اکتوبر 25, 2024

غمِ حسین میں مسلمان ہونے والا انگریز انسپکٹر

تحریر: ریاض سہیل

صوبہ سندھ کے ضلع حیدر آباد میں گذشتہ 52 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ کون تھے اور اُن کی کہانی کیا ہے۔

حیدرآباد کے چند عمر رسیدہ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ ایلی کاٹ سفید فام تھے اور وہ ہر سال محرم الحرام میں سیاہ کپڑے زیب تن کیے عزاداری میں پیش پیش نظر آتے تھے۔

بیلے ڈانس کے دلدادہ ایلی کاٹ اپنے ڈرائیور کی زبانی واقعہ کربلا سُن کر ایسے مسلمان ہوئے کہ انھوں نے گھر بار اور بیوی بچے سب کچھ چھوڑ دیا اور مرتے دم تک ’غم حسین‘ کو سینے سے لگائے رکھا۔

چارلی ایلی کاٹ جنھوں نے مسلمان ہونے کے بعد اپنا نام علی گوہر رکھا، ان کا جنم کہاں ہوا اس کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں تاہم انھیں ایلی کاٹ سے علی گوہر بنے 82 سال ہو چکے ہیں۔

والدہ بھی نذر نیاز کرتیں

حکومت سندھ کے مرتب کردہ انسائیکلوپیڈیا سندھیانہ کا دعویٰ ہے کہ ایلی کاٹ عرف علی گوہر کی والدہ لیڈی ڈفرن ہسپتال حیدرآباد میں میڈیکل سپرنٹینڈنٹ تھیں اور ان کے والد آرتھر سڈنی کاٹ حیدرآباد اور میرپورخاص میں کلیکٹر تھے۔

چارلی ایلی کاٹ کی والدہ حیدرآباد کے ہر ماتمی جلوس میں نذر و نیاز کرتی تھیں۔ ایلی کاٹ کی والدہ کے منشی محمد علی کی بیگم سے اچھے مراسم تھے۔ ان کی اولاد نہیں تھی تو ایک بار جب اشرف شاہ کے پڑ سے جلوس آرہا تھا تو سب کو دعا مانگتا ہوا دیکھ کر انھوں نے بھی دعا مانگی اور اسی سال ان کو اولاد نرینہ ہوئی۔

انسائکلوپیڈیا سندھیانہ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیڈی ڈفرن محرم میں ایلی کاٹ کو سیاہ کپڑے پہناتی تھیں۔ بعد میں ایلی کاٹ نے اسلام قبول کیا اور اپنا نام علی گوہر رکھا۔

وہ سندھ کے محکمہ ایکسائز میں انسپکٹر بھی رہے۔ وہ اپنا وقت قدم گاہ اور اشرف شاہ کے پڑ میں گزارتے تھے۔

وہ لندن بھی گئے جہاں والد نے ان کی شادی کرائی۔ ان کی ایک بیٹی اور ایک بیٹا بھی تھا۔

قیام پاکستان کے بعد انھوں نے واپس جانے سے انکار کیا اور یوں ماں بیٹا یہاں مقیم ہو گئے۔ ایلی کاٹ کی وفات 1971 میں ہوئی اور اشرف شاہ کے پڑ کا نام ایلی کاٹ کے نام سے مشہور ہوا۔

واضح رہے کہ پڑ سندھی میں اس علاقے کو کہتے ہیں جہاں علم لگایا جاتا ہے اور ذوالجناح کا جلوس نکالا جاتا ہے۔ قدیم حیدرآباد میں ہر علاقہ وہاں کے رہائشی افراد کے پیشے کے لحاظ سے آباد ہوا اور تالپور حکومت میں ہر جگہ پڑ اور علم بنائے گئے۔

حیدر آباد میں گذشتہ 54 سال سے محرم کی آٹھ تاریخ کو ایلی کاٹ کے نام سے بھی ایک ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے

ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی سے کہا وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں

ایلی کاٹ کے ڈرائیور کا نام عبدالغفور چانڈیو تھا اور ان سے ہی واقعہ کربلا اور حضرت علی کے حالات زندگی کے بارے میں سُن کر ایلی کاٹ کو بھی حسینی قافلے میں شامل ہونے کا شوق ہوا۔

عبدالغفور چانڈیو کے بیٹے غلام قادرچانڈیو نے سنہ 2004 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ایلی کاٹ نے اُن کے والد عبدالغفور سے کہا تھا کہ وہ بھی ماتمی جلوس نکالنا چاہتے ہیں لیکن عبدالغفور چانڈیو گریز کرتے رہے اور کہتے رہے کہ اس کے لیے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔

بقول غلام قادر، چارلی اپنے فیصلہ پر اٹل رہے۔ بالآخر عبدالغفور نے چارلی ایلی کاٹ کی سرپرستی میں ماتمی جلوس نکالنے کے لیے حامی بھر لی، جس پر چارلی کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔

حیدرآباد کے پکے قلعہ میں چانڈیوں کی امام بارگاہ سے پہلی بار ذوالجناح کا جلوس نکالنے کی تیاری کی گئی۔ یکم محرم الحرام کو جب یہ جلوس روانگی کے لیے تیار تھا تو عجیب اتفاق یہ ہوا کہ چارلی کی والدہ کی وفات ہو گئی۔

غلام قادر بتاتے ہیں کہ بابا عبدالغفور نے ایلی کاٹ کو یاد دلایا کہ انھیں پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ اس کام میں بڑی قربانی دینی پڑتی ہے جس سے ایلی کاٹ کا ایمان اور پختہ ہو گیا۔

ایلی کاٹ نے صبح کو والدہ کی حیدرآباد کے شمال میں واقع گورا قبرستان میں تدفین کی اور شام کو اپنے غم کو بھول کر اور سیاہ کپڑے پہن کر ننگے پاؤں ماتم میں شامل ہو گئے۔

غلام قادر جو ایلی کاٹ کے ساتھی رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ ایلی کاٹ نے اپنی انگریز بیوی کو بتایا کہ وہ ’مومن‘ ہونا چاہتے ہیں۔ اس لیے اُن کے سامنے دو راستے ہیں، پہلا یہ کہ وہ بھی مسلمان ہو جائیں اور دوسرا یہ کہ واپس انگلینڈ چلی جائیں اور اپنی زندگی گزاریں۔

اُن کی بیوی نے دوسرا راستہ اختیار کیا اور وہ بچوں سمیت انگلینڈ چلی گئیں، جہاں سے وہ کبھی بھی چارلی کے لیے لوٹ کر نہیں آئیں۔

چارلی اب علی گوہر بن چکے تھے۔ قیام پاکستان سے کچھ عرصہ قبل وہ اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر چلے گئے جہاں انھوں نے چھ ماہ تک ملنگوں والی زندگی گزاری۔ چھ ماہ بعد حیدرآباد لوٹ آئے اور بقیہ تمام زندگی اپنے ڈرائیور عبدالغفور کے پاس رہ کر گزار دی۔

17 اپریل 1971 کو چارلی ایلی کاٹ کی وفات ہوئی اور انھیں اُسی ماتمی گنبد میں دفن کر دیا گیا، جہاں وہ رہتے تھے۔

حیدرآباد میں ماتمی جلوسوں کی منزل قدم گاہ ہوتی ہے اور یکم محرم سے لے کرعاشورہ تک جلوس یہاں پر سلامی دیتے ہیں

حیدرآباد میں ماتمی جلوسوں کی تاریخ

کراچی سے قبل حیدرآباد سندھ کا دارالحکومت تھا۔ انگریزوں نے جب سندھ کو فتح کیا تو اس وقت سندھ پر تالپور خاندان کی حکومت تھی جو حیدرآباد، میرپور خاص اور خیرپور ریاستوں میں تقیسم تھی۔ تالپور شیعہ مسلک کے پیروکار تھے۔

حیدرآباد میں قدم گاہ مولا علی کی نام سے زیارت موجود ہے۔ تاریخی کتابوں کے مختلف حوالوں کے مطابق سندھ پر میر کرم علی خان کی حکومت کے دوران شہنشاہ ایران فتح علی شاہ قاچار نے حضرت علی کے قدموں کے نشانات والا پتھر بطور تحفہ بھیجا تھا۔

کلیات سید ثابت علی شاہ کے مصنف مرزا عباس علی بیگ لکھتے ہیں کہ بادشاہ نے سید ثابت علی شاہ کے ذریعے دیگر تحائف کے ساتھ یہ قدم بھیجے جس کو تبرک کے طور پر پکے قلعے میں رکھا گیا اور ان کی زیارت بنائی گئی۔

حیدرآباد میں ماتمی جلوسوں کی منزل یہ قدم گاہ ہوتی ہے یکم محرم سے لیکر عاشورہ تک جلوس یہاں پر سلامی دیتے ہیں یا یہاں پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔

محرم الحرام کے علاوہ بھی روزانہ یہاں عقیدت مند یہاں آتے ہیں۔ایلی کاٹ کا پڑ یہاں سے صرف نصف کلومیٹر دور ہے۔

 

بشکریہ بی بی سی اردو

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

One Response

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five × 1 =