جولائی 27, 2024

عملی مسلمانوں کے عملی قدم کا منتظر فلسطین

تحریر: رستم عباس

فلسطین کی موجودہ صورت حال پر لکھنے کا ارادہ تھا۔اور لکھنا چاہتا ہوں۔اور لکھنا بھی چاہیے۔لیکن میرا ضمیر مجھے جنجھوڑتا ہے کہ فلسطین کے بچے ٹنوں وزنی بموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہورہے ہیں اور تم قلم فرسائی کرکے اپنا نام بنانا چاہتے ہو۔اپنا فرض نبھانا چاہیے ہو۔ملت مسلمہ کی یہ حالت بہت عظیم اور تاریخی جرائم کی بنیاد ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ایک ہلکے سے بیان اور ایک مذمت سے خود کو بری کر لیتے ہیں۔جو رویہ عام عوام کا ہے وہ ہی علماء کا ہے اور بلکل وہی رویہ مسلمان حکمرانوں کا بھی ہے۔فلسطین 1948سے جل رہا ہے۔1948سے آج تک 75سال سے کم ازکم 30لاکھ فلسطینی مہاجر کیمپوں میں دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔اور اس وقت جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں مزید 10لاکھ غزہ کے رہائشی گھربار چھوڑ کر محفوظ پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔

لیکن افسوس ہے کہ 52 مسلمان ملک اور 2ارب مسلمان خاموش تماشائی ہیں۔ایک بہت انقلابی اور فرض شناس مسلمان احتجاج میں شرکت کرتا ہے تو وہ اس شرکت کو بہت عظیم اقدام سمجھتا ہے کہ میں نے حق ادا کر دیا اب میرا کوئی فرض وظیفہ بچتا ہی نہیں۔اسی طرح علماء ہیں ایک شہر میں ریلی پھر دوسرے شہر میں ریلی پھر تیسرے میں پھر فلسطین کانفرنس اور آخر میں نتیجہ اور حاصل زیرو۔

ٹھیک ہے دھرنا اور ریلی ہونی چاہیے لیکن کس مقصد کے لیے۔؟؟؟

کیا ریلی برائے ریلی کانفرنس برائے چائے بسکٹ پرجوش تقریریں اور نتیجہ کیا نکالا ہے؟؟؟

کیوں مسلمان ممالک کے علماء اکھٹے نہیں ہوتے اور oicکے مدمقابل ایک تنظیم بنائیں جو کم از کم فلسطین کی نجات کے لیے حرکت کرے۔

کیوں ہمارے علماء فرقہ واریت کو بین نہیں کرتے ایک عالمی کانفرنس بلائیں اور سنی شیعہ جھگڑا ختم کر دیں بین کر دیں کہ جو سنی جو شیعہ تفرقہ پھیلائے گا۔اس کو سخت سزا دیں گے۔

آپ دیکھ لیں امریکہ یورپی یونین نے مل کر اکٹھے ہوکر عہد کیا ہے کہ وہ اسرائیل غاصب صہیونی ریاست کی ہر قیمت پر حفاظت کریں گے۔دوسری طرف oic کا رسمی اجلاس ابھی تک نہیں منعقد ہو سکا۔یہ ننگ عار یہ ذلت اگر جاری رہی تو آپ خوش نہ ہوں کہ غزہ اور اسرائیل ہم سے دور ہے ہمیں کیا ہم اپنی زندگی آرام سے جییں۔اگر آپ اب اسرائیل کے خلاف حکمت عملی نہیں بنائیں گے بیدار نہیں ہوتے تو آپ کے پڑوس میں ایک اسرائیل ہے جس کا حکمران دوسرا نیتن یاہو ہے۔وہ آپ کو نہیں چھوڑے گا۔

بعض نادان لوگ یہ کہتے ہیں پاکستان کا کیا بگاڑا ہے اسرائیل نے ہم مان لیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ان سے کہنا چاہیے کہ یزید نے آپ کا کیا بگاڑا ہے 1400سال پہلے ایک حکمران گزرا ہے جو مرمرا گیا لیکن سب کہتے ہیں وہ ظالم قاتل اور آل رسول کا جانی دشمن ہے۔اگر یزید قابل نفرت ہے تو اسی دلیل سے اسرائیل قابل نفرت ہے۔جس طرح شہداء کربلا مظلوم ہیں اور قابل ستائش و قابل تقلید ہیں اسی طرح حماس کے مجاھد اور غزہ کے مکین قابل ستائش و قابل تقلید ہیں۔جس طرح امام حسین علیہ السّلام کے قیام کے وقت کوفی خاموش ہوگئے ڈر گئے گھروں میں دبکے بیٹھے رہے اور لعنت ملامت کے مستحق ہوئے۔اسی طرح اگر آج ہم غزہ کے مظلوموں کے لیے اپنا فرض نہیں نبھاتے اور موثر کردار ادا نہیں کرتے تو ہم بھی ان کوفیوں شامیوں کی طرح ہیں جنہوں نے امام حسین علیہ السّلام کا ساتھ چھوڑ دیا اور امام مع کنبے کے بےدردی سے شہید کر دیے گئے۔

ریلی اور احتجاج سے آگے بھی بڑھنا ہوگا مذمت سے مزاحمت کی طرف آنا ہوگا۔اپنے ملک میں اللہ کے نمایندے کی حکومت کے لیے جدجہد کرنا ہوگی نظام شیطان سے نظام اسلام کی طرف آنا ہوگا۔اور عملی قدم اٹھانا چاہیے۔ آپ عام عوام کو آگاہی اور شعور دیں فلسطین کی داستانیں جدوجہد کو عوام میں آشکار کریں۔

اس کے لیے ایک ڈاکومنٹری فلم جس کا عنوان ہے

“فلسطینی جدوجہد کی 100سالہ داستان”

یہ مساجد میں امام بارگاہوں میں لوگوں کو دکھائیں۔فلسطین کے مسلے کو عوام میں اجاگر کریں۔

بچوں اور جوانوں کو باشعور کریں ان کو بتائیں کہ امریکہ اسرائیل اور یورپی یونین مسلمانوں کی دشمن ہے۔یہ بتائیں کہ عرب حکمران خیانتکار ہیں۔

جوانوں بچوں کو بتائیں کہ اسلام کا ہیرو اسلام کا قائد سید علی خامنہ ائ ہے انکی محبت ایمان کی نشانی ہے۔اود انکا بغض نفاق اور کفر کی نشانی ہے ۔

ورنہ ہمارے جلسے جلوس بھی ہوتے رہیں گے اور فلسطین کے بچے بھی مرتے رہیں گے ۔

اللّہ لعنت کرے اس گروہ پر جو ظلم کرے اور اللہ لعنت کرے اس گروہ پر جو ظلم پر خاموش ہو اور جو اس ظلم پر راضی ہو۔

 

 

 

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

14 + 18 =