جولائی 22, 2024

علی اکبر ابن الحسین اپنی جوانی دے کر کر اسلام کو جوان کر گئے

تحریر: کوثر عباس قمی

ہم نے گذشتہ مضمون میں لکھا کہ کربلا میں موجود مائیں وہ عظیم مائیں تھیں جن میں سے ہرایک کی خواہش تھی کہ دین مبین اسلام کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں پہلے اس کے بیٹے کا خون شامل ہو

اور یہ سعادت حضرت لیلی’ کے حصے میں آئی کہ بنی ہاشم کی پہلی قربانی کے لیئے حضرت علی اکبر کا انتخاب ہوا

کہتے ہیں حضرت ہاجرہ نے حضرت اسماعیل کی گردن پر چھری کا نشان دیکھا (جو خدا کے حکم سے حضرت جبرائیل نے پلٹا دی تھی) تو یہ سوچ کر کہ اگر وہ چھری سیدھی رہتی اور چل جاتی تو؟ تین دن بعد انتقال کر گئیں

مگر کمال صبر اور حوصلہ تھا اکبر کی ماں لیلی’ کا

کیوں؟

اس لیے کہ حضرت اسماعیل کی قربانی تھیوری تھی آج اس کا پریکٹیکل ہے

اصل “فدیہ” تو آج دیا جانا ہے

تبھی تو حسین کی قربانی “ذبح عظیم” کہلائے گی

دنیا نے صبر ابراہیم و اسماعیل دیکھا مگر تب حضرت اسماعیل کے ہاتھ اور پاوں بندھے تھے

اور حضرت ابراہیم کی آنکھ پہ پٹی تھی

مگر جب حسین جیسے صابر نے علی اکبر کے سینے سے نیزے کی انی نکالنی ہے تو نہ فخر اسماعیل کے ہاتھ اور پاوں بندھے ہوں گے اور نہ حسین کی آنکھوں پہ پٹی!

زیارت ناحیہ میں جناب علی اکبر علیہ السلام کی زیارت کا ایک جملہ ہے:

السَّلامُ عَلَيْكَ يا اوَّلَ قَتيلٍ مِنْ نَسْلِ خَيْرِ سَليلٍ مِنْ سُلالَةِ ابْراهيمِ الْخَليلِ عليه السلام

سلام ہو آپ پر اے شہید اول، اولاد ابراہیم کی بہترین ذریت میں سے،

حسین ع نے سب سے پہلے حضرت علی اکبر کا انتخاب کیوں کیا؟

وجہ جان کے آپ کی روح بھی کانپ جائے گی حسین ع کا صبر ، ہمت اور حوصلہ جان کے

پہلی وجہ

قرآن کہتا ہے تم اس وقت تک خوبی اور اچھائی نہیں پاسکتے جب تک کہ اپنی محبوب ترین چیز اللہ کی راہ میں نہ دو

کسی کو کیا معلوم کہ اکبر ، حسین و زینب اور لیلی’ کو کتنا پیارا تھا

دوسری وجہ

حسین ابن علی ظاہری شکل و شمائل اور باطنی سیرت کے لحاظ سے رسول اللہ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اسی لئے آپ کو شبیہ پیغمبر (ص) بھی کہا جاتا تھا۔ اور امام حسین جب بھی پیغمبر اکرمؐ کے دیدار کے مشتاق ہوتے تو علی اکبر کے چہرے کی طرف نظر کرتے تھے

آپ نے اسی مقصد کے لیے تو اکبر کو خدا سے مانگا تھا

آپ نے اس لیے بھی سب سے پہلے علی اکبر کو میدان کارزار میں بھیجا کہ ہو سکتا ہے یہ شقی، پیغمبر ص کی شباھت کے سبب ہمارے قتل سے ہاتھ اٹھا لیں

علی اکبر علیہ السلام کربلا کی تحریک میں اپنے بابا کے قدم بہ قدم رہے۔ مقام قصر بنی مقاتل سے امام حسین علیہ السلام نے رات کے عالم میں حرکت کی۔ گھوڑے پر تھوڑی دیر کے لیے آپ کی آنکھ لگ گئی تھوڑی دیر کے بعد آنکھ کھلی تو زبان پر کلمہ استرجاع [انا للہ و انا الیہ راجعون] جاری تھا۔جناب علی اکبر علیہ السلام نے اس کا سبب پوچھا تو امام علیہ السلام نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی سوار یہ کہہ رہا تھا: یہ کاروان موت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ جناب علی اکبر نے پوچھا: بابا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ فرمایا: کیوں نہیں بیٹا۔ کہا:جب ہم حق پر ہیں تو راہ خدا میں مرنے سے کوئی خوف نہیں

علی‌ اکبر نے عاشورا کے دن بنی‌ ہاشم کے جوانوں میں سب سے پہلے آکر امام حسین (ع) سے میدان میں جانے کی اجازت مانگی۔ اجازت ملنے کے بعد جب علی اکبر میدان کی طرف جا رہے تھے تو اس موقع پر امام حسین (ع) نے فرمایا:

اَللهمَّ اشْهَدْ عَلَی هؤُلاءِ القوم، فَقَدْ بَرَزَ اِلَیهِمْ اَشْبَهُ النّاسِ بِرَسولِک مُحمّد خَلْقاً وَ خُلْقاً و مَنْطِقاً

پروردگارا! میں تجھے اس قوم پر گواہ بنا رہا ہوں ان کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جا رہا ہے جو تمام انسانوں میں ظاہری شکل و شمائل اور باطنی اخلاقی صفات میں تیرے رسول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے۔

نیز فرمایا:

وَ کنّا اِذا اشْتَقْنا اِلی رُؤیةِ نَبِیک نَظَرْنا اِلیهِ

جب بھی ہم تیرے رسول کے دیدار کے مشتاق ہوتے تھے تو ہم علی کی طرف نگاہ کرتے تھے۔

امام کے فرمان کے مطابق شہزادہ حبیب خدا سے تین قسم کی شباہتیں رکھتے تھے۔ خلقی، خُلقی، منطقی

1- شباہت خلقی سے مراد قد و قامت اور صورتاً مشابہ ہونا ہے۔ جناب علی اکبر علیہ السلام قد و قامت اور شکل و صورت میں رسولِ خدا کے ساتھ شباہت رکھتے تھے۔ معروف ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام اور شہزادہ علی اکبر علیہ السلام جب مدینے کی گلیوں میں نکلتے تھے تو لوگ فقط ان کے دیدار کی خاطر جمع ہو جاتے تھے۔ جناب علی اکبر اس قدر خوبرو تھے کہ ان کو دیکھ کر زمانے کو رسول خدا یاد آ جاتے تھے۔

⁦جناب علی اکبر علیہ السلام کے زمانے میں ایک عرب شخص حبیب خدا کی زیارت کا بہت مشتاق تھا۔ اسی اشتیاق میں گریہ کناں رہتا تھا۔

اسے بتلایا گیا کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اگرچہ رسولِ خدا اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں لیکن شہزادہ حسینی جناب علی اکبر علیہ السلام ہوبہو شکل و صورت میں پیغمبر لگتے ہیں۔ جاؤ جا کر مدینہ میں شہزادے کی زیارت کر لو، رسولِ خدا کی زیارت ہو جائے گی۔

وہ عرب شخص امام علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، ماجرا عرض کیا۔ مولا امام حسین علیہ السلام نے شہزادے کو آواز دی جناب علی اکبر تشریف لائے، جب بابا کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو اس عرب شخص نے جناب علی اکبر علیہ السلام کو دیکھا تو اسے ایسا محسوس کیا کہ میں رسول معظم کی زیارت کر رہا ہوں اور تاب نہ لاتے ہوئے وہ عرب بے ہوش ہو گیا۔

2- شباہت خُلقی سے مراد یہ کہ کسی سے اخلاق میں مشابہ ہونا۔ جناب علی اکبر علیہ السلام کی نسبت ایک معصوم امام کی زبانی خلق عظیم کے مالک سے دی جا رہی ہے اور رسول معظم کے اخلاق کی اوج کی تصدیق ذات کردگار کے کلام سے ہوتی ہے۔آپ بے شک عظیم اخلاق کی بلند ترین منزل پر فائز ہیں،

سورہ قلم آیت 4

⁦ ⁩اسی خلق وخو کی ہوبہو عکاسی آپ کو جناب علی اکبر علیہ السلام کے اخلاق میں ملے گی۔ اس عظیم اخلاق کی جھلک شہزادے میں اس قدر نمایاں تھی کہ شہزادے کے سلام کرنے سے لوگوں کو پیغمبر کا سلام کرنا یاد آ جاتا تھا۔ غرباء و فقراء و مساکین کے ساتھ حسن سلوک سے سیرت نبوی کی یادیں تازہ ہو جاتی تھیں۔ کتب تاریخ میں موجود ہے کہ ہمشکل پیغمبر شہزادہ علی اکبر علیہ السلام نے مدینہ میں غریبوں اور مسکینوں کے لیے ایک بہت بڑا مہمان خانہ بنا رکھا تھا جس میں ہر روز و شب کھانے کھلانے کا انتظام کیا کرتے تھے اور تمام لوگ شہزادہ کرم کے دستر خوان سے استفادہ کیا کرتے تھے۔

⁦حضرت امام حسین علیہ السلام نے اس وجود نازنین کو وداع کے وقت بارگاہ احدیت میں راز و نیاز اور اور مناجات میں اس انداز سے پیش کیں کہ اے پروردگار ! تیرے حبیب کا سا اخلاق رکھنے والا یہ جوان تیرے دین کی حفاظت کے لیے اس بدبخت قوم کے سامنے بھیج رہا ہوں لیکن اس صورت و سیرت پیغمبر کے آئینہ دار شہزادے کو دیکھ کر بھی ان کی قساوت و شقاوت میں کمی نہیں آ رہی۔

3- شباہت منطقی سے مراد گفتار میں کسی کے مشابہ ہونا۔ لسانِ عصمت میں نطق علی اکبر علیہ السلام کو نطق رسول خدا سے تعبیر فرمایا گیا اور قرآن کریم منطق نبوی کے بارے میں یوں گویا ہے:

وما ینطق عن الھویٰ ان ھو الا وحی یوحیٰ

یعنی رسول خدا ہوا و ہوس سے کوئی کلام نہیں کرتے ان کا کلام تو صرف وحی الہٰی ہوتا ہے،

⁦امام حسین علیہ السلام کو جب بھی اپنے نانا کی آواز سننے کا شوق ہوتا آ پ جناب علی اکبر علیہ السلام سے کہتے کہ بیٹا اذان و اقامت کہو اور پھر راز و نیاز اور عبادات و مناجات میں مشغول ہو جاتے اسی وجہ سے 10 محرم الحرام کی صبح کو بھی جناب علی اکبر علیہ السلام سے اذان دلوائی گئی تا کہ لہجہ رسول سن کر شاید ان شقی لوگوں کے دلوں پہ اثر پڑے لیکن۔۔۔۔!!!

⁦کردار و رفتار و گفتار میں جناب علی اکبر علیہ السلام رسول معظم کے اتنے مشابہ تھے کہ ان کو دیکھ کر لوگ رسول اکرم کو یاد کرتے تھے۔

⁦جناب علی اکبر کا میدان میں جانا امام حسین علیہ السلام اور اہل حرم کے لیے بہت سخت تھا لیکن آپ کے جذبہ ایثار اور راہ اسلام میں فداکاری کا مظاہرہ میدان میں جائے بغیر نہیں ہو سکتا تھا۔ جب جناب علی اکبر میدان کارزار کی طرف جا رہے تھے تو امام علیہ السلام مایوسی کی نگاہ سے آپ کو دیکھ رہے تھے اور آپ کے رخسار مبارک پر آنسوں کا سیلاب جاری تھا۔ اور فرمایا:بارالہا ! تو گواہ رہنا کہ میں نے ان لوگوں کی طرف اس جوان کو بھیجا ہے جو صورت میں، سیرت میں، رفتار میں، گفتار میں تیرے رسول کا شبیہ ہے ہم جب بھی تیرے پیغمبر کی زیارت کے مشتاق ہوتے تھے تو اس کے چہرے کا دیدار کیا کرتے تھے۔

⁦ ⁩ایک روایت میں آیا ہے کہ جب امام حسین علیہ السلام نے اس قوم کو بددعا کی اور فرمایا: پروردگارا زمین کی برکات ان سے چھین لے اور ان کی چند روزہ زندگی میں ان کے درمیان تفرقہ پیدا کر دے اور ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کی جان پر ڈال دے۔ اور ان حکمرانوں کو ان سے راضی نہ کر۔ اس لیے کہ اس گروہ نے ہمیں دعوت دی کہ ہماری نصرت کریں لیکن ہمارے مقابلہ میں جنگ کے لیے کھڑے ہو گئے ہیں۔اس کے بعد امام علیہ السلام نے عمر سعد کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اے ابن سعد خدا تمہاری رشتہ داری کو ختم کر دے۔ اور تمہارے کام میں کامیابی نہ ہو اور ایسے کو تمہارے اوپر مسلط کرے جو بستر پر تمہارا سر کاٹ دے۔ جس طریقے سے تم نے ہمارے ساتھ رشتہ کو کاٹا ہے۔ اور ہمارے رسول خدا [ص] کے ساتھ رشتہ کی رعایت نہیں کی۔ اس کے بعد خوبصورت آواز میں اس آیت کی تلاوت فرمائی:

إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحاً وَآلَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ* ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

“بیشک اللہ نے آدم، نوح، آل ابراہیم، اور آل عمران کو تمام عالمین پر منتخب کیا ہے۔ اس حال میں کہ یہ ایسی ذریت ہے جو بعض کی نسل میں سے بعض ہیں۔ اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے۔”

جناب علی اکبر علیہ السلام نے اپنے بابا سے اجازت طلب کی کہ اہل حرم کو الوداع کریں اور میدان کی طرف روانہ ہو جائیں۔ مولا نے اجازت دی اہل حرم نے کیسے علی اکبر کو موت کے لیے الوداع کیا یوگا

باپ نے ایک کڑیل جوان کو مقتل میں جانے کے لیے اور ماؤں بہنوں نے کیسے رخصت کیا ہو گا؟

جناب زینب نے اٹھارہ سال جسے اپنی آغوش میں پالا اسے کیسے رخصت کیا ہو گا۔ جناب لیلی نے بیٹے کی رخصتی کے وقت کیسے اسے باہوں میں لیا ہو گا اور کیسے بین کیے ہوں گے۔

بہن سکینہ نے بھائی کو قتلگاہ بھیجتے ہوئے کیسے الوداع کیا ہو گا؟

یہ ایسا منظر ہے جسے الفاظ کے قالب میں بند نہیں کیا جا سکتا ہر باپ ماں اور بہن اس کا بخوبی تصور کر سکتے ہیں اور اپنے احساسات کے دائرے میں اس کی منظر کشی کر سکتے ہیں۔

⁦آخر کار جناب علی اکبر علیہ السلام خیموں سے رخصت ہوئے اور میدان کارزار میں روانہ ہوئے اس حال میں کہ یہ رجز پڑھ رہے تھے:

انَا عَلىُ بْنُ الحُسَيْنِ بْنِ عَلى‏ نَحْنُ وَبِيْتُ اللَّهِ اوْلى بالنَّبِى‏ اطْعَنُكُمْ بالرُّمْحِ حَتَّى يَنْثَنى‏ اضْرِبُكُمْ بالسَّيْفِ احْمى‏ عَنْ ابى‏ ضَرْبَ غُلامٍ هاشِمِىٍّ عَرَبى‏ وَاللَّهِ لا يَحْكُمُ فينَا ابْنُ الدَّعى‏

میں علی، حسین بن علی کا بیٹا ہوں خدا کی قسم ہم پیغمبر اسلام کے سب سے زیادہ نزدیک ہیں۔

⁦اس قدر نیزے سے تمہارے اوپر وار کروں گا کہ ٹیڑھا ہو جائے اور اس قدر تلوار سے تمہاری گردنیں ماروں گا کہ کند ہو جائے تا کہ اپنے بابا حجت خدا کا دفاع کر سکوں۔

ایسی تلوار چلاوں گا جیسی بنی ہاشم اور عرب کا جوان چلاتا ہے۔ خدا کی قسم اے ناپاک کے بیٹے تم ہم پر حکومت نہیں کر سکتے۔آپ نے اپنے شجاعانہ حملوں کے ساتھ دشمن کی صفوں کو چیر دیا اور ان کی چیخوں کو بلند کر دیا۔

⁦نقل ہوا ہے کہ جناب علی اکبر نے سب سے پہلے حملہ میں ایک سو بیس دشمنوں کو ڈھیر کر دیا۔ اس کے بعد اس حال میں کہ زخموں سے چھلنی تھے اپنے بابا کے پاس واپس آئے اور کہا: اے بابا پیاس ہلاک کیے جا رہی ہے اور اسلحہ کی سنگینی مجھے زحمت میں ڈالے ہے کیا پانی کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے؟ تا کہ دشمن کے ساتھ مقابلہ کے لیے کچھ طاقت حاصل ہو جائے۔

⁦امام علیہ السلام نے گریہ کیا اور فرمایا: بیٹا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ، علی علیہ السلام اور تمہارے بابا پر بہت سخت ہے کہ آپ پکاریں اور ہم جواب نہ دے سکیں۔ آپ مدد چاہیں اور ہم مدد نہ کر سکیں۔ بیٹا اپنی زبان کو میری زبان میں دے دو، کہا: بابا اس میں مجھ سے زیادہ کانٹے پڑے ہوئے ہیں، فرمایا: یہ انگوٹھی لے لو اور اسے اپنے منہ میں رکھ لو اور دشمن کی طرف واپس چلے جاو ۔ انشاء اللہ جلدی ہی آپ کے جد امجد جام کوثر سے سیراب کریں گے کہ جس کے بعد کبھی پیاسے نہیں ہو گے۔

⁦جناب علی اکبر میدان کی طرف پلٹ گئے اور پھر رجز پڑھا جس کا مفہوم یہ ہے: جنگ کے حقائق آشکارا ہو گئے اس کے بعد سچے شاہد اور گواہ ظاہر ہوئے اس خدا کی قسم جو عرش کا پیدا کرنے والا ہے میں تمہارے لشکر سے دور نہیں ہوں گا جب تک کہ تلواریں غلاف میں نہ چلی جائیں۔

⁦علی اکبر سپاہ یزید پر حملہ آور ہوئے اور بہت سارے یزیدی سپاہیوں کو واصل نار کیا۔ رفتہ رفتہ زخموں کی تعداد جسم مبارک پر بڑھتی گئی اور ساتھ ساتھ پیاس میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ علی اکبر بے تاب ہورہے تھے۔ اسی حال میں ایک شقی نے سراقدس پر وار کیا جس کی وجہ سے علی اکبر کی آنکھوں کے سامنے خون کا پردہ حائل ہوا، علی اکبر گھوڑے کی پیٹھ پر نہ سنبھل سکے۔ گھوڑے کی گردن پر باہیں ڈالی تاکہ زمین پر نہ گریں مگر گھوڑا خیام کی علی اکبر کو لے جانے کے بجائے دشمنوں کے ازدحام اور خنجر وشمشیروں کے واروں کے بیچ علی اکبر کو لے گیا؛ چنانچہ یزیدی لشکریوں نے گھوڑے کے گرد گھیرا ڈالا اور ہر کوئی دستیاب ہتھیاروں سے شبیہ رسول اللہ (ص) کے جسم مطہر پر وار کرنے لگا۔ بقول راوی «فقطعوہ اربا اربا» ظالموں نے ان کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کردئے۔۔۔

اکبر کی صدائے الوداع امام کے کانوں میں گونجی: ’’يا ابتاہ عليك مني السلام ھذا جدی رسول اللہ ــ بابا جان، خدا حافظ میرا آخری سلام قبول کیجیے، یہ ہیں میرے جد رسول اللہ (ص) جو میرے سرہانے بیٹھے ہیں اور پانی کا بھرا جام مجھے پلارہے ہیں‘‘۔۔۔

امام (ع) سرعت کے ساتھ اپنے نوجوان بیٹے کی لاش پر پہنچے۔ ’’ووضع خدہ علی خدہ‘‘ آپنے چہرہ کو بیٹے کے چہرے پر رکھا اور فرمایا: “علی الدنيا بعدك العفا ــ تیرے جانے کے بعد اس دنیا پر اف اور افسوس ہے!!”…

اس کے بعد ــ حضرت امام صادق علیہ السلام سے منقولہ زیارت نامے کے مطابق … امام (ع) نے بیٹے کے خون میں سے ایک چلو خون بھرا اور اسے آسمان کی طرف اچھالا اور عجب یہ کہ خون کا ایک قطرہ بھی زمین پر واپس نہ آیا…

حضرت زينب (س) نے جب یہ منظر دیکھا تو تیزی سے خیام سے باہر آئیں اور فریاد کرکے فرمایا: “يا اخیاہ و يابن اخاہ ـ اے بیٹے اور اے میرے بھتیجے” اور اکبر کے جسم بےجان پر گرگئیں۔

امام نے زینب کو سنبھالا اور خیموں کی طرف واپس لوٹایا اور جوانوں کو آواز دی: ’’اپنے بھائے کی لاش اٹھاؤ اور خیموں میں پہنچا دو” ۔۔۔

ہاں! امام (ع) تمام شہداء کو خود اٹھا کر خیموں میں لاتے رہے تھے مگر دو شہیدوں کو نہ لاسکے جن کی شہادت نے آپ (ع) کی کمر توڑدی تھی؛ بیٹا علي اكبر(س) ؛ اور بھائی ابوالفضل العباس (س)۔۔۔

الا لعنة الله علی القوم الظالمین – وسیعلم الذین ظلموا ایّ منقلب ینقلبون۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

eleven + eleven =