اکتوبر 7, 2024

زیر التوا مقدمہ جمہوریت

تحریر: سید اعجاز اصغر 

آج کل آئینی عدالت قائم کرنے کے لئے سیاست کے چیمپئن جابرانہ اقدامات اٹھانے کی تگ و دود میں مصروف عمل ہیں، حزب اختلاف اور دیگر مخالف جماعتوں نے اعتراض لگایا ہے کہ مجوزہ آئینی ترمیم عدالت عالیہ پر جابرانہ اور جارحانہ حملہ ہے، سیاسی جماعتوں کی باہمی گفت و شنید بظاہر دم توڑ گئی ہیں، جبر اور تشدد کا ماحول پیدا ہو چکا ہے، ایک انگریز دانشور مورومی جے نے 1924 کے مقدمہ میں لکھا کہ بات چیت کا قانون انتظامی طریقہ ہے جو کہ مختلف ریاستیں، مختلف سیاسی جماعتیں اپنے تنازعات گفت و شنید کے ذریعہ اعلی سطح پر ہمراہوں کی وساطت سے حل کر لیتی ہیں یا پھر خط و کتابت کے ذریعہ سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتی ہیں، مگر آج کل مقامی سیاست میں تنازعات کا حل تو درکنار بین الاقوامی تنازعات جیسے پاک بھارت، فلسطین و کشمیر وغیرہ کے تنازعات کو حل کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ہے، جب تک مقامی تنازعات مذاکرات کے ذریعے حل نہ ہونگے بین الاقوامی سطح کے تنازعات  میں دن بدن اضافہ ہوتا جائے گا ،

75 سالہ پاکستانی ریاست میں جبر و تشدد کا ماحول پاکستانی عوام کا مقدر بن چکا ہے، مسلسل موروثی سیاست نے مسائل کو بدتر سے بدتر کردیا ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون پہلے دن سے ہی نافذالعمل ہے،

مجوزہ آئینی ترمیم کے متنازعہ ہونے کے امکانات سو فیصد بڑھ چکے ہیں، مجوزہ آئینی ترمیم کا مسودہ پڑھ کر ہر تعلیم یافتہ پاکستانی مایوس اور خوفزدہ ہو گیا ہے کہ ہمارے سیاست دان 75 سال گزرنے کے بعد بھی ابھی تک خود غرضی، انا پرستی، جبر و تشدد کی سیاست کررہے ہیں، پاکستان صرف چند اشرفیہ کی ریاست گاہ نہیں بلکہ ہر پاکستانی پاکستان کو اپنا گھر وطن اور ملک سمجھتا ہے، پاکستان کا مسئلہ ہر محب وطن کے لیئے ہے جو بھی پاکستانی ہے  اس کا گھریلو مسئلہ ہے، گھریلو زندگی کے قوانین بیوی بچوں بہن بھائیوں کی باہمی مشاورت سے بنتے ہیں، گھریلو زندگی میں بھی کچھ قوانین ہوتے ہیں جن میں بیوی اور بچوں کی رعایت کرنا ہوتی ہے، مثال کےطورپر یہ کہیں کہ کوئی دوسرا کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائے، یہاں تک کہ چھوٹے  چھوٹے بچے اپنے کھلونے اور کاپی پینسل وغیرہ میں اس قانون کی رعایت کرتے ہیں اور ان میں سےکوئی دوسرا بغیر اجازت کے کسی دوسرے کی چیز کو اٹھاتا ہے تو اس پر اعتراض ہوتا ہے، یا اگر آپ کا پڑوسی آپ کی اجازت کےبغیر آپ کے گھر میں داخل ہو کر آپ کے سامان کو لے جائے، اگرچہ وہ سامان آپ کے نزدیک بے کار ہی کیوں نہ ہو  ؟ تو آپ فوری طور پر اعتراض کر دیتے ہیں کہ میری اجازت کےبغیر کس طرح میرے گھر میں داخل ہوئے یا کیوں ہمارے سامان کو اٹھا کر لے گئے  ؟ یہاں تک کہ اگر اس نے آپ کے ساتھ کچھ احسان بھی کر رکھا ہو،  پھر بھی آپ کو حق ہے کہ اس پر اعتراض کریں  !

افسوس صد افسوس کہ 75 سالہ سیاست کے چیمپئن جبر و تشدد کی سیاست کرتے کرتے  اپنی اپنی تجوریاں بیرون ممالک میں بھر بھر تھکے نہیں اور آج پاکستانیوں کی حالت یہ ہے کہ صاف پانی اور سستی بجلی سے محروم کردیا گیا ہے، مہنگائی اور بیروزگاری نے ہر دوسرے شخص کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے، دہشت گردی اور آئے روز فرقہ وارانہ فسادات اور مقدسات کی توہین ریاست پاکستان میں وطیرہ بن چکا ہے، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور سول کورٹ کے ہوتے ہوئے آئینی عدالت کو قائم کرنے میں ان کو کوئی خوف و خطرہ محسوس نہیں ہورہا ہے،  آئینی عدالت کے قیام کی صورت میں پاکستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنے کے واضح امکانات روشن ہو چکے ہیں، فقط عمران خان کو صفحہ ہستی میں مٹانے کے لئے سب کچھ کیا جا رہا ہے، اگر عمران خان مجرم ہے  ؟ غدار ہے  ؟ قاتل ہے ؟ ظالم ہے  ؟ تو آئینی عدالت کی بجائے شفاف اور منصفانہ ریفرنڈم کرایا جائے، مجوزہ آئینی ترمیم کی اگر اشد ضرورت ہے تو اس کے لئے بھی شفاف اور منصفانہ ریفرنڈم کرایا جائے تاکہ سیاست کے چیمپئنوں کو معلوم ہو جائے کہ عوامی ردعمل عمل کیا ہے، ؟  اگر عوام کی مرضی کے بغیر مجوزہ آئینی ترمیم کی گئی تو قتل و غارت، خانہ جنگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا،

18 ویں اور 19 ویں صدی عیسوی میں خصوصی طور پر مغربی ممالک میں استعار گری کا دور دورہ شروع ہوا چنانچہ جس کے پاس جتنی طاقت تھی اسی مقدار میں دوسرے ملکوں پر قبضہ کر لیتا تھا یا اپنی طرف سے کسی ملک پر حاکم معین کر دیتا تھا کہ جو وہاں پر حکومت کرتا تھا یعنی ایک ملت کی سر نوشت( مقدر  ) پر دوسروں کے ہاتھوں میں ہوتی تھی یا پھر دوسرا ان مسلط ہو جاتا تھا، پس جب لوگ عالمی ظلم سے واقف ہوگئے اور اپنے حقوق کے طالب ہو گئے تو ملت کی حاکمیت کا مسئلہ پیدا ہوا اور آہستہ آہستہ مسئلہ حاکمیت ملت نے بین الاقوامی حقوق میں اپنی جگہ بنا لی اور کہا جانے لگا کہ ہر قوم اپنے مقدر  ( سر نوشت  ) پر حاکم ہے، کسی ملت کو یہ حق نہیں ہے  ” حاکمیت ملی  ” یعنی ہر قوم و ملت مستقل ہے اور سر نوشت پر خود حاکم ہے، اور کسی ملت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ دوسری ملتوں کا اپنے کو حاکم سمجھے، کسی بھی حکومت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی دوسرے ملک میں اپنی حاکمیت چلائے،

دور حاضر کے سیاست دانوں کو 18 ویں اور 19 ویں صدی عیسوی کی استعار گری کی طرح روش کو ختم کرنا ہوگا بلکہ یہ سوچنا ہوگا کہ عوام الناس کیا چاہتی ہے  ؟

جب بھی عوام الناس کوئی چیز حکومت اور قانون بنانے والے ادارہ سے طلب کرے تو حکومت کے پارلیمنٹ میں عوام الناس کے نمائندے عوام الناس کی خواہش کے مطابق قانون بنائیں، اگر قانون لوگوں کی خواہش کو مد نظر رکھ کر بنایا جائے تو عوام بھی اس قانون کی پیروی کرنے کی پابند ہوتی ہے، اگر عوامی نمائندے ہی فارم 47 والے ہوں تو وہ جو بھی قانون بنائیں گے وہ قانون غیر مفید اور بے کار ہوگا،

جب فارم 47 متنازعہ ہوگیا ہے تو 8 فروری کا الیکشن بھی غیر آئینی ہو چکا ہے، اس صورت میں قانون بنانے کا حق خود پاکستانی عوام کو ہے، اور جو پاکستانی عوام اپنے لئے قانون بنائے گی اگر اسے صاف اور شفاف ریفرنڈم کا موقع دیا جائے تو اسی قانونی نظام کے تحت صحیح معنوں میں جمہوریت وجود میں آئے گی، سستی بجلی، مہنگائی، بیروزگاری، پینے کے لیے صاف پانی، محکمہ صحت اور محکمہ تعلیم و دیگر اداروں میں عوامی مفاد کے پیش نظر ترامیم کی جائیں گی، کیونکہ 75 سال سے جمہوریت کا مقدمہ دھاندلی زدہ فارم 47 والی اسمبلیوں میں زیر التوا ہے.

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

one + six =