دسمبر 1, 2024

حسین شہید انسانیت ہیں

تحریر: مہر عدنان حیدر

حضرت آدمؑ سے لیکر حضرت ابراہیمؑ تک سب انبیاء دین اسلام کی ہی تبلیغ کرتے آئے ہیں، مگر لفظ اسلام اور مسلم کی اصطلاح جناب ابراہیم علیہ السلام کے دور سے شروع ہوئی، حضرت ابراہیم ؑ کے دور میں ہی اس جماعت کا نام مسلم پڑا، جو حضرت ابراہیم ؑ کی پیروکار بنی اور رسول اکرمؐ نے بھی خود کو ملت ابراہیم کا رہبر بتایا۔ حضرت ابراہیم ؑ وہ ذات ہیں، جن کو انسانیت کے سب سے بڑے دشمن نمرود کا سامنا ہوا اور حضرت ابراہیم نے ہر طرح سے اس کا مقابلہ کیا اور یہاں تک کہ خدا کے حکم سے فلسطین سے ہجرت کی اور مکہ کو آباد کیا۔ کعبہ کی تعمیر کے بعد یہ شہر تہذیب اور تمدن کا مرکز بنا۔ یہ بات کہ رسول اسلام ؐ سے پہلے عرب جاہل رہے تھے، غلط ہے۔ عرب گو کہ بت پرست اور شرک کرتے تھے، مگر انہوں نے اپنے جینے کے لیے کچھ اصول مرتب کیے ہوئے تھے۔ یہ اصول کسی مذہب کے مطابق نہیں بلکہ ان کی تہذیب اور تمدن کے لحاظ سے تھے۔

یعنی عرب اعلان رسالت سے پہلے بھی مہمان نواز، بہادر اور برادری انسیت کے مالک تھے۔ اسی لیے زمانہ جاہلیت کا ادب بھی اس کی ترجمانی کرتا ہے کہ عربوں کی تہذیب پہلے کیسی تھی۔ یہی نہیں مکہ کی سرزمین ہر لحاظ سے دوسری زمینوں سے افضل تھی، کیونکہ یہیں پر حضرت اسماعیلؑ نے زندگی بسر کی اور عرب ہی کعبہ کے محافظ رہے تھے۔ مگر رفتہ رفتہ عرب برادری ازم، حسب اور نسب سمیت دیگر اخلاقی پستیوں کی وجہ سے بنیادی انسانی اصولوں کو بھی نظر انداز کرنے لگے، یہاں سے عرب معاشرے کی ذلت اور پستی کی شروعات ہوئیں۔ یہاں تک کہ یہ اپنی بیٹیوں تک کو زندہ دفن کرنے لگے، کیونکہ عرب نہیں چاہتے تھے کہ ان کی عزت کسی کی ملکیت بنے۔ جب یہ تمام چیزیں انتہاء کو پہنچ گئی تو خدا نے ان کی رشد و ہدایت کے لیے رسول اکرم ؐ کو مبعوث  کیا۔

حضرتؐ نے اس معاشرے میں جہاں لوگ انسانی اقدار کو ہی بھول گئے تھے، ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا، جس کی بنیاد بنیادی انسانی اصول تھے۔ خاص طور پر عربوں میں ایک شخص کے بدلے ایک نسل سے انتقام لیا جاتا تھا اور یہ انتقام تب تک جاری رہتا، جب تک نسل نہ ختم ہوتی۔ آپؐ نے قصاص کا بہترین نظام قائم کیا، سود کا خاتمہ کیا، عورتوں کو ان کے حقوق دیئے، مظلوموں کی داد رسی کی، کمزوروں کا ساتھ دیا اور اس کے ساتھ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا، جو آج تک روشن خیال معاشروں کی بنیاد بنا ہوا ہے، لیکن افسوس کہ آج تک ہم اسلام کو بطور دین تو پیش کر رہے ہیں، لیکن بطور نظام ہم نے اس پر کوئی توجہ نہیں کی اور آج بھی ہم فرانسیسی جمہوریت اور اس کے متبادل نظاموں کو اپنا ذریعہ نجات سمجھتے ہیں۔

خیر ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں کہ رسول مکرم ؐ نے اپنی 23 سالہ جدوجہد سے عربوں کے اندر ایک ایسی بیداری کی تحریک شروع کی، جو آج پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔ یوں نہیں کہ رسول اکرمؐ کے لئے یہ سب کرنا آسان تھا۔ اس راہ میں سب سے پہلے انہی لوگوں نے مخالفت کی، جو خود کو نسب کے لحاظ سے بہتر سمجھتے تھے یا جن کو اسلام کے آنے کے بعد مادی نقصانات ہوئے، کیونکہ سودی نظام اس معاشرے کی بنیاد بن چکا تھا اور اسلام نے سود کو یکسر مسترد کر دیا۔ تیسرا گروہ وہ تھا، جو بتوں کو خدا کی قربت کا وسیلہ سمجھتا تھا یعنی مشرک۔ بہرحال عربوں کو اس بات کا اندازہ تھا کہ اگر رسول اکرمؐ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو ہمارا سٹیٹس عام لوگوں جیسا ہی ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ مسلمان ہونے کے بعد بھی مسلمانوں پر اپنی برتری جتانے کی کوشش کرتے رہے۔

اس لیے انہوں نے اسلام کی تحریک کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی، مگر ناکام رہے اور آخرکار یہی لوگ فتح مکہ میں فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ (یعنی ان کے دلوں میں بیماری تھی) کے مصداق بن کر ایمان لے آئے۔ پھر بھی رسول اسلام نے ان لوگوں کی تالیف قلب کے لئے بہت کچھ کیا، مگر ہدایت خدا نے دینی تھی اور ان کے دل روحِ ایمان سے منور نہ ہوسکے۔ یہ لوگ یہی سمجھتے رہے کہ حضرت محمدؐ اپنی حکومت قائم کر رہے ہیں، اسی لیے ان کو گمان تھا، کیونکہ حضرت محمد ؐ کا کوئی بیٹا نہیں، اسی لئے جلد ہی ہم یہ نظام ختم کر دیں گے۔ اس لیے رحلت پیغمبر کے بعد بھی یہ لوگ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے، تاکہ یہ لوگ اپنے سابقہ مقام کو حاصل کرسکیں۔

دوسری طرف شام ایک ایسا علاقہ تھا، جہاں ان کے جد امجد امیہ کو بدر کیا گیا تھا اور بعثت رسالت سے پہلے ہی عربوں کے شام میں تجارتی قافلے جایا کرتے تھے، مگر شام پر مسلمانوں کی فتح حضرت عمر ؓ کے دورِ خلافت میں ہوئی اور اس علاقے کو بنو امیہ کے حوالہ کر دیا گیا۔ جو شروع میں تو گورنری کی صورت میں تھا، مگر بعد میں یہی سے ملوکیت کا آغاز ہوا اور اس ملوکیت کا آغاز یزید سے نہیں ہوا بلکہ نظام پہلے سے ہی خراب ہوچکا تھا، یعنی کہ معاشرہ اس مقام پر پہنچ چکا تھا کہ یزید اس معاشرے کے نظام کو سنبھال سکے اور معاشرہ یزید جیسے افراد کو قبول کرسکتا تھا، کیونکہ شام وہ علاقہ تھا، جو مسلمانوں کی جنگی فتوحات سے زیر ہوا تھا اور مسلمانوں نے اسے تلوار کے زور پر حاصل کیا تھا، یہاں وہ دین نہ پھیل سکا، جس کی تبلیغ کا دارومدار محبت اور اخوت تھی۔ اس لیے شام ایسے افراد کے لیے موافق تھا۔ یزید نے آتے ہی اس نظام کو مسترد کر دیا، جو رسول اکرم لے کر آئے تھے۔ یزید یہی کہتا رہا کہ نبوت بنو ہاشم کا معاذاللہ ڈھونگ تھی، نہ کوئی وحی آئی تھی اور نہ ہی کوئی نبی آیا۔ یہی نہیں یزید نے دربار دمشق میں امام حسین کے لبوں پر چھڑی مار  کر کہا تھا کہ اگر بدر والے ہوتے تو میرے ہاتھ چومتے۔

اب ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں، ہمارا موضوع ہے مولا حسین شہید انسانیت ہیں، یعنی امام حسین صرف مذہبی شخصیت نہیں بلکہ انسانیت کے عظیم رہنماء ہیں، وہ اس لیے کہ یزید نے فقط رسول کی رسالت کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس نظام سے انکار کر رہا تھا، جو رسول نے قائم کیا تھا اور وہ اپنی حکومت کو اپنے اجداد کی طرز پر چلانا چاہتا تھا، وہ طریق جس پر اس کے اجداد رسول اسلام ؐ سے پہلے جیا کرتے تھے۔ ورنہ وہ عبادات کا منکر نہیں تھا، وہ خود نماز جمعہ پڑھاتا تھا۔ اگر فقط دین کی بات ہوتی تو دربارِ یزید میں خود یزید نے موذن کو امام زین العابدین ؑ کا خطبہ روکنے کے لیے اذان دینے کو کہا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یزید کو نماز روزہ اور حج سے کوئی مسئلہ نہیں تھا بلکہ اُسے اس نظام سے مسئلہ تھا، جو رسول لے کر آئے تھے اور نظامِ رسالت بنیادی طور پر ان اصولوں پر مشتمل تھا، جس کی اساس تہذیب پرستی اور افضلیت بشر تھی۔

اسی لئے کربلا میں روز عاشور امام حسینؑ نے لشکر یزید سے فرمایا کہ اگر تم کسی دین کو نہیں مانتے تو آزاد مرد بنو، یعنی امام ان کو اُن مشترک اصولوں پر لانا چاہتے تھے، جس پر انسانیت کا انحصار ہوتا ہے، مگر یہ لوگ اس قدر اندھے ہوچکے تھے کہ کربلا میں اِنہوں نے بنیادی انسانی اصولوں کی خلاف ورزی کی۔ حضرت علی اصغرؑ  جن کی عمر چھ ماہ تھی، ان کو اس تیر سے مارا گیا، جس سے عرب وحشی اونٹوں کا شکار کرتے تھے۔ یہی نہیں دنیا کا کوئی مذہب بچوں کی پیاس کو justify نہیں کرسکتا کہ علی اصغرؑ نے تو پانی مانگا تھا۔ کربلا میں گھوڑوں سے لاشوں کے پائمال ہونے سے لیکر خیموں کو آگ لگانے تک اور خیموں کی آگ سے اسیروں کی قید اور لاشوں کو بغیر کفن اور دفن کے چھوڑ دینا، بنیادی انسانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے امام حسین کی شہادت کو فقط مذہبی تناظر میں نہ دیکھا جائے بلکہ اس کو عظیم انسانی المیہ کے طور  لیا جائے، کیونکہ امام حسین کی جنگ کسی غیر مذہب کے ساتھ نہیں تھی، بلکہ برائی کے خلاف تھی اور برائی ہر مذہب میں قابل مذمت ہوتی ہے اور امام نے برائی کے خاتمے کے لیے قیام کیا۔ اب انسانیت پر ہے کہ وہ اپنے محسن کو کس انداز سے خراج تحسین پیش کرتی ہے، کیونکہ حسین اور حسینیت مظلوموں کا آخری سہارا ہے، سلام یاحسین۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

19 − 13 =