اکتوبر 8, 2024

بلوچستان اور ڈسپرین کی گولی!

تحریر: عاصمہ شیرازی

بارش کا پہلا قطرہ، حرف کا پہلا نکتہ اور پاؤں کا پہلا قدم جس تکلیف، کوشش اور جستجو سے گزرتے ہیں، کوئی اس کاوش کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔ روایت شکن ہمیشہ نئے پن کے احساس کے ساتھ جہت مقرر کرتے ہیں۔

وہ رہنما جو دوسروں کو راستہ دکھاتے ہیں، وہ سرخیل جو کرسی کے نہیں۔۔۔ بلکہ خود اقتدار ان کا منتظر رہتا ہے۔

ابھی کل ہی سردار اختر مینگل پارلیمنٹ سے مستعفی ہوئے، چھ ماہ کی نومولود اسمبلی کے لیے یہ اتنا بڑا دھچکا ہے، جس کا اندازہ کم از کم اب نہیں ہو سکتا۔

قومی اسمبلی کی ساکھ سردار اختر مینگل سے تھی، بلوچستان کی سیاسی ساکھ کو غیر حقیقی سیاسی جماعتوں کی تشکیل اور ترویج کے ساتھ شدید نقصان پہنچایا گیا، یہاں تک کہ بی این پی اور نیشنل پارٹی جیسی بلوچوں کی نمائندہ جماعتوں کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی کوششش کی گئی، اپنی مرضی کے اعداد حاصل کیے گئے، اپنی من پسند حکومتیں تشکیل دی گئیں، من مانی پالیسیاں اور من چاہے فیصلے کیے گئے جس میں وہاں کی زمینی قیادت اور نمائندہ جماعتوں کو مائنس کیا جا تا رہا اور نتیجہ یہ نکلا کہ صوبے کے 70 فیصد نوجوانوں پر مشتمل بلوچ عوام پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے کو اب تیار نظر نہیں آتے۔

بار بار انتخابی مداخلتوں نے بلوچستان میں ایسا ماحول ترتیب دے دیا ہے جو سیاسی نظام میں شمولیت کا حامی نہیں رہا۔ پارلیمنٹ سے باہر نوجوان قیادت کسی طور غیر نمائندہ حکومتوں اور نظام کو اپنانے کو تیار نہیں۔ ایسے میں سیاسی جماعتوں کے سنجیدہ رہنما جو پارلیمنٹ، جمہوریت اور آئین پر یقین رکھتے تھے، وہ بھی تائب نظر آتے ہیں یا یوں سمجھیے کہ اس سے ہاتھ اٹھا چکے ہیں۔

مجھے آج بھی 27 ستمبر 2012 کا وہ دن یاد ہے جب اختر مینگل جلاوطنی چھوڑ کر واپس پاکستان آئے، جسٹس افتخار چوہدری کی عدالت میں کھڑے اختر مینگل صاحب نے آئین پاکستان اور ریاست کو تسلیم کیا، ایک ایسے وقت میں جب اکبر بگٹی کی موت کے بعد بلوچستان دور کھڑا تھا، متذبذب تھا، گومگو کی کیفیت میں تھا، اختر مینگل صاحب نے سپریم کورٹ میں یقین دلایا کہ بلوچستان کی سیاسی جماعتیں شکایتوں کے باوجود ریاست کے ساتھ کھڑی ہیں۔

اس وقت سپریم کورٹ میں پیش کردہ چھ نکات میں سرفہرست بلوچستان سے تمام خفیہ اور اعلانیہ آپریشنز کے خاتمے، لاپتہ افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے، ڈیتھ سکواڈز کا خاتمہ، جماعتوں کی بغیر مداخلت سیاسی عمل میں شمولیت اور مسخ شدہ لاشوں اور ٹارچر کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

کیا ستم ظریفی ہے کہ آج 12 سال بعد پھر ستمبر میں وہی مطالبات ہیں، وہی تحفظات اور سوالات ہیں اور جوابات آج بھی نہیں۔ مطالبے نہیں بدلے مگر پلوں کے نیچے سے پانی بہت بہہ گیا ہے، بلوچ قیادت سیاسی لوگوں کے ہاتھ سے نکل کر ہجوم کے ہاتھ جا چکی ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ ڈسپرین کی گولی سے حل نہیں ہو گا، زمینی حقائق کے مطابق حقیقی نمائندوں کے ذریعے طے کرنا ہو گا۔ مینگل صاحب کے چھ نکات ہوں یا ڈاکٹر مالک کی حالیہ اہم اجلاس میں تجاویز، ان پر سنجیدگی سے غور کرنا ہو گا۔ غیر فعال پارلیمان میں بلوچستان جیسے مسائل کو جگہ دینا ہو گی، سیاسی رہنماؤں نے خلا پیدا کر دیا ہے، یہ خلا پُر نہ کیا گیا تو یہ جگہ آئین سے روگردانی کرنے والے پورا کریں گے۔

کیا کوئی بلوچستان کی ناراض اور نوجوان قیادت کو انگیج کرنے کی کوشش کرے گا؟ ایوان صدر میں بیٹھے آصف علی زرداری ہوں یا رائے ونڈ میں تشریف فرما میاں نواز شریف، انہیں اپنا قومی کردار جلد ادا کرنا ہو گا۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی۔

 

بشکریہ انڈیپینڈںٹ اردو

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

15 + fifteen =