نومبر 2, 2024

غیر منظور شدہ ہاؤسنگ سوسائٹی نے کیسے اربوں روپے بنائے؟

تحریر: عاطف خان 

ذیشان احمد اپنی محدود آمدن سے ہر وقت پریشان رہتے تھے۔ بچے بڑے ہونے لگے تو اخراجات میں بھی اضافہ ہوا لہذا آمدن بڑھانے کی دھن ان پر سوار ہوگئی۔ انٹرنیٹ کریدا تو رابرٹ کیاسوکی، ڈین پینا سے لے کر دنیا کے دوسری مشہور کاروباری شخصیات رئیل اسٹیٹ کے گن گاتے نظر آئے۔

ذیشان (نام تبدیل کردیا ہے) کو لگا کہ جلد امیر بننے ے لیے انہیں بھی جائیداد ہی خریدنی چاہیے۔ تمام جمع پونجی اکٹھی کی تو چند لاکھ ہی ہو پائے۔ جائیداد کی قیمت معلوم کی تو پتہ چلا کہ آسمان پر ہیں۔

دارالحکومت اسلام آباد میں جائیدادیں تین طرح کی ہیں۔ ایک شہر کی انتظامیہ کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کے سیکٹرز، دوسری نجی ہاؤسنگ سوسائٹیاں اور تیسرا دیہی علاقے۔

سی ڈی اے کے کسی دوردراز سیکٹرز میں بھی پانچ مرلہ کا باقبضہ پلاٹ 50 لاکھ روپے سے کم نہ تھا۔ مضافات میں بارہ کہو سمیت دوسرے دوردراز دیہی علاقوں میں بھی اس پلاٹ کی قیمت 20 لاکھ روپے سے اوپر ہی تھی۔ دیہی علاقوں میں پلاٹ خریدنا محفوظ تو تھا کہ اس کی رجسٹری انتقال پٹوار خانے سے ہوتا تھا لیکن قباحت یہ تھی کہ یہ علاقے سیوریج پانی اور دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے ہیں اور اچھا منافع نہیں دیتے۔

تحقیق کے دوران انہیں یہ تو معلوم ہو ہی گیا تھا کہ اگر کسی پلاٹ کی لوکیشن اچھی نہ ہو، سہولیات نہ ہوں تو وقت کے ساتھ ایسی زمین کی قیمت کوئی خاص نہیں بڑھتی۔ اب ان کے پاس نجی سوسائٹیوں کا آپشن ہی بچا تھا لیکن وہ نجی سکیموں کی آئے روز کی فراڈ کی داستانوں سے تذبذب کا شکار تھے۔

ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اس سال ستمبر میں ایک پرانی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ’فیز ٹو‘ کے چرچے شروع ہو گئے۔ فیصل ٹاون کے مالک چوہدری عبدالمجید، ملک ریاض کے بعد دارالحکومت کے بڑے بلڈرز میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ذیشان کو ای میلز سوشل میڈیا اور موبائل فون، ہر طرف سے فیصل ٹاون فیز ٹو کی ترغیبات ملنا شروع ہو گئیں۔

بتایا جارہا تھا کہ ابتدائی تین روز کے لیے انتہائی کم تعارفی قیمت پر محدود پلاٹس فروخت کے لیے پیش کیے جا رہے ہیں۔ پلاٹ کی کل قیمت 27 لاکھ 95 ہزار تھی جبکہ پانچ لاکھ 95 ہزار کی ڈاؤن پیمنٹ سے پلاٹ بک ہونا تھا اور بقایا رقم پانچ سال کی آسان اقساط میں جمع کروائی جانی تھی۔

اندازہ تھا کہ تین روز کے بعد پلاٹ کی قیمت کم از کم 30 لاکھ روپے ہو جانی تھی۔ سرمایہ داروں کے لیے یہ طویل مدتی پیسہ لگانے کا اچھا موقع ہوتا ہے لیکن غریب آدمی کے لیے نہیں۔

شہر کے اکثر پراپرٹی ڈیلرز اپنے وی لاگز میں چوہدری عبدالمجید اور ان کی آنے والی سوسائٹی کے گن گاتے ہوئے تلقین کر رہے تھے کہ اگر کسی نے اس سوسائٹی میں پلاٹ بک نہ کروایا تو وہ سراسر گھاٹے میں رہے گا۔

اشتہارات نما وی لاگز سے متاثر ہو کر انہوں نے چند ایک پراپرٹی ڈیلرز کو فون کیا تو معلوم ہوا  کہ نئی سکیم کے اعلان کے لیے چوہدری عبدالمجید نے ایک تقریب کا انعقاد کیا ہے۔ ذیشان نے اس تقریب میں شرکت کا فیصلہ کیا۔

تقریب شہر سے بہت دور فیصل سٹی میں منعقد کی جا رہی تھی جسے چوہدری صاحب نے ہی قائم کیا تھا۔ اس تقریب کے شرکا سے کرکٹ گراونڈ کھچا کھچ بھرا تھا۔

گن مینوں اور شہر کے بڑے پراپرٹی ڈیلرز کے جھرمٹ میں جب چوہدری عبدالمجید پنڈال میں پہنچے تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ چوہدری مجید کا جاہ و جلال بظاہر کسی فرماں روا سے کم نہ تھا۔

’ہمارا پانچ مرلہ کا پلاٹ بھی ایک شاہکار نگینہ ہوگا۔ ہم کشادہ سڑکیں اور تمام جدید سہولیات اس نئی سکیم میں فراہم کریں گے۔ ہم بی17 پراجیکٹ بنا چکے ہیں جو 40 ہزار کنال سے زیادہ پر محیط ہے۔ ہمارا فیصل ہلز بھی 40 ہزار کنال سے زیادہ کا ہے۔۔۔‘

چوہدری عبدالمجید بول رہے تھے اور ذیشان مسحور ہو رہے تھے۔ جب چوہدری صاحب نے یہ کہا کہ وہ تین دن کے لیے پانچ مرلہ پلاٹ کی بکنگ کھولیں گے جس کے فورا ہی بعد پلاٹ کی قیمت بڑھا دی جائے گی تو ذیشان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس سکیم میں سرمایہ کاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے۔

انہوں نے پنڈال سے ہی اپنے عزیزوں و رشتہ داروں کو فون کر کے رقم کا بندوبست کرنا شروع کر دیا۔

وہ کئی فائلیں خریدنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ اگر ایک ہفتے یا مہینے میں ہر پلاٹ دو تین لاکھ روپے منافع دے گا تو اس سے بہتر ’جائز‘ سرمایہ کاری کیا ہوسکتی ہے۔ ’ایک دو ماہ میں ہی میں تمام فائلیں بیچ کر تمام قرض اتار دوں گا اور منافع سے مزید سرمایہ کاری کروں گا۔‘

وہ بڑے جوش اور ولولے سے منصوبہ بندی کرنے لگے۔ ذیشان کو پانچ لاکھ 95 ہزار روپے ہر فائل کے عوض فیصل ٹاون انتظامیہ کے نام پر جمع کروانے تھے۔

چو ہدری صاحب نے اعلان فیصل ٹاون ٹو کا کیا تھا۔ جو ان کے بقول ٹھلیاں میں واقع تھا لیکن رقم وہ دوسرے منصوبے کے اکاونٹ میں وصول کر رہے تھے۔ وہ چونکے تو صحیح لیکن چوہدری صاحب اور ان کے ڈیلرز کے دعوؤں کے زیر اثر ذیشان نے اس بات کو زیادہ اہمیت نہ دی۔

مقررہ تاریخ تک تمام تگ و دو کے باوجود ذیشان جب رقم جمع نہ کر پائے تو پراپرٹی ڈیلر نے ان پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ وہ اس نادر موقعے کو کھو کر ایک یقینی منافع سے محروم ہوجائیں گے۔

چوہدری عبدالمجید نے تو تین دن کا اعلان کیا تھا یہ پہلے ہی دن کیوں ڈیلر اتنا دباؤ ڈال رہے ہیں؟ کیا پلاٹ مفت مل رہے ہیں وہ کھٹکے لیکن جب سیکٹر جی11 میں واقع اپنے پراپرٹی ڈیلر کے دفتر پہنچے تو ہر طرف افراتفری دیکھ کر انہیں تسلی ہوئی۔

سارے کمپاونڈ میں کاریں ہی کاریں تھیں۔ مقررہ بینکوں کے باہر طویل قطاریں تھیں۔ یہ دیکھ کر انہیں تسلی ہوئی۔

سیکٹر جی11 کی مرکزی مارکیٹ پراپرٹی ڈیلرز کا گڑھ ہے جہاں دو ہزار سے زائد بڑے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے دفاتر ہیں۔

انہیں بینک کی قطار میں لگے کئی گھنٹے گزر چکے تھے کہ چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں کہ چوہدری عبدالمجید نے بکنگ لینا بند کر دی ہے۔ انہیں تشویش لاحق ہوئی۔ کسی جاننے والے سے بینک عملے کو سفارش کروا کر کسی طور انہوں نے بینکنگ اوقات میں رقم جمع کروا دی۔

رسید لے کر پراپرٹی ڈیلر کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں درخواست فارم تھما دیے۔ ایک شخص کے نام پر ایک ہی درخواست دی جا سکتی تھی۔ انہوں نے فارم  بیوی بچوں اور رشتہ داروں کے نام سے بھر کر پراپرٹی ڈیلر کے حوالے کر دیے۔

فائلیں جمع کر کے ذیشان خود کو ایک فاتح محسوس کر رہے تھے۔ اب وہ جاننا چاہتے تھے کہ اگلا مرحلہ کیا ہوگا لیکن پراپرٹی ڈیلر کے دفتر کا سارا عملہ لوگوں کے فارم بھرنے میں مصروف تھا۔

انہیں ہوں ہاں کرکے ٹرخا دیا۔ آپ کے فارم جمع ہونے پر رسید کے ذریعے آپ کو مطلع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اصرار کیا تو ایک صاحب بڑی بے رخی سے بولے۔ ذیشان کو تعجب ہوا کہ جو شخص کل تک ان کے آگے بچھا جا رہا تھا فارم لیتے ہی اتنا لاتعلق کیوں ہو گیا؟

کئی روز گزر گئے۔ وہ روز فون کرتے لیکن پراپرٹی ڈیلر کی طرف سے روز ایک ہی جواب ملتا تھا کہ جونہی چوہدری عبدالمجید کے دفتر سے رسید آئے گی وہ انہیں مطلع کر دیں گے۔

کوئی دو ہفتے کے انتظار کے بعد پراپرٹی ڈیلر نے انہیں مطلع کیا کہ ان کی رسیدیں آگئی ہیں۔ وہ سارے کام چھوڑ کر ڈیلر کے دفتر کی جانب بھاگے۔

کیا منافع چل رہا ہے فیصل ٹاون ٹو پر رسید لیتے ہی انہوں نے پراپرٹی ڈیلر سے استفسار کیا؟ ’مائنس ایک لاکھ روپے‘، پراپرٹی ڈیلر کا جواب سن کر وہ چکرا گئے۔

چوہدری صاحب نے تو کہا کہا تھا کہ ایک ہفتے بعد قیمتیں بڑھا دیں گے اور آپ نے چوہدری صاحب کی سچائی کی قسمیں کھائیں تھیں، ذیشان نے ڈیلر کو یاد کرونے کی کوشش کی۔ جواب ملا: ’دیکھیں مارکیٹ کی بات ہوتی ہے۔ پورے ملک کے ہی حلات خراب ہیں اور بلڈر تو کہتے ہی رہتے ہیں۔ ابھی تو قیمت مزید کم ہوگی۔ جیسے ہی  ایڈجسمنٹ آئی۔ مزید 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے کا مائنس لگے گا۔‘

یہ ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟ ذیشان نے بہت اصرار کیا لیکن ڈیلر تو جیسے انہیں روانی میں بتا گیا تھا اور اب شاید پچھتا رہا تھا۔ یعنی دو لاکھ روپے فی فائل منافع کمانے کے چکر میں اب انہیں ہر فائل پر دو لاکھ روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔

وہ بہت دل گرفتہ ہوئے۔ انہوں نے تو دو ماہ کے لیے رقم قرض پر حاصل کی تھی اب واپس کیسے کریں گے؟

ذیشان نے پریشانی میں دوستوں کو فون کرنا شروع کر دیا۔ وہ پراپرٹی ڈیلر کی چکنی چوپڑی باتوں اور چوہدری صاحب کے قصیدوں اور رقم دوگنی کرنے کی یقین دہانیوں کے سحر میں یہ معلوم ہی نہیں کرسکے کہ یہ سوسائٹی کس جگہ پر واقع ہے اور کیا یہ سکیم حکومت سے منظور شدہ ہے بھی یا نہیں۔

جب تک لالچی زندہ ہیں نوسرباز بھوکے نہیں مرتے۔ ایک دوست نے ہنستے ہوئے کہا لیکن ذیشان کو یوں لگا کہ شاید کسی نے ان کے سینے پر گھونسہ مار دیا ہو۔

ذیشان کو انٹرنیٹ پر ہی ایک اندرونی میٹنگ کی ویڈیو مل گئی جو چوہدری صاحب کے ایک قریبی پراپرٹی ڈیلر نے پوسٹ کی تھی۔

اس ویڈیو میں چوہدری صاحب کہہ رہے تھے کہ انہوں نے نقشہ پاس نہیں کروایا ہے کیوں کہ انہیں نہیں معلوم تھا کہ کس پیمائش کے کتنے پلاٹ فروخت ہوں گے۔

’کل میں نے آتے ہی اپنی پلاننگ ٹیم کو بلایا ہے کیونکہ ہم نے نقشہ پاس نہیں کرایا تھا۔ کیوں کہ نقشہ پاس ہو جاتا تو سائز بک نہیں کرسکتے تھے۔ میں نے اپنی ٹیم کو کہا کہ مجھے 30 ہزار پلاٹ چاہییں جو فوری ڈویلپ ہو سکیں۔‘

ایک دوسری ویڈیو میں چوہدری صاحب کہ رہے تھے کہ پراپرٹی ڈیلرز اب قسطیں جمع کروائیں تاکہ کام شروع کیا جاسکے۔ اسی ویڈیو میں چوہدری صاحب نے پراپرٹی ڈیلرز سے قسطیں جمع کروانے کا تقاضا کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ انہوں نے کمیشن کی مد میں چھ ارب روپے کے چیکس پر دستخط کر دیے ہیں جو پراپرٹی ڈیلرز کو چند روز میں دے  دیے جائیں گے۔

پانچ لاکھ 95 ہزار روپے ڈاؤن پیمنٹ پر اگر ڈیلرز کو چھ ارب روپے کا کمیشن دیا جا رہا ہے تو چوہدری صاحب نے کل کتنی رقم اکٹھی کی؟

ذیشان نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ مارکیٹ سے ایک محتاط اندازے کے مطابق 24 ارب روپے سے زائد کی رقم ایک ایسی سوسائٹی کے نام پر اکٹھے کیے گئے ہیں جس کی قانونی حیثیت ابھی واضح نہیں۔ اس سوسائٹی کے وجود کے بارے میں بھی آر ڈی اے سے منظوری کے بغیر سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پریشانی میں ذیشان آر ڈی اے پہنچ گئے۔

انہیں بتایا گیا کہ فیصل ٹاون ٹو منظور شدہ ہاوسنگ سکیم نہیں ہے۔ انہوں نے واویلا کیا کہ اگر سکیم منظور نہیں ہے تو کیسے اس نے ہزاروں لاکھوں پلاٹ بیچ دیئے؟ تو دفتر والوں نے انہیں ہی  قصوار وار ٹھہرایا۔

ایک افسر نے جواب دیا: ’آپ پڑھے لکھے اعلی تعلیم یافتہ ہیں لیکن آپ نے جاہلوں سے بدتر کام کیا ہے۔ آپ نے آر ڈی سے فیصل ٹاون کا سٹیٹس کنفرم کیے بغیر ہی انوسٹمنٹ کر دی۔ ہم اب کچھ نہیں کرسکتے۔‘ زچ ہو کر ذیشان واپس لوٹ آئے۔

اب ذیشان کو اندازہ ہوا کہ وہ ایک روایتی نوسربازی کا شکار ہوگئے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلرز کو چھ لاکھ روپے ڈاون پیمنٹ کے عوض دو لاکھ روپے کمیشن کا لالچ دیا تھا۔ نتیجتا انہوں نے فیصل ٹاون ٹو کو ایک نہایت ہی منافع بخش پراجیکٹ اور تین دن میں قیمت میں اضافے کا جھانسہ دے کر عوام کو گمراہ کیا۔

پراپرٹی ڈیلرز چوں کہ حکومت کے پاس رجسٹر نہیں اور اس حوالے کوئی قانون ہی موجود نہیں لہذا وہ قانون کی گرفت میں ہی نہیں آتے۔ نہ اکثریت کو کوئی ٹیکس ریکارڈ ہے۔ پلاٹ کا ریٹ تو اس وقت بڑھے گا جب سوسائٹی میں ترقیاتی کام شروع ہوگا، گھر بنیں گے۔ ذیشان کو اگلے دو تین سال منافع کی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔

چوں کہ سکیم کسی سرکاری ادارے سے رجسٹر ہی نہیں اس کا کوئی ٹیکس ریکارڈ نہیں۔ اس رقم سے کس کو کتنا حصہ گیا کوئی پتہ نہیں۔

اس سوسائٹی کا طریقہ کار بھی وہی ہے جو دوسری نجی ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا ہوتا ہے۔ ذیشان کو ایک ڈیلر نے بتایا کہ چوہدری صاحب نے ایک کرائے کے دفتر سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا اور فائلیں بیچ کر لوگوں کے پیسوں سے شہر سے دور چند ہزار روپے کنال زمین لی اور لاکھوں روپے مرلہ کے حساب سے ہزاروں کنال کی فائلیں بیچ دیں۔ وہ زمین خریدتے رہے اور آہستہ آہستہ ڈویلپ کرتے رہے۔

ان کے پراجیکٹ اگر فائدے میں بک رہے ہیں تو اس کے لیے کہ سی ڈی اے یا آر ڈی اے نے طویل عرصے سے کوئی رہائشی سیکٹر ہی لانچ نہیں کیا۔ ملک میں مکانات کی شدید قلت ہے۔

اسی مجبوری سے نجی ہاؤسنگ سوسائٹی والے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سالوں فائلیں بیچتے رہتے ہیں۔ اکژ پراجیکٹس سالوں گزرنے کے بعد بھی ابھی تک نامکمل ہیں۔ 2016 میں شروع ہونے والا فیصل ہلز آج بھی مکمل طور پر آباد نہیں ہوسکا ہے۔

ذیشان اس وقت شدید پریشان ہوگئے جب انہیں معلوم ہوا کہ چوہدری صاحب جنوری میں پہلی قسط کی ادائیگی کے لیے زور ڈال رہے تھے۔ جلد قسط جمع کروا دیجیے گا نہیں تو فائل منسوخ ہو جائے گی۔ وہ جھنجھلا اٹھے۔

جب ہاؤسنگ سوسائٹی رجسٹر ہی نہیں، زمین کا بھی پتہ نہیں تو ذیشان بولا کہ وہ قسط کس لیے جمع کرویں اور کہاں سے کروائیں ان کے پاس تو پیسے ہیں ہی نہیں۔

ان کی بات پر کان کسی نے کان نہ دھرا۔ ایف آئی اے اور پولیس میں بھی شنوائی نہ ہوئی۔

بعض صحافیوں نے بھی معذرت کرلی کہ چوہدری عبدالمجید کا میڈیا گروپ بھی ہے اور وہ ان کی مخالفت مول نہیں لے سکتے۔

میں ذیشان کی کہانی میں اس قدر غرق تھا کہ ان کو اپنا سوال دوبارہ دہرانا پڑا۔ ’میری مدد کریں میں بہت امید لے کے آپ کے پاس آیا ہوں۔‘

انہوں نے مجھے کافی ثبوت فراہم کر دیے لیکن میں شش و پنج کا شکار تھا کہ جب طاقتور ادارے ان کی مدد نہیں کرسکے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ میں وعدہ تو نہیں کرسکتا لیکن کوشش ضرور کروں گا۔ میں نے ذیشان کو کھوکھلی سی تسلی دی۔ ذیشان کے مہیا کردہ ثبوت اور دستاویزات کا بغور جائزہ لینے کے بعد میں نے ملک کے چند بڑے اشاعتی اداروں سے بات کی تو انہوں نے خبر شائع کرنے سے معذرت کر لی۔

ایک صاحب بولے: ’آج کل کے مندے میں فقط ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے اشتہار آ رہے ہیں، تم ہمیں کنگال کرنا چاہتے ہو۔‘

مجھے ذیشان کے مہیا کردہ ہر ثبوت کی کم از کم تین ذرائع سے تصدیق کرنا تھی۔ مجھے تمام متعلقہ سرکاری اداروں سے بھی موقف لینا تھا اور خبر کی تصدیق کے لیے چوہدری عبدالمجید سے بھی بات کرنا تھی کہ وہ الزامات کے دفاع میں کیا کہتے ہیں۔

مجھے چوہدری صاحب کے دست راست اور پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے عہدیدرا سردار طاہر سے بھی پوچھنا تھا جنہوں نے اس معملے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

آر ڈی اے کا موقف

میری پہلی منزل آر ڈی اے کا دفتر تھی۔ کئی روز فون پر کوشش کرنے کے بعد میں صبح 10 بجے ان کے دفاتر پہنچ گیا۔ ایک دوست نے مجھے متعلقہ افسر تک پہنچا دیا۔ عدالت نما ان کا وسیع کمرہ وکیلوں، ہاؤسنگ سوسائٹی مالکان سے بھرا ہوا تھا۔ اسلام آباد کے ایک دو مشہور صحافی بھی موجود تھے۔ انہیں وہاں دیکھ کر حیران ہو رہا تھا کہ معلوم ہوا وہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کے لیے آئے ہیں۔

’جی فرمائیے؟‘ کچھ دیر بعد افسر میری طرف متوجہ ہوئے۔

’سر صحافی ہوں۔ چوہدری عبدالمجید نے تین روز میں مارکیٹ سے فیصل ٹاون ٹو کے نام پر 24 ارب روپے اکٹھے کیے ہیں۔ معلوم کرنا چاہتا ہوں کیا فیصل ٹاون ٹو آر ڈی اے سے منظورشدہ ہے۔‘

’کیا ثبوت ہے آپ کے پاس کہ چوہدری عبالمجید نے مارکیٹ سے 24 ارب روپے اکٹھے کیے۔‘ وہ غصہ سے دھاڑے اور کمرے میں سکوت چھا گیا۔

’جی یہ ہیں ثبوت۔‘ میں نے فورا کاغذات ان کے آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

’آپ کیوں چوہدری صاحب کے پیچھے پڑ گئے ہیں وہ تو ڈیلور کرتے ہیں۔‘ انہوں نے کاغذات پر نظر ڈالے بغیر میرے اعتماد سے مرعوب ہوتے ہوئے نرم لہجے میں کہا۔

’کیا فیصل ٹاون ٹو آر ڈی سے منظور شدہ ہے؟‘ میں نے ان کی سنی کو ان سنی کرتے اپنے سوال کو دہرایا۔ کمرے میں موجود ہر شخص اب مجھے گھور رہا تھا۔ ’جی ہاں ۔ اور کوئی سوال؟‘

’اچھا اگر یہ منظور شدہ ہے تو مہربانی کر کے مجھے اس کا لے آوٹ پلان، نقشہ اور منظوری کے کاغذات دے دیں۔ ساتھ ہی اس منصوبے کی لوکیشن بھی بتا دیں کہ یہ کس موضع میں بنایا جا رہا ہے؟‘ میں نے سوال داغا۔ افسر کو اب اندازہ ہو چلا تھا کہ میں اپنا ہوم ورک کرکے آیا ہوں۔

’چوہدری صاحب نے ون ونڈو پر حال ہی میں ایک درخواست جمع کروائی ہے۔ فیصل ٹاون ٹو آر ڈی اے سے ابھی منظور نہیں ہوا ہے۔‘ وہ آہستہ سے بولے۔

میں نے پوچھا  کہ کیا کسی غیر منظورشدہ ہاوسنگ سکیم کا اشتہار دیا جاسکتا ہے۔ کیا اس کی ڈاون پیمنٹ لی جاسکتی ہے؟‘

وہ بولے: ’نہیں قانون کی رو سے یہ جرم ہے۔‘

پنجاب ڈویلپمنٹ اتھارٹیز پرایئویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی رولز 2021 کی رو سے آر ڈی اے کسی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کو منظوری نہیں دے سکتا جب تک کہ سوسائٹی زمین سے متعلق تمام کاغذات، لوکیشن، نقشہ جات، سڑکیں، بجلی، پانی اور دوسری سہولیات مہیا کرنے کے حوالے سے اتھارٹی کو تمام دستاویزی ثبوت نہ فراہم کر دیں۔

تو ایک درخواست جمع کروانے پر آپ نے چوہدری صاحب کو پیسے اکٹھا کرنے کی اجازت دے دی؟ میں نے سوال کیا۔

وہ مسکراتے ہو ئے بولے: ’یہ قانونی سقم ہے اور چوہدری صاحب نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ قانون میں نے نہیں پارلیمنٹ یا حکومت نے بنانا ہے۔ فراڈ کو روکنا پولیس، ایف آئی اے کا کام ہے، ان سے رابطہ کریں۔ ہم تو ان سوسائٹیوں کو رجسٹر کرتے ہیں جو قانونی تقاضے پورے کر دیتی ہیں۔ جو نہیں کرتیں وہ غیرقانونی ہیں۔ ہم ان کا نام اپنی ویب سائٹ پر ڈال دیتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹ دیکھ لیں موضع چاہان، باراکات، پنڈ نصراللہ اور نوغازی میں فیصل ٹاون کو چار ہزار سات سو 35 اعشاریہ 90 کنال کا این او سی جاری کیا گیا ہے۔ فیصل ٹاون فیز ٹو ابھی تک غیر منظورشدہ ہے۔‘ انہوں نے ویب سائٹ دکھاتے ہوئے کہا۔

اگر فیصل ٹاون غیر منظورشدہ ہے تو فیصل ٹاون ٹو کی ڈاؤن پیمنٹ لینے پر آپ نے کیا کارروائی کی؟ میں نے دوبارہ سوال کیا۔

’او بھائی ہمارا یہ کام نہیں۔ یہ ایف آئی اے کا کام ہے۔ سٹیٹ بینک سے پوچھیں۔ وہ غیر منظورشدہ ہاؤسنگ سوسائٹی کو اکاؤنٹ ہی کیوں کھولنے دیتی ہے؟‘

جڑواں شہروں میں اکثر نجی سوسائٹیوں کا یہی مسئلہ ہے۔ سیاست دان علیم خان کی پارک ویو سے لے کر کاروباری گروپ حبیب رفیق کی کیپیٹل سمارٹ سٹی سب پر مختلف نوعیت کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔

جب میں نے افسر کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو بولے کہ یہی اصل مسئلہ ہے بلکہ غیر منظورشدہ سے زیادہ مسئلہ منظورشدہ ہاؤسنگ سوسائٹیاں اتھارٹی کے لیے درد سر بنی ہیں۔

’یہ چند سو کنال کی منظوری لیتی ہیں اور ہزاروں کنال کی فائلیں بیچ دیتی ہیں۔ لیکن ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے اتھارٹی ان کے آگے بے بس ہے۔ اس کا واحد حل قانون سازی اور پھر اس پر عمل داری ہے۔ ہم نے تو یہ مسئلہ حل نہیں کرنا۔‘

پہلے انہوں نے تمام غیرقانونی ہاوسنگ سوسائٹیوں کی لسٹ فراہم کرنے کا کہا۔ ایف آئی اے، ایس ای سی پی اور سٹیٹ بینک کو لکھے گئے خطوط کی نقول بھی فراہم کرنے کی حامی بھری، لیکن پھر رش کی وجہ سے انہوں نے معذرت کرلی۔ ’ساری لسٹیں ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ویب سائٹ اپ ڈیٹ ہے ابھی کچھ ہی روز پہلے ہی ہم نے ایک سوسائٹی کی منظوری منسوخ کی ہے وہ بھی ویب سائٹ پر چڑھا دی ہے۔‘

میری اگلی منزل ایف آئی تھی۔ ایف آئی اے اہلکاروں نے بتایا کہ اسلام آباد کی حدود میں اگر کوئی غیر منظورشدہ ہاؤسنگ سوسائٹی لوگوں سے پیسے بٹورے تو اسلام آباد کی حد تک تو وہ کارروائی کرسکتے ہیں لیکن راولپنڈی ان کی حدود سے باہرہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کے کیسز نیب کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔ اگر بڑی تعداد میں متاثرین نیب کو درخواست دیں تو نیب کیس ٹیک اپ کرسکتا ہے۔

آر ڈے اے افسر نے ایف آئی اے کے کردار کا ذکر کیا تھا۔ بات سمجھنے کے لیے ایک شناسا افسر سے رابطہ کیا۔ ’ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہمارے دائرہ کار سے باہر ہیں‘، ان کا جواب تھا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ آر ڈی اے نے گمراہ کیا ہے۔ ’ان کے پاس اختیارات ہیں وہ ہاؤسنگ سوسائٹی سیل کرسکتے ہیں، جرمانہ کرسکتے ہیں اور ایف آئی آر درج کروا سکتے ہیں۔

’قانون کی رو سے ہم صرف اسی صورت میں کارروائی کرسکتے ہیں جب آر ڈی اے ہمیں لکھے۔ وہ ہمیں لکھتے ہیں کہ فلاں سوسائٹی غیرقانونی ہے تو ہم کارروائی کرتے ہیں۔‘ لیکن آر ڈی اے ایسا عموما  کئی وجوہات کی وجہ سے کرتی نہیں۔ کاروبار کی نگرانی کرنے والے ادارے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) سے بھی کچھ ایسا ہی جواب ملا۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ ایس ایس سی پی صرف کاروبار کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ ’ہاؤسنگ سوسائٹیاں ہمارے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ جو ادارہ منظوری دیتا ہے وہی اس کا ریگولیٹر بھی ہے۔‘

وہ بولے: ’راولپنڈی اسلام آباد میں آپ پھل کی ریڑھی لگا لیں سی ڈی اے، آر ڈی اے کا عملہ فورا پہنچ جائے گا۔ مالکان ہفتوں پورے پاکستان میں اپنی سوسائٹی کی مشہوری کرتے رہتے ہیں اور آر ڈی اے کو پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ اپنی نا اہلی دوسروں پر ڈال رہے ہیں۔‘

انہوں نے آر ڈی اے کا موقف مسترد کرتے ہوئے کہا کہ قانون کی عملداری کے لیے فوج نہیں درکار ہوتی۔ ’اگر آر ڈی اے ایک پریس ریلیز بھی شائع کر دے تو کافی ہوگا۔ کیا انہوں نے فیصل ٹاون ٹو کے حوالے سے کوئی بیان شائع کیا؟‘

چوہدری عبدالمجید کا موقف

چوہدری مجید کا موقف لینے کے لیے کئی بار فون کیا لیکن ہر بار ان کے پرسنل اسسٹنٹ نے یہی جواب دیا کہ ’میرا پیغام ان تک پہنچا دیا گیا ہے۔ اگر چوہدری صاحب مناسب سمجھیں گے تو جواب دے دیں گے۔‘

اس رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر ان کے جواب کے انتظار کی ہوئی لیکن جواب پھر بھی نہیں آیا۔

ایک نیوز ادارے نے فیصل ٹاؤن 2 کی آفیشل ویب سائٹ پر موجود ای میل info@faisaltownphase2.com.pk اور فیصل ٹاؤن کی پہلے فیز کی ویب سائٹ پر درج ای میل info@faisaltown.com.pk پر فیصل ٹاؤن کی انتظامیہ سے موقف لینے کے لیے انہیں چند سوالات پر مبنی خطوط دو دسمبر کو ارسال کیے اور انہیں جواب دینے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پراپرٹی ڈیلرز ایسوسی ایشن کے صدر سردار طاہر سے جب میں نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ انہوں نے چوہدری عبدالمجید سے مل کر مارکیٹ سے 24 ارب روپے اس سوسائٹی کے نام پر لیے ہیں جس کا وجود ہی نہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ ’ایسوسی ایشن کے انتخابات میں بے پناہ مصروف ہیں اس لیے اس معاملے پر بات نہیں کرسکتے۔‘

بعد میں کئی بار میں نے فون کیا لیکن سردار صاحب نے فون نہیں اٹھایا۔

پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹیاں عام آدمی کو نشانہ بناتی ہیں جو نقد ادائیگی کر کے پلاٹ خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ کسی طور چند لاکھ روپے جمع کرکے ڈاون پیمنٹ جمع کرواتا ہے۔ اسے نجی سوسائٹیاں ایک فائل تھما دیتی ہیں۔ جس میں نہ گلی کا پتہ ہوتا ہے اور نہ ہی پلاٹ نمبر۔ یہ کاغذ کا ٹکڑا لے کر عام آدمی جائے تو کہاں؟ عام آدمی کی تو ویسے ہی کہیں رسائی نہیں ہوتی اس لیے بات دب جاتی ہے۔

قومی اسمبلی وقفہ سوالات میں اسی ماہ وزیر داخلہ نے بتایا تھا کہ اسلام آباد میں 109 ہاؤسنگ سکیمز غیرقانونی ہیں۔

آر ڈی اے کے مطابق راولپنڈی کی حدود میں 43 سے زائد غیر قانونی سکیمز ہیں۔ ان سکیموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کئی ماہ سے جاری ہے لیکن یہ اب بھی کام کر رہی ہیں۔

آر ڈی اے نے گذشتہ برس چکری میں مویدا، بجٹ ایگرو فارمز اور عبداللہ سٹی جیسی پانچ سوسائٹیوں کے خلاف اخباری اطلاعات کے مطابق ایف آئی آر بھی کٹوائیں ہیں۔

اگر فیصل ٹاون ٹو کے نام پر مارکیٹ سے صرف ڈاون پیمنٹ کی مد میں اربوں روپے بٹور لیے گئے تو جڑواں شہروں میں 150 کے لگ بھگ غیر قانونی سکیمیں کتنا مال بنا چکی ہیں؟

دیر آید درست آید

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی (آر ڈی اے) کی درخواست پر گذشتہ دنوں بالآخر ٹیلی ویژن چینلز پر غیر قانونی اور غیر منظور شدہ نجی ہاؤسنگ سکیموں کے اشتہارات پر پابندی عائد کر دی ہے۔

آر ڈی اے کے ترجمان حافظ عرفان کے مطابق پیمرا نے تمام سیٹلائٹ ٹی وی چینلز، تمام ایف ایم ریڈیوز اور تمام ڈسٹری بیوشن نیٹ ورکس کو ہدایت کی ہے کہ وہ ضلع راولپنڈی میں واقع غیر منظور شدہ اور غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کی تشہیر نہ کریں۔

انہوں نے بتایا کہ ضلع کونسل راولپنڈی کی حدود میں 134 سکیمیں اور ہاؤسنگ پراجیکٹس غیر منظور شدہ اور غیر قانونی ہیں جبکہ 88 غیر قانونی اور غیر منظور شدہ سکیمیں آر ڈی اے کی حدود میں کام کر رہی ہیں۔

ترجمان نے مزید کہا اسی طرح تحصیل مری میں 57 سکیمیں اور ہاؤسنگ پراجیکٹس یا تو غیر منظور شدہ یا غیر قانونی ہیں جبکہ تحصیل ٹیکسلا میں 28 سکیمیں اور ہاؤسنگ پراجیکٹس غیر قانونی ہیں۔ تحصیل گوجر خان میں آٹھ ہاؤسنگ منصوبے غیر منظور شدہ اور غیر قانونی ہیں اور تحصیل کوٹلی ستیاں کی حدود میں تین ہاؤسنگ منصوبے غیر منظور شدہ اور غیر قانونی ہیں۔

اچھے اور جلد منافع کے چکر میں عام آدمی تو دھوکے میں آسکتا ہے لیکن حکومت کو اپنا کردار زیادہ واضح انداز میں ادا کرنا چاہیے۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eighteen − one =