جولائی 24, 2024

حضرت قاسم بن امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام

تحریر: کوثر عباس قمی

جیسا کہ ہم نے اپنی گذشتہ تحریروں میں یہ واضح کیا کہ

انقلاب عاشورا میں امام حسین علیہ السلام کا اہل حرم اور بچوں کو ساتھ کربلا لے جانے کا مقصد، فکر حسین اور مقصد حسین علیہ السلام کی تبلیغ اور پیغام رسانی تھا

اور امام حسین علیہ السلام نے اس سلسلے میں انہی بچوں اور ماوں کا انتخاب کیا جو شھادت حسین ابن علی کے بعد فکر و مقصد حسین کی ترویج کے لیے نہ صرف خود پہ آنے والی سختیاں برداشت کر سکیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی مقصد حسین ع پر قربان کرنے سے دریغ نہ کریں

ھدایت کے چراغ،حسین ابن علی کے ایسے ہی وفادار ساتھیوں اور انصار میں سے ایک، امام حسن ع کے فرزند حضرت قاسم بھی تھے

حضرت قاسم بن حسن ع نے اپنے والد گرامی امام حسن علیہ السلام کی معیت میں بہت کم وقت گزارا اس لیے کہ آپؓ کا ابھی بچپن ہی تھا کہ حضرت امام حسن علیہ السلام کی شہادت ہو گئی،آپؓ کی اپنی شہادت چونکہ 13یا15 سال کی عمر میں ہوئی اس لیے شہزادہ قاسم ع نے زندگی کا جتنا وقت پایا وہ اپنے چچا حضرت امام حسین علیہ السلام اور خاندان نبوت کے دیگر افراد بالخصوص اپنی پھوپھی حضرت سیدہ زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے زیر سایہ گزارا۔

فنون حرب شہزادہ قاسم بن حسن علیہما السلام نے حضرت غازی عباس علمدار علیہ السلام سے سیکھے۔ گویا آپ نے امامت و ولایت کے سایہ میں پروریش پائی

شہزادہ قاسم بن حسن علیہما السلام نے عمر کے اس مختصر حصہ میں وہ تمام کمالات حاصل کر لیے تھے،جو خاندانِ نبوت اور اہل بیت کا خاصہ ہے۔

علوم ظاہری و باطنی،تقوٰی وطہارت،ریاضت و عبادت، خدمت خلق،سخاوت و دستگیری یہ آپ کی سیرت کا نمایاں حصہ تھا۔

یقینًا یہ تمام اوصاف حمیدہ آپ کو اہل بیت ِ نبوت سے ورثہ میں ملے تھے،

یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ میدان کر بلا میں اتنا بڑا سانحہ پیش آیا لیکن آپ کے قدم نہیں ڈگمگائے، اور آپؓ حضرت امام حسین ؓ پر جان نثار کرنے کے لیے بے تاب رہے

اگرچہ امام حسن ع کے تین اور فرزند بھی کربلا میں شہید ہوئے مگر بعض خصوصیات کی وجہ سے حضرت قاسم کی شھادت ایک الگ درجہ رکھتی ہے

حضرت قاسم وہ واحد شھید ہیں جنہوں نے موت کا ذائقہ چکھنے سے پہلے ہی موت کا ذائقہ بتا دیا

اس ایک مختصر مگر جامع جملے میں آپ نے ایک بات واضح کر دی کہ “جو حجت خدا پہ جان نثار کرے اس کی موت شھد کی طرح شیریں ہوتی ہے”

{اللھم ارزقنا ۔۔۔۔ الشھادۃ بین یدی القائم علیہ السلام}

 

آیت اللہ انصاریان بحوالہ کتاب” مقتل سید الشہداء”

لکھتے ہیں کہ

حضرت قاسم ابن حسن کی شہادت ان عظیم مصیبتوں میں سے ایک ہے کہ جو روز عاشور ا اہل بیت رسول پر ڈھائیں گئی

یوں تو حضرت قاسم کی شہادت کے واقعات کو ابو مخنف،شیخ مفید،ابو الفرج اصفہانی ،علامہ مجلسی ، اور طبری ،جیسے جیّد علمائے اسلام نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیاہے لیکن بعض تاریخی کتب میں آپ کی شہادت کو اس طرح بیان کیاہے کہ :جب سرکار سیّد الشہداء کے تمام اصحاب باوفا اپنی جانوں کانذرانہ راہ خدامیں پیش کر چکے اور اب اولاد امام حسن مجتبیٰ کی باری آ گئی تو حضرت قاسم محضر امام حسین میں شرفیاب ہوئے اور عرض کی چچا جان ! اب مجھے مرنےکی اجازت مرحمت فرمائیں! حضرت نے جواب دیا:اے قاسم! اے میرے بھتیجے !تم تو میرے شہید بھائی کی نشانی ہو لہذا تم میدان میں نہ جاؤ !میرے نور نظر !تمہارا وجود میرے دل شکستہ کی ڈھارس و سکون ہے

واقعاً یہ بہت عظیم مقام ہے کہ کوئی تیرہ برس کا بچہ اپنے چچا کے سکون قلب اور دل کی ڈھارس کاذریعہ ہو؟

جب قاسم نے دیکھا کہ چچا اجازت نہیں دے رہے ہیں تو آپ نہایت غمگین اور افسردہ ہوئے اور روتے ہوئےوہیں زمین پر بیٹھ گئے اور چچاکےپیروں پر سر کو رکھ کر اصرار کرنے لگے اسی اثنا میں قاسم کو یاد آیاکہ بابا نے وقت آخر بازو پر ایک تعویز باندھا تھا اور فرمایا تھا کہ بیٹا!جب تم پر کوئی سخت وقت آن پڑے تو تم ا س تعویز کو کھولنا اور اس کی عبارت کو پڑھنا ،اور جو کچھ اس میں لکھا ہو اس کے مطابق عمل کرنا

جناب قاسم نے اپنے دل ہی دل میں کہا:کہ بابا کو شہید ہوئے زمانہ ہوگیالیکن کسی بھی دن اس سے بڑی مصیبت سے دوچار نہیں ہواہوں اب مجھے اس تعویز کو کھول کر پڑھنا چاہئے بس جیسےہی قاسم نے اس تعویز کو کھولا اور تحریر کو ملاحظہ کیا اس میں لکھا ہواتھا میرے لاڈلے قاسم میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ جب بھی تم اپنے چچا کو کربلا میں دشمنو ں کے نرغے میں گھراہواپاؤ تو ہر گز خداو رسول کے دشمنوں سے جنگ کو ترک نہ کرنا!اور اپنے چچا کے ہمرکاب رہ کر شجاعت حسنی کے جوہر دکھانا اور اگر تیرے چچا اجازت نہ دیں تو اتنا اصرار کرنا کہ وہ راضی ہوجائیں ۔

جناب قاسم خوشی خوشی اٹھے تحریر کو لاکر سر کار سیّد الشہدآء کے سپرد کیا جیسے ہی آپ کی نظر بھائی کی تحریر پر پڑی قاسم کے گلے میں باہیں ڈال دی اور اپنی آغوش میں بٹھالیا دونوں نے بہت گریہ کیا بہر حال سیّد الشہداء قاسم کو خیمے میں لےکر گئے حضرت عباس ،عون ،اور امّ فروہ کو اپنے قریب بلایا اور زینب کبریٰ سے فرمایا :بہن میرے اسلاف کے تبرکات کا صندوق لاؤ !غرض صندوق لایا گیامولا نے امام حسن کی قباکو قاسم کے زیب تن کیا امام مجتبیٰ کاعمامہ سر پر باندھا اہل بیت اس منظر کو دیکھ کر رونے لگے امام حسین نے جیسے ہی بھتیجے کو آمادہ ہوتے ہوئے دیکھا تو فریاد بلند کی :اے میرے لال قاسم: کیااپنے پیروں آپ ہی موت کی طرف جارہے ہو ؟ قاسم نے جواب دیا:چچا جان کیسے نہ جاؤں ؟کیونکہ آپ دشمنوں کے نرغے میں بے یارو مددگار ہیں ،چچا اس بھتیجے کی جان آپ پر قربان ہو جائے ۔

امام نے قاسم کے گریبان کو چاک کردیا اور عمامے کے دونوں سروں کو قاسم کے چہرے پر ڈال دیا اس طرح آپ نے بھتیجے کو رخصت کیا تاکہ دشمنوں کی نظر بد سے بھی محفوظ رہیں اور گرمی آفتاب سے بھی امان میں رہیں

حضرت امام زین العابدین سے روایت ہے کہ جب سرکار سیّد الشہدآءنے شب عاشور تمام شہداء کے نام اور جنت میں ان کے مقام کےبارے میں بیان فرمانا شروع کیا،اور محضر نامہ کو کھولا اور فرمایا کہ کل صبح زین العابدین کے علاوہ سب شہید ہوں گے قاسم بن حسن نے اس خوف سے کہ وہ کم سن ہیں کہیں شہداء کی فہرست میں ان کا نام نہ ہو عرض کی “و انا فیمن یقتل یا عم “چچا جان میں کن افراد کے ہمراہ شہید ہوں گا؟ حضرت نے قاسم کو اپنے قریب بلایا ،ان کے سر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا: یاابن اخی ،کیف تجد طعم الموت عندک ؟”برادر زادے !تمہاری نظر میں موت کیسی ہے ؟

جناب قاسم نے جواب دیا:”احلی من العسل “چچا موت میرے لئے شہد سے زیادہ شیرین ہے ،پھر حضرت نے فرمایا :اے نور نظر تم بھی کل قتل ہونے والوں میں سے ہوگے اور تمہاری لاش کو گھوڑوں کے سموں سے پامال کر دیا جائے گا

 

حمید ابن مسلم ازدی (تاریخ کربلا کا مورخ )کا بیان ہے کہ میں نے ایک ایسے نوجوان کو میدان کارزار کی طرف آتے دیکھا کہ جس کا پیراہن اور لباس کچھ پھٹا ہوا ہے اور عربی نعلین پہنے ہوئے ہے کہ جس کابایاں تسمہ ٹوٹا ہوا ہے

میدان کا رخ کرتے ہیں اور اس طرح رجز پڑھتے ہیں:

إن تُنكِروني فَأَنَا فَرعُ الحَسَن‏ سِبطُ النَّبِيِّ المُصطَفى وَالمُؤتَمَن‏‏

هذا حُسَينٌ كَالأَسيرِ المُرتَهَن ‏بَينَ اناسٍ لا سُقوا صَوبَ المُزَن‏‏

اگر مجھے نہیں پہچانتے تو میں حسن مجتبی (ع) کا فرزند ہوں، جو نواسہ رسول مصطفی و امین (ص) ہیں۔

یہ حسین (ع) اغوا شدہ کی طرح اسیر ہیں، ایسے لوگوں کے درمیان کہ خدا انہیں آب باران سے سیراب نہ کرے۔

اس نے میدان میں پہونچتے ہی بڑی شان سے جنگ کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ۳۵ افراد کو قتل کردیا جب لشکر شام نے دیکھا کہ ہمارے پاس اس کا کوئی مقابل نہیں ہے تو انہوں نے یہ حربہ استعمال کیا کہ اس پر پتھر برسانا شروع کردئے عمر ازدی آگے بڑھا اور کہا کہ خداکی قسم !میں اس پر حملہ کرکے اس کو قتل کر ڈالوں گا جنگ کی اس افراتفری میں اس موقع کو غنیمت پاکر آپ کے فرق اقدس پر ایک زوردار وار کیا جس کے سبب سر دو نیم ہوگیا آپ نے اپنے چچا کو مدد کے لئے پکارا امام اس بازکے مانند کہ جو بڑی تیزی سے شکار کو دیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو چھوڑ کر نیچے آجاتا ہے دشمن پر حملہ آ ور ہوئے لیکن اس وقت پہونچے جب عمر ازدی سر قاسم کو بدن سے جدا کرنا چاہتاتھا حضرت نے شمشیر سے ایسا وار کیاکہ اس کا ہاتھ کٹ کر اس کے بدن سے جدا ہوگیااس نے اپنے قبیلے والوں کو مدد کے لئے پکارا انہوں نے آکر امام پر حملہ کر دیااس طرح ایک بار پھر ایک شدید جنگ کاآغاز ہوگیا اب جیسے ہی ادھر کے گھوڑے ادھر ،ادھر کے گھوڑے ادھر ہوئے قاسم کا جسم نازنین گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوگیا

جب کچھ دیر کے بعد جنگ رکی امام بھتیجے کے سرہانے پہونچے عجیب منظر دیکھا قاسم زمین پر ایڑیاں رگڑ رہےہیں اور جان نکلنا چاہتی ہے مولا رو کر بین کرنے لگے :اے میرے لال قاسم! میرے لئے بڑے دکھ کی بات ہے کہ تو نے مجھے مدد کے لئے پکارا اور میں وقت پر نہ آسکا اور آپ کی مدد نہ کر سکا

اب فاطمہ کالال لاش اٹھانا چاہتا ہے قاسم کے سینے کو اپنے سینے سے لگاکر اٹھایا پامالی سم اسپاں کے سبب پیر زمین پر خط دے رہے تھے حضرت نے لاش کو لاکر اکبرکی لاش کے برابر رکھ دیا ایک بار پھر اہل بیت کرام میں ایک کہرام برپا ہو گیا مولا نے سب کو اس عظیم مصیبت پر صبر کرنے کی تلقین فرمائی

اور زہرا کا لعل پھر میدان کارزار کی طرف چل پڑا۔۔۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

17 − 2 =