جولائی 27, 2024

عجلت میں قانون سازیاں 

تحریر: سید اعجاز اصغر 

1988ء میں جنیوا معاہدہ پر دستخط ہونے کے بعد روسی افواج کا افغانستان سے انخلاء یقینی ہوگیا، انخلاء کے بعد افغانستان میں امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے اقدامات زیر غور آئے، اس نیک عمل کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اس وقت کے صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے پاکستان کے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، جن میں سے بلوچستان کے میر غوث بخش، مولانا شاہ احمد نورانی، نواب زادہ نصراللہ خان اور مولانا فضل الرحمان سرفہرست تھے، افغانی صدر باخوبی جانتے تھے کہ روسی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اور افغانستان مزید مشکلات سے دوچار ہو جائیں گے، لہٰذا پاکستان امن و امان کے قیام کے لئے نمایاں کردار ادا کر سکتا ہے، بقول ڈاکٹر نجیب اللہ کہ افغانستان کا انقلاب کوئی مثالی انقلاب نہیں ہے جس کی دوسرے ممالک تقلید کرسکیں، یہ انقلاب بڑا پرپیچ، مشکل اور ٹیڑھی نوعیت کا ہے، ڈاکٹر نجیب اللہ نے اعتراف کیا کہ افغانستان ایک چھوٹا سا پسماندہ ملک ہے، اس میں مغربی تہذیب کے دلدادہ اور کٹر مسلمان بھی ہیں، شیعہ، سنی اور اسماعیلی بھی ہیں، کم بیش 20 قومیں اور بےشمار قومی گروہ پر مشتمل ہیں، افغانستان بہت سی انواع کا ایک جھنڈ ہے، لیکن ہم سب ان سب اقسام کے باوجود محض افغانی ہیں، یہ ہمارے پاکستان لئے بھی ایک بہت بڑی نصیحت ہے،

سابق افغانی صدر ڈاکٹر نجیب اللہ اس وقت کے پاکستانی سیاسی و مذہبی اسٹیک ہولڈرز کا دلی طور پر معترف تھا، وہ سمجھتا تھا کہ پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز حقیقت پسندانہ سوچ کے مالک ہیں، اس نے کہا کہ افغان قوم نے بےشمار غلطیاں کی ہیں کیونکہ وہ کچھ زیادہ ہی عجلت میں تھے، وہ لوگوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے لگے تھے، لوگوں نے انہیں لعن و طعن کیا، یعنی عجلت میں کیا جانے والا کام پائیدار اور قابل عمل نہیں ہوا کرتا،

ڈاکٹر نجیب اللہ نے کہا کہ کتابوں میں لکھا ہے کہ تھیوری ایک چیز ہے، اور عملی زندگی تھیوری سے بہتر ہے، تھیوری پڑھنے کے بعد عملی زندگی کے ذریعے سے انقلاب لانا آسان ہے، لیکن اسے استقامت بخشنا بہت دشوار کام ہے، ڈاکٹر نجیب اللہ نے کہا کہ ہم نے یہ سبق بہت مشکل سے سیکھا ہے، اس سبق کو مولانا عبد الاکبر چترالی کو بھی سیکھنا ہوگا،

ڈاکٹر نجیب اللہ بلوچستان کے میر غوث بخش مرحوم جو 11اگست1989ء کو کینسر کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے بعد وفات پا گئے کی سیاسی سرگرمیوں سے بہت معترف اور متاثر تھا، کیونکہ میر غوث بخش مرحوم سامراجیت، جاگیر دارانہ نظام، فرقہ پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کے سخت خلاف تھا، ان مذکورہ جرائم کو ختم کرنے کے لئے اپنی جدوجہد کو جاری رکھا مگر سامراجی اور استعماری قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ کر سکا، کاش کہ آج ہم سب اس ماضی کے حقائق کو باریک بینی سے جائزہ لے کر آگے بڑھنے کی کوشش کر لیں،

افغانستان کے ڈاکٹر نجیب اللہ جیسی سیاسی شخصیت نے بھی بیرونی سامراجی جارحیت کو سمجھتے ہوئے افغانستان کو فرقہ واریت، اور انتہا پسندانہ عزائم رکھنے والے عناصر کی سرکوبی کی کوشش کی مگر روس کے جانے کے بعد افغانستان کے سابق صدرور نے سامراج نوازی میں اپنا کردار ادا کیا تو روس کے بعد امریکی سامراج نے قبضہ کر لیا جو آج تک افغانستان اور پاکستان کو ذلیل و رسوا کررہا ہے، قتل و غارت کا بازار گرم کر رہا ہے، ان دونوں ممالک میں بے جا مداخلت کرنے کے لئے من گھڑت حیلے بہانے تراش کر اپنے گولہ بارود کی فروخت کے بہانے بنا رہا ہے، اس سازش کو سب جان چکے ہیں مگر افسوس کہ ڈاکٹر نجیب اللہ اور میر غوث بخش مرحوم کے جذبات کی قدر دانی میں کمی آرہی ہے، سامراجی دشمن ان دونوں ممالک میں اپنے مذموم عزائم کے تحت اپنی خطرناک تخریب کاریوں میں سرگرم ہے اور ہم ایکدوسرے کو ختم کرنے کے لئے، اپنے سیاسی و مذہبی عقائد مسلط کرنے کے لئے اندھی تقلید کے قائل ہو چکے ہیں، پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت سے لیکر آج تک مذہبی انتہا پسندی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، فرقہ وارانہ فسادات اور سازیش وقفے وقفے سے جاری و ساری ہیں،

دو دن پہلے جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدالاکبر چترالی نے جس انداز میں مقدس عنوان کے تحت چند قومی اسمبلی کے ممبران کو متاثر کرکے فوجداری ترمیمی بل 2021 ء( 298 A )  بغیر مشاورت، بغیر بحث کے پاس کروانے کی عجلت میں کوشش کی اس کو ذرا خیال نہیں آیا کہ پاکستان ایک مسلکی ملک نہیں ہے، اس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ آباد ہیں، یہاں سب کے برابر حقوق ہیں، اس ملک میں کسی ایک کا عقیدہ کسی دوسرے پر مسلط کرنا انتہائی بیوقوفی اور احمقانہ حرکت ہے، اس متنازعہ بل کو مسلط کرنا خام خیالی ہے، اس بل کے تحت انتہا پسند گروہوں کو مزید اشتعال انگیزی دلا کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کرنے کی بھیانک سازش ہے،

مولانا عبدالکبر چترالی کو ڈاکٹر نجیب اللہ اور میر غوث بخش مرحوم کے نظریات پڑھ لینے چاہیئے جو یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان اور افغانستان کسی ایک مسلک کا مذہب نہیں ہے، ہم سب کو مسلکی نہیں بلکہ پاکستانی اور افغانی بن کر رہنا ہوگا، یہاں ہر ایک کے مقدسات کا احترام اور ادب کرنا ہوگا، ادب اور احترام کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی مذہبی آزادی اور امور کو بجا لانا ہوگا، پاکستان میں مسئلہ  نئی قانون سازی کا نہیں بلکہ سابقہ آئین اور قانون پر عملدرآمد کرانے کا ہے،

بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو کسی صحافی نے سوال پوچھا کہ پاکستانی علاقوں میں غیر مسلم اقلیتوں کے تحفظ کے بارے میں آپ کے کیا خیالات ہیں  ؟

اس صحافی کے جواب میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کہا کہ اس سوال کا ایک ہی جواب ہے اقلیتوں کی حفاظت اور ان کا تحفظ ہونا چاہیے، پاکستان میں اقلیتی افراد پاکستان کے شہری ہونگے، انہیں شہریت کے جملہ حقوق، مراعات، اور فرائض بلا کسی ذات پات، عقیدہ یا مسلک کی تمیز کے حاصل ہونگے، ان کے ساتھ منصفانہ اور عادلانہ سلوک ہوگا، اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق، ہر گروہ کے عقیدے اور مذہب کی حفاظت، آزادی فکر، ان کی ثقافت اور سماجی زندگی کے تحفظ کے بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے گی،

مولانا عبدالاکبر چترالی کو شاید ڈاکٹر نجیب اللہ اور میر غوث بخش کے روادارانہ نظریات کا علم نہیں تو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے نظریات کا مطالعہ کرنے کی ہی جسارت کر لیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ اس طرح کے قوانین کا اطلاق بہت مشکل مرحلہ ہے، اور چترالی صاحب کو یہ بھی معلوم کرلینا چاہیئے کہ ملکی یکجہتی کونسل میں تمام مکاتب فکر کے علماء اور دانشور موجود ہیں جنہوں نے پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت، شدت پسند کے خاتمے کے لئے پیغام پاکستان کا بیانیہ  متفقہ اعلامیہ کے طور جاری کروایا جس پر 10 ہزار سے زائد تمام مکاتب فکر کے جیئد علماء کے دستخط موجود ہیں، تاکہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی، اتحاد و تعاون، وحدت و یگانگت کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے اصل سامراجی دشمن کے ناپاک عزائم کو مل کر ناکام کرسکیں،

شیعہ علماء کرام نے کافی عرصہ سے اتحاد و وحدت کے پرچار کے لئے نمایاں کردار ادا کیا، مجتہدین و مراجع کرام کے متفقہ فتاوی جاری ہوچکے ہیں کہ کسی بھی مسلک کے مقدسات کی توہین شرعی طور پر حرام ہے، شیعہ علماء کرام نے جب بھی کسی بھی مسلک کی جانب سے توہین کے مرتکب افراد کو ملوث ہوتا ہوا دیکھا تو اس کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ اس کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی عملی کوشش کی ہے، تو جب شیعہ علماء کرام اس حد تک امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کے استحکام کے عملی طور پر سرگرم ہیں تو نئے قوانین بغیر کسی مشاورت کے عجلت میں پاس کروانا انتہائ افسوس ناک اور خطرناک سازش ہے اگر اس بل کو ایوان بالا اور ایوان صدر سے مسترد نہ کروایا گیا تو خانہ جنگی خارج از امکان نہیں جس کا فائدہ غیر ملکی سامراجی قوتوں نے بھرپور انداز اٹھانا ہے، پہلے ہی پاکستان میں سیاسی بحران اپنے طوفان برپا کررہا ہے جس کے باعث معاشی طور پاکستان کنگال ہوچکا ہے، لہٰذا تمام اسٹیک ہولڈرز کو باہمی طور پر اس عاجلانہ، غیر منصفانہ اور متنازعہ قانون کو مسترد کرانا انتہائی ناگزیر ہوگا،

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five × 5 =