جولائی 27, 2024

فاتحہ معرکہ شام سیدہ زینب کا واقعہ کربلا میں کردار

تحریر: کوثر عباس قمی

آپ یکم شعبان (اور بعض منابع کے مطابق 5 جمادی‌ الاول 5 یا 6 ھ کو مدینہ میں اس دنیا میں تشریف لائیں

کئی روایات میں ہے کہ حضرت زینب س کا نام پیغمبر اسلامؐ نے رکھا تھا۔ کہا گیا ہے کہ جبرئیل نے خدا کی طرف سے یہ نام پیغمبر اکرمؐ تک پہنچایا تھا۔

کتاب “الخصائص الزینبیۃ” میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرمؐ نے حضرت زینب کا بوسہ لیا اس کے بعد فرمایا: “میری امت کے حاضرین غایبین کو میری پوتی زینب کے کرامت سے آگاہ کریں؛ بتحقیق میری پوتی اپنی نانی حضرت خدیجہ کی طرح ہیں۔

زینب لغت میں “نیک منظر اور خوشبودار درخت” یا “باپ کی زینت” کے معنی میں آتا ہے۔

حضرت زینبؑ کے دسیوں القاب ہیں من جملہ بعض مشہور القاب یہ ہیں:

عقیلۂ بنی ہاشم، عالمۃ غَیرُ مُعَلَّمَہ، عارفہ، موثّقہ، فاضلہ، كاملہ، عابدہ آل علی، معصومۂ صغری، امینۃ اللہ، نائبۃ الزہرا، نائبۃ الحسین، عقیلۃ النساء، شریكۃ الشہداء، بلیغہ، فصیحہ اور شریكۃ الحسین۔

آپ نے زندگی میں بہت زیادہ مصائب دیکھے۔ جیسے رسول اللہ کی وفات،اپنی والدہ فاطمہ ع اور حضرت علی ع کی زندگی کی سختیاں،

شہادت امام حسن مجتبی ،

واقعۂ کربلا

اور کوفہ و شام کی اسیری

ان وجوہات کی بنا پر آپ کو ام المصائب کے لقب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔

سیدہ زینب سلام اللہ کو بچپن ہی سے امام حسین (ع) سے اتنی محبت اور الفت تھی کہ ایک رات بھی بغیر بھائی حسین (ع) کے سکون نہیں ملتا تھا، جس کی دلیل حضرت علی (ع) کا عبد اللہ بن جعفر سے شادی کی پیش کش پر دو شرطوں کا رکھنا ہے، ان دو شرطوں کو تاریخ کی کتب نے اس طرح ذکر کیا ہے۔

1۔ میری بیٹی (زینب کبری ) حسین (ع) سے بے حد محبت رکھتی ہے، لہذا میں اس شرط پر تمہارے عقد میں دوں گا کہ تم اسے 24 گھنٹے میں ایک بار ضرور حسین (ع) سے ملاقات کی اجازت دو گے، چونکہ زینب حسین (ع) کو دیکھے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔

2۔ جب بھی امام حسین (ع) سفر کریں اور زینب کو ساتھ لے جانا چاہیں تم زینب کو نہیں روکو گے اور حسین کے ساتھ جانے کی اجازت دو گے۔

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت امام حسین ع نے مدینہ النبیؐ چھوڑا تو سیدہ زینب بھی آپ کے ہمراہ چلیں

جس وقت یہ کاروان توحید مدینہ سے چلا ہے تو آپ کے شوہر حضرت عبد اللہ ابن جعفر بیماری کی وجہ سے ہمراہ نہ جا سکے لیکن جب حسین ابن علی مکہ سے عراق کی جانب روانہ ہو رہے تھے تو حضرت عبد اللہ بیماری کے باوجود اپنے دو بیٹوں عون اور محمد کو لے کے تنعیم کے مقام پر پہنچے اور دونوں بیٹوں کو حسین ع کے ہمراہ کیا اور تاکید کی کہ حسین ع کا ساتھ نہ چھوڑا چاہے جان ہی کیوں نہ قربان کرنی پڑے

اور پھر ایثار کا اندازہ لگائیے کہ جب کربلا کے شھیدوں پہ گریہ کا موقعہ ملا تو حضرت ام کلثوم نے سیدہ زینب س سے کہا کہ ہر

بی بی اپنے اپنے وارث کی میت پہ رو رہی ہے مگر آپ حضرت عون و محمد نہیں رورہیں؟ تو فرمایا میں نے اپنے بچے اسلام اور حسین ع پہ صدقہ کر دیئے ہیں اور صدقہ پہ رویا نہیں جاتا!

جب امام عالی مقام مکہ سے نکلنے لگے تو عبداللہ بن عباس نے روکا اور کہا کہ عراق کی طرف نہ جائیں تو امام نے کہا:

” ان اللہ شاء ان یرانی قتیلا”

مشیت خداوندی یہی ہے کہ میں شہید ہو جاوں۔

فرمایا جب آپ نے شہید ہونا ہے تو پھر اپنی پردہ دار مخدرات عصمت کو کیوں لے کر جارہے ہیں؟ فرمایا:

” ان اللہ شاء ان یراھن سبایا”

اللہ کی مشیت اور ارادہ یہ ہے کہ یہ اسیر ہو جائیں

خدا ان کو اسیر کیوں دیکھنا چاہتا ہے؟

اس لیئے کہ کربلا کے مقصد کو جس طرح سیدہ زینب جرآت اور شجاعت کے سامنے یزید جیسے ظالم اور سفاک کے سامنے بیان کر سکتی ہیں ، کوئی اور خاتون نہیں کر سکتی

اور پھر آیات قرآنی پر استوار حضرت زینب کا عالمانہ کلام و خطبات

اللہ اللہ، علی کے لہجے میں آپ کے وہ خطبات!

آپ کے علمی کمالات کا واضح ثبوت ہیں۔

تبھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ

دین اسلام کو بقاء امام حسین اور ان کے اصحاب کی شہادت سے نصیب ہوئی اور اس مقصد کی تکمیل سیدہ زینب سلام اللہ کی اسیری اور کوفہ و شام کی راہوں اور درباروں میں بلیغ خطبات دینے سے ممکن ہوئی۔

سیدہ زینب س کے خطبات نہ ہوتے تو کربلا پہ پردہ پڑ جاتا، فکر حسین اور مقصد حسین ع کو مدینہ سے مکہ، مکہ سے کربلا اور بالاخص کربلا سے شام اور پھر شام سے اسیری سے رہائی کے بعد پھر کربلا اور واپس مدینہ تک ہر جگہ ہر مقام پر اجاگر کیا ۔

معاشرے کی اصلاح کیلئے امام حسین (ع) نے ایک انوکھا اور نیا باب کھولا وہ یہ تھا کہ اپنے اس قیام اور انقلاب کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا :

حدیث عشق دو باب است کربلا تا دمشق

یکی حسین رقم کرد و دیگری زینب

پہلا مرحلہ: خون، جہاد اور شہادت کا مرحلہ تھا۔

دوسرا مرحلہ: پیغام رسانی، بیدار گری، یادوں کو زندہ رکھنے کا مرحلہ،

پہلے مرحلے کے لیے جان نثار اور با وفا اصحاب کو انتخاب کیا۔

اس طرح یہ ذمہ داری مردوں کو سونپی گئی۔ جنہوں نے جس انداز میں اپنی اپنی ذمہ داری کو نبھایا، تاریخ انسانیت میں ان کی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ سب درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔

اب رہا دوسرا مرحلہ، کہ جسے زینب کبری (س) کی قیادت میں خواتین اور بچوں کے حوالے کیا گیا، جسے خواتین نے جناب سیدہ زینب (س) کی نگرانی و قیادت میں اپنے انجام تک پہنچانا تھا۔ اس عہدے کو سنبھالنے میں حضرت زینب (س) نے بھی کوئی کسر نہیں رکھی۔

آپ نے قید سے رہائی کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی رکھی کہ رہائی کے بعد ہمیں ایک مکان دیا جائے جس میں ، میں بھائیوں اور کربلا کے دوسرے شہداء کی مجلس پڑھ کے فکر و مقصد شھادت حسین ع بیان کرسکوں

یزید لعین نے یہ شرط مان کے مکان دیا اور یوں مجلس و عزاداری کی سیدہ زینب ع نے بنیاد رکھی

آپ نے اپنے والد ماجد حضرت علیؑ اور والدہ ماجدہ حضرت زہراؑ سے احادیث بھی نقل کی ہیں.

اس کے علاوہ آپ کوفہ میں حضرت علیؑ کی خلافت کے دوران خواتین کے لئے قرآن کی تفسیر کا درس بھی آپ کی علم دانش کا ناقابل انکار ثبوت ہے۔

حضرت زينبؑ رسول اللہؐ اور علی و زہراءؑ کی بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ صحابیۃ الرسولؐ بھی تھیں اور منقول ہے کہ آپ روایت حدیث کے رتبے پر فائز تھیں چنانچہ محمّد بن عمرو، عطاء بن سائب، فاطمہ بنت الحسین اور دیگر نے آپ سے حدیثیں نقل کی ہیں.

حضرت زینبؑ نے حضرات معصومینؑ سے متعدد حدیثیں مختلف موضوعات میں نقل کی ہیں۔

سننے والوں کیلئے آپ کے خطبات اپنے والد ماجد امیر المؤمنین حضرت علیؑ کے خطبات کی یاد تازہ کرتے تھے۔

کوفہ اور یزید کے دربار میں آپ کا خطبہ نیز عبیداللہ بن زیاد کے ساتھ آپ کی گفتگو اپنے والد گرامی کے خطبات نیز اپنی والدہ گرامی حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے خطبہ فدکیہ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے۔

کوفہ میں آپ کے خطبے کے دوران ایک بوڑھا شخص روتے ہوئے کہہ رہا تھا:

“میرے ماں باپ ان پر قربان ہوجائے، ان کے عمر رسیدہ افراد تمام عمر رسیدہ افراد سے بہتر، ان کے بچے تمام بچوں سے افضل اور ان کی مستورات تمام مستورات سے افضل اور ان کی نسل تمام انسانوں سے افضل اور برتر ہیں۔

حضرت زینب كبریؑ راتوں کو عبادت کرتی تھیں اور اپنی زندگی میں آپ نے کبھی بھی نماز تہجد کو ترک نہيں کیا۔ اس قدر عبادت پروردگار کا اہتمام کرتی تھیں کہ عابدہ آل علی کہلائیں۔

کس میں اتنی ھمت ہے کہ 72 سے زیادہ لاشے سامنے پڑے ہوں ، خیمے جل گئے ہوں ، ردائیں لٹ گئی ہوں، یتیموں اور بیواوں کو سنبھال کے شام غریباں کو علی و عباس بن کے پہرہ بھی دے اور نماز تو نماز

نماز تہجد بھی قضا نہ ہو

آپ کی شب بیداری اور نماز شب دس اور گیارہ محرم کی راتوں کو بھی ترک نہ ہوئی۔

فاطمہ بنت الحسینؑ کہتی ہیں:

شب عاشور پھوپھی زینبؑ مسلسل محراب عبادت میں کھڑی رہیں اور نماز و راز و نیاز میں مصروف تھیں اور آپ کے آنسو مسلسل جاری تھے۔

خدا کے ساتھ حضرت زینبؑ کا ارتباط و اتصال کچھ ایسا تھا کہ حسینؑ ع نے روز عاشورا آپ سے وداع کرتے ہوئے فرمایا:

“یا اختي لا تنسيني في نافلة الليل” ترجمہ: میری بہن! نماز شب میں مجھے مت بھولنا۔

حضرت زینبؑ صبر و استقامت میں اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ زندگی میں اتنے مصائب سے دوچار ہوئیں کہ تاریخ میں آپ کو ام المصائب کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ کربلاء میں جب اپنے بھائی حسینؑ کے خون میں غلطاں لاش پر پہنچیں تو آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کیا:

بار خدایا! تیری راہ میں ہماری اس قربانی کو قبول فرما۔

70قدم کے فاصلے پہ بھائی کی گردن پہ خنجر چلتا رہا مگر کیا مجال کہ سیدہ زینب ع صبر کا دامن چھوڑ کے سر برہنہ ہو کے لاش پہ آئی ہوں۔

علی کی بیٹی کے اس کردار نے دنیا کی خواتین کو صبر استقلال کا وہ درس دیا جس کی مثال ازل سے ابد تک کہیں نہ ملے گی

آپ کی جرات و شھامت کا دوسرا ثبوت

آپ کا بارہا امام سجّادؑ کو موت کے منہ سے نکالنا ہے

مدینہ واپسی پر نانا کی قبر پہ کھڑے ہو کے کہا تھا

نانا زینب کی محنت اور ھمت دیکھ میں حجت خدا کو بچا لائی ہوں

منجملہ ان موارد میں سے ایک ابن زیاد کے دربار کا واقعہ ہے، جب امام سجّادؑ نے عبید اللہ بن زياد سے بحث کی تو اس نے آپؑ کے قتل کا حکم دیا. اس موقع پر حضرت زینبؑ نے بھتیجے کی گردن میں ہاتھ ڈال کر فرمایا: “جب تک میں زندہ ہوں انہیں قتل نہيں کرنے دونگی۔

(نوٹ)

اس تحریر کے لیے درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا

 ابن اثیر کی أسدالغابۃ، 

 کحّالہ کی أعلام النساء

 ابوالحسن العلوی کی اخبار الزینبیات، 

 شریف القرشی کی السیدہ زینب، 

 جزائری کی الخصائص الزینبیۃ، 

 ابن منظور کی لسان العرب، ‌ واژہ «ز ن ب»۔ کے ذیل میں

 مرتضی زبیدی کی تاج العروس، 

 امین کی اعیان الشیعہ، 

 ذبیح اللہ محلاتی کی ریاحین الشریعہ،

 محمّدی اشتہاردی کی حضرت زینب فروغ تابان كوثر

 محمد کاظمقزوینی کی زینب الکبری من المہد الی 

 ابن عساکر کی اعلام النسا،

ریاحین الشریعہ، ج3، ص41۔

 شیخ مفید کی الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، 

 طبری کی دلائل الامامہ، 

 نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، اور بحارالانوار،

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

twenty − fourteen =