اکتوبر 8, 2024

مالدار بلوچستان لیکن ایسا کیوں؟

اب تو بچے بچے کو علم ہوگا کہ پاکستان میں ایک صوبہ جسے بلوچستان کہا جاتا ہے جو کہ رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ بلوچستان کے ساتھ دو ہمسایہ ممالک ایران اور افغانستان کے بارڈر لگتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت اور سب سے بڑا شہر کوئٹہ ہے۔ جسے انگریز دور میں چھوٹا لندن بھی کہا جاتا تھا۔ صوبہ بلوچستان 37 اضلاع پر مشتمل ہے، بلوچستان کیلئے قومی اسمبلی کے 16 ممبران اور صوبائی اسمبلی کے 65 ممبران ہوتے ہیں۔ صوبے میں بولی جانے والی بڑی زبانیں بلوچی ، پشتو ، براہوئی ، سندھی اور سرائیکی ہیں۔ سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو یہاں کے لوگوں کی اکثریت مذہبی اور قوم پرست پارٹیوں سے منسلک پائی جاتی ہے۔ تعلیمی لحاظ سے یہ صوبہ دیگر صوبوں کی نسبت کم تعلیم یافتہ اس وجہ سے ہے کیونکہ یہاں تعلیمی سہولیات نہ ہونے کہ برابر ہے۔ یہاں کے کالے اور بڑے بڑے پہاڑوں میں بہت سے قیمتی معدنیات پائے جاتے ہیں، جس میں اعلی درجہ کے سونا ، کاپر ، کوئلہ اور دیگر معدنیاتی اشیا پائی جاتی ہیں۔ سوئی ڈیرہ بگٹی سے قدرتی گیس نکلتی ہے، جو پورے پاکستان میں گیس فراہم کرتی ہے، مگر صوبہ بلوچستان میں اب بھی ایسے اضلاع موجود ہیں جہاں بلوچستان کا قدرتی گیس بلوچستان کے عوام کو ہی میسر نہیں۔ بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس صوبے میں ایک ٹرینڈ چل رہا ہ جس شخص کے پاس بھی مال و دولت آیا وہ نواب ، سردار ، میر ، ملک جو بھی اس کا دل کریگا وہ بن جائیگا مگر وہ شخص عوام کا درد دل میں نہیں رکھے گا۔ یہاں کے لوگ اب بھی پرانے خیالات کے مالک ہیں، جو سردار ، نواب ، میر ، ملک کہے گا اس کے پیچھے عوام اسی بات پر لبیک کرے گی چائے یہ فیصلہ بعد میں ان کے لیے فائدہ مند ہو یا نقصان دیں۔ اسی وجہ سے یہاں کے اکثر لوگ ابھی تک اپنا فیصلہ خود نہیں کرسکتے اور اس جدید دور میں بھی آئے روز مشکلات کا سامنا کرتے رہتے ہے صوبے کے حکمران کرپٹ اور عوام خاموش تماشائی ہے۔ انتخابات کے وقت عوام کو کچھ پیسے دے کر یا جھوٹی تسلیاں اور وعدے کرکے ان کا منہ اگلے پانچ سالوں کے لئے بند کیا جاتا ہے۔ ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان اعلی ڈگریاں حاصل کرتے ہیں مگر روزگار کا نام و نشان تک نہیں۔ پورے بلوچستان میں صحت کا کوئی اچھا نظام نہیں، تعلیمی ادارے برائے نام ہیں، صوبے کا اپنا قدرتی گیس اپنوں کو میسر نہیں، بجلی کی لوڈشیڈنگ نے شہریوں کی روزمرہ زندگی اور دیہاتوں میں زمیندار کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ یہاں روزگار نہیں کیونکہ بلوچستان میں فیکٹریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں کے دولت مند شخصیات میر و معتبر اگر واقعی میں خیر خواہ ہیں تو ہونے چاہیے تھا کہ وہ اپنے لوگوں کی پرواہ کرتے ہوئے اپنے صوبہ میں فیکٹریاں لگاتے جس سے اس صوبے کے نوجوان بے روزگار تو نہ ہوتے، مگر افسوس کے یہاں کے مالدار شخصیات صرف دھوکے کی سیاست کرنا جانتے ہیں نہ کہ اس صوبے میں خوشحالی لانا اپنے لوگوں کی زندگی آسان بنانا انکا مقصد ہے۔ بلوچستان کے نوجوان روزگار نہ ملنے کی صورت میں دو وقت کی روٹی کمانے کے لیے آخر کار اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے ایران یا تو افغانستان بارڈر کا رخ کرتے ہیں۔ کچھ نوجوان بارڈر پر مزدوری کرتے ہیں تو کچھ نوجوان انہی باڈروں سے مختلف سامان اسمکلنگ کے ذریعے دوسرے شہروں یا صوبوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے یہ کام بھی کبھی ہوتا ہے تو کبھی نہیں ہوتا جب کام مکمل بند ہوتا ہے تو یہ نوجوان دو وقت کی روٹی نہیں کماسکتے اور ان کے بچوں کو بھوکا سونا پڑتا ہے۔ کیونکہ آئے روز ایران بارڈ پر جس میں ضلع چاغی کا شہر تفتان زیرو پوائنٹ ، ماشکیل ، تربت اور دیگر چھوٹے گاوں شامل ہیں اور دوسری جانب افغانستان بارڈ پر جس میں باب دوستی چمن ، قلعہ سیف اللہ کا بادینی گیٹ ، ضلع چاغی میں برابچہ اور دیگر چھوٹے گاوں شامل ہیں۔ باڈرز پر سیکورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستانی سیکورٹی ادارے باڈرز کو بند کردیتے ہیں تو کبھی ایران حکومت والے تو کبھی افغان حکومت والے بند کرنے کو کہتے ہے۔ جس سے سب سے زیادہ نقصان دونوں اطراف کے مزدوروں کو روزگار کمانے میں ہوتا ہے۔ جب باڈرز بند ہوتے ہیں تو یہ مزدور دار طبقہ اپنے پیاروں کو دو وقت کی روٹی فراہم نہیں کرسکتے، اچھی تعلم اچھی صحت اور دیگر ضروریات زندگی تو بہت دور کی بات۔ باڈرز پر کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہمیں ہمارے اپنے سیکورٹی فورسز کے لوگ جگہ جگہ تنگ کرتے ہیں اور ہم غریب مزدورں سے پیسے وصول کرتے ہیں ہر روز بارڈر پر کام نہیں ہوتا اور جب کام ہوتا ہے تو آدھے سے زیادہ کمایا ہوا پیسہ ان سیکورٹی فورسز کے چیک پوسٹوں پر جمع کرنا پڑتا ہے، اس کے باوجود ہمیں اپنا کام کرنے نہیں دیا جاتا۔ ہمارے مزدوروں اور ہمارے ڈرائیوروں کو جو باڈرز سے سامان لے جاتے ہیں ان پر تشدد کیا جاتا ہے ہماری گاڑیوں کو سامان سمیت بند (ضبط) کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک ہی فریاد بار بار سننے کو ملتی ہے کہ ہمیں باعزت روزگار فراہم کیا جائے تاکہ کم سے کم ہم اپنے بچوں کو دو وقت کی حلال رزق کھلا سکیں۔ باڈرز پر کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ ہم جائے تو کہاں جائے کریں تو کیا کریں۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ بے روزگاری کے مسئلے کو جلد از جلد حل کریں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گورنمنٹ کے مختلف اداروں میں جگہ ملنی چاہیے اور جو مزدور کار طبقہ ہے ان کو باڈرز پر اس وقت تک کام کرنے دیا جائے جب تک اس صوبے میں سینکڑوں کی تعداد میں فیکٹریاں نہیں بنتی۔ حکومت وقت کو چاہیے کہ ضلع چاغی میں واقعہ ریکوڈک منصوبے کا آغاز جلد از جلد کریں اور یہاں سب سے پہلے بلوچستان کے نوجوانوں کو روزگار فراہم کریں۔ تاکہ یہاں کی غریب عوام غربت سے نکل کر ایک خوشحال زندگی بسر کر سکے۔
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

20 − 4 =