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ چین، روس، ایران، عراق، پاکستان، سعودی عرب اور چند دیگر ممالک پر مشتمل ایک مضبوط بلاک بن رہا ہے۔ دو اہم اسلامی ممالک ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کافی عرصے تک سرد مہری کا شکار رہنے کے بعد اس سال ان کے مابین کافی قربت آگئی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو کہ جس دن ان دو ممالک کے عہدیداران باہمی تعاون کو آگے بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات نہ کرتے ہوں۔ جس کے باعث ہمارے لیے بھی تعلقات کے نئے باب اور ترقی کے نئے دریچے کھل رہے ہیں۔ ہماری بیوروکریسی، سیاست، اسٹبلشمنٹ، اقتصاد غرض ہر اہم شعبے میں امریکہ نواز افراد کی کوئی کمی نہیں اور امریکہ کو بھی کافی عرصے سے ہمارے ملک میں اپنی مرضی کے فیصلے کرانے کی عادت ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں واحد اٹامک اسلامی ملک کو ہاتھ سے دھو بیٹھنا بھی امریکہ کے لیے بہت بڑا چیلینج ہے۔ لہذا وہ پورے ملک کو فرقہ واریت کی آگ کی طرف دھکیلنا چاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کا ہدف بھی ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانا اور قرضوں کے بوجھ تلے ہمیں دبانا اور ہمیں بلیک میل کرنا ہے۔ تاکہ یہ ملک اندر سے اتنا کمزور ہوجائے کہ پھر اپنی خارجہ پالیسی بدلنے کی پوزیشن میں ہی نہ رہے۔ یکساں نظام تعلیم کے نام پر نام نہاد تکفیری ٹولوں کے آراء کو عملی کرکے اور سنجیدہ اور امن پسند علما کے آراء کو نادیدہ قرار دے کر تکفیری نصاب مرتب کرکے آئندہ آنے والی ہماری جدید نسلوں کو بھی فرقہ واریت، شدت پسندی اور تنگ نظری کی طرف دھکیلنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا جا چکا ہے۔ ہمارے مختلف اداروں میں چھپے امریکہ نواز کالی بھیڑیں ان کی سہولت کاری کرکے اندر سے ملک کی جڑیں کاٹنے میں مصروف عمل ہیں۔ رڑیم چینچ کے ساتھ ساتھ آئے روز حکومتوں کی تبدیلی نے بھی ملک کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔

ایسے وقت میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے بقول چند اسمبلی ممبران اور سینیٹ اراکین کے مابین کروڑوں روپے میں نام نہاد ناموس صحابہ بل پر سودا ہوتا ہے اور 242 میں سے فقط 8 یا 18 اراکین کے ساتھ سودا کرکے کورم اور دیگر شرائط کو پامال کرکے یہ بل پاس کیا جاتا ہے۔ تاکہ ملک چلانے میں ہر اعتبار سے ناکام مقتدر حلقے اپنی کارستانیوں سے عوام کی توجہ ہٹا سکے۔ دہشتگرد ٹولے کا مرتب کردہ بل صدر کی جانب سے مسترد ہونے کے باوجود بھی اس کے بدترین اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اہل سنت کے نامور عالم دین مفتی محمد حنیف قریشی پر حال ہی میں گستاخی کی ایف آئی آر ہوچکی ہے۔

متنازعہ بل کے منفی اثرات سے امن کے گہوارے میں موجود اتحاد بین المسلمین اور امن کے داعی عالم دین آغا سید باقر حسین الحسینی بھی محفوظ نہ رہ سکے۔ اس کا پس منظر کچھ اس طرح ہے۔ ملک کا حساس ترین بارڈر زون اور سرزمینِ امن گلگت بلتستان جہاں پر ملکی ادارے یہاں کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں مکمل ناکامی کا اظہار کرنے کے بعد آغا سید باقر حسین الحسینی نے کسی سول نافرمانی کے لیے نہیں بلکہ عوامی مسائل کو عوامی وسائل سے حل کرنے کی غرض سے تمام اہالیان بلتستان اور تمام مسالک کے علمائے کرام کو اعتماد میں لینے کے بعد پھیالونگ واٹر ڈائیورژن پروجیکٹ کو عوامی سطح پر آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ سدپارہ ڈیم تک یہ پانی پہنچاکر عوام کے دو اہم بنیادی مسائل پانی کی قلت اور بجلی کے بحران کو حل کیا جاسکے۔ اس ہدف کے تحت ماہرین پر مشتمل دستے سروے کے لیے دیوسائی بھیجے گئے۔ آخر کار ڈیڑھ ارب کا میگا پروجیکٹ عوام کے ذریعے مکمل کرنے کی ٹھان لی۔ تمام طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے ان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ عوامی اعتماد پر پورا اترتے ہوئے آغا صاحب کی سرپرستی میں اس میگا پروجیکٹ پر باقاعدہ کام بھی جاری ہے۔ یہ میگا پروجیکٹ ان شاء اللہ کم مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچ کر رہے گا۔ چلاس کے امن پسند علما نے بھی اس سال محرم الحرام میں امام حسین علیہ السلام کی یاد میں سبیلیں لگوائیں اور چوکوں کا نام تبدیل کے پاکیزہ ہستیوں سے منسوب کیا۔ پھر بلتستان کے علما کو چلاس میں مدعو کیا۔ بلتستان کے علما وہاں جاکر پیغام امن و اتحاد عام کرنے کا مصمم رکھتے تھے۔ ہمارے مقتدر حلقوں سے نہ عوام کے اپنے وسائل اپنے مسائل کے حل کرنے لیے خرچ ہونا برداشت ہوا اور نا ہی عوامی اتحاد ان سے ہضم ہوسکا۔ بعدازاں ایک سوبیس سمجھی سازش کے تحت یہاں مسلکی آگ لگانے کی دانستہ کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے مذکورہ متنازعہ بل کی مخالفت میں منعقدہ علما کے ایک خصوصی اجلاس میں آغا سید باقر حسینی کی تقریر کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرکے نفرت کی آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ اس مقصد کے لیے حسب سابق چلاس سے تکفیری افراد پر مشتمل دہشت گرد ٹولے کے جذبات کو ورغلا کر ان کے ذریعے سے شاہراہ قراقرم کو بند کرایا گیا۔ مولویوں کے لباس میں ملبوس چند شرپسند تکفیری کرائے کے مفتیوں کے ذریعے شیعہ مسلمانوں کے خلاف زہر آلود تکفیری نعرے لگوائے گئے اور قتل و غارت کی دھمکیوں اور شیعہ مسلمانوں کا خون بہانا حلال ہونے کے فتوے سوشل میڈیا پر بھی نشر کئے گئے۔ پھر بھی گلگت بلتستان کے علمائے کرام نے عوام کو اپنے کنٹرول میں رکھا تاکہ یہاں کی پرامن فضا مخدوش نہ ہونے پائے۔ بعد ازاں مرکز تشیع سکردو سٹی تھانے میں بھی نائب امام جمعہ اور صدر انجمن امامیہ آغا سید باقر حسین الحسینی کے خلاف جعلی بے بنیاد ایف آئی آر کٹوائی گئی۔ ایف آئی آر کرانے والے کی شناخت ابھی تک نہیں ہو پائی ہے۔ پھر عوام اتنے جذبات میں آگئے کہ اچانک بغیر کسی اطلاع رسانی کے ہزاروں کی تعداد میں پرامن شیعہ مسلمان آغا باقر کے گھر پر پہرہ دینے حاضر ہوگئے۔ پھر عوام نے آغا صاحب کے ہمراہ مرکزی جامع مسجد سکردو کا رخ کیا۔ وہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ اجتماع ستر اسی ہزار تک پہنچ گیا۔ پھر یہ حسینی جوان لبیک یاحسین کا نعرہ بلند کرتے ہوئے علمائے کرام کی قیادت میں پُرامن احتجاجی ریلی کی صورت میں یادگار شہداء تک گئے۔ وہاں آغا صاحب سمیت دیگر علمائے کرام نے عوام کے جذبات سے کھیلنے کے بجائے حسب سابق صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پرامن طریقے سے منتشر ہونے کی ہدایت کی۔ جس کے بعد ایک گھملے کو بھی نقصان پہنچائے بغیر لوگ وہاں سے پرامن طریقے سے منتشر ہوکر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے۔

جمعے کی نماز میں بھی لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا۔ نماز جمعہ کے بعد احتجاجی ریلی کی صورت میں لاکھوں کا یہ اجتماع یادگار شہداء تک گیا۔ وہاں پرامن احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ تمام علمائے کرام عوام کو اپنے جذبات قابو میں رکھنے اور اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھنے کی تلقین کرتے رہے۔ علاوہ ازیں عین اسی وقت بلتستان کے دیگر تمام اضلاع سمیت گلگت، نگر، استور اور دنیور میں بھی بھرپور مگر پرامن احتجاجات ہوئے۔

کاش دوسری طرف موجودا علمائے کرام بھی عوامی جذبات کو ورغلانے کے بجائے انہیں دشمنوں کی سازشوں اور مقتدر حلقوں کی چالوں کی نشاندھی کرکے شرپسند عناصر کو لگام دینے کی تلقین کرتے تو گلگت بلتستان میں مثالی اخوت و بھائی چارگی کبھی متأثر نہ ہوتی اور ایسا دن کبھی ہمیں دیکھنا نہ پڑتا۔ کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے کبھی نہیں بجتی۔

عوامی اتحاد اور عوام کے دل علمائے کرام کے احترام کے جذبے سے سرشار ہونے کے باعث یہ مسئلہ تو حل ہوکے رہے گا لیکن اصل مشکل اس کے بعد کا مرحلہ ہے۔ جس طرح سیاسی لیڈروں کو نشانہ بناتے وقت پہلے مختلف طریقوں سے ان کے رفقائے کار کو ان سے الگ کیا جاتا ہے۔ پھر آخر میں اصل لیڈر کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہی حربہ ہمارے خلاف بھی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔ عوام کی دینی غیرت، مذہبی جذبہ، اتحاد اور عوام کے دلوں پر علما کی حکومت کا ان مقتدر حلقوں نے قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ اب ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں وہ ایسے حربے بروئے کار لائیں جن کے ذریعے سے جوانوں کی دینی غیرت اور مذہبی جذبہ کمزور پڑ جائے۔ علاوہ ازیں علما اور عوام بالخصوص علما اور جوانوں میں دوری واقع ہوسکے۔ اس مقصد کے لیے جوانوں کو گمراہ کرنے، غیر اخلاقی کاموں میں مبتلا کرنے، جنسی بے راہ روی، چرس، افیون، شراب کے عادی بنانے اور علما اور عوام درمیان نفرت ایجاد کرنے اور لوگوں کے دلوں پر موجود علما کی حکمرانی کو کمزور کرنے کے لیے ہر ممکن حربے بروئے کار لائے جاسکتے ہیں۔ ساتھ ہی بلتستان میں شیعہ اکثریت میں ہونے کے باعث ان حلقوں کو اپنی من مانی کرنے میں کافی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ لہذا ان کی ہر ممکن کوشش یہی ہوگی کہ یہاں کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرکے شیعہ اکثریت کو تبدیل کیا جائے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ علما اور عوام دونوں بصیرت اور دور اندیشی سے کام لیں، ان حلقوں کے پروپیگنڈوں پر کان نہ دھریں اور اپنی زمینیں اغیار کو بیچنے سے اجتناب کریں۔ ان شاء اللہ پہلے بھی ہم نے اتحاد و اتفاق اور علما کی سرپرستی کے ذریعے دشمن کی سازشوں کو خاک میں ملا دیا ہے۔ اس مرتبہ بھی ہم اتحاد کی طاقت سے ان سازشی عناصر کو شکست دیں گے اور علما کی سرپرستی میں آئندہ بھی علاقے کی تعمیر و ترقی کے لیے کوششیں جاری رکھ کر دشمنوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملاتے رہیں گے۔ عوامی اتحاد، جوانوں کا جذبۂ ایمانی اور غیرتِ دینی، بابصیرت اور باعمل علمائے کرام کی سرپرستی میں آگے بڑھیں گے تو ان شاء اللہ تکفیری گروہ کے ناپاک عزائم خاک میں مل جائیں گے، متنازعہ تکفیری بل ردی کی ٹوکری کی نذر ہو جائے گا، آغا سید باقر حسین الحسینی کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوگا اور ان کی زیر سرپرستی میں نہ فقط پھیالونگ واٹر ڈائیورژن پروجیکٹ مکمل ہوگا بلکہ مستقبل میں ہم شاہراہ قراقرم کا متبادل راستہ شغرتھنگ پروجیکٹ کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچاکر دہشتگرد ٹولے کے شر سے گلگت بلتستان کے باسیوں کو نجات دلاکر امن کے گہوارے کو ہمیشہ کے لیے امن کا گہوارہ بنا کر رکھیں گے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

16 − six =