دسمبر 23, 2024

ایران کا اسلامی انقلاب

تحریر:محمد ثقلین واحدی

[email protected]

گیارہ فروری 1979 کو جب ایران میں انقلابِ اسلامی کامیابی سے ہمکنار ہوا تو دنیا کے اکثر دانشور حضرات یہ کہتے نظر آئے کہ اس انقلاب کو امریکہ بس چند دنوں میں کچل دے گا ۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے نواب اکبر خان بگٹی مرحوم سے کسی نے ایران کے اسلامی انقلاب کے بارے میں بات کی تو انہوں نے مسکراتے ہوئے  سوال کیا کہ شیعہ کتنے اماموں کو مانتے ہیں ؟ جواب ملا  “بارہ” تو بگٹی صاحب نے کہا یہ انقلاب بارہ مہینے بھی نہیں رہ پاِئے گا  لیکن پھر نواب اکبر بگٹی سمیت دنیا بھر کے دانشوروں نے دیکھا کہ 11 فروری 1979 کو انقلابِ اسلامی کا ایسا نور چمکا جس نے آج تک دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال رکھا ہے  ۔

انقلابِ اسلامی نے  اسلام کا پرچم تھاما اور دنیا بھر کے مظلوموں کو اسکی چھاوں میں پناہ دی  استکبارِ جہانی کی مشکلات کا آغاز ٹھیک اسی وقت سے شروع ہوا مستضعفینِ جہان کا حامی یہ انقلاب امریکہ و اسرائیل کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہو گیا امریکہ اپنے تمام اتحادیوں کے ساتھ صدام کے ذریعے انقلابِ اسلامی پہ حملہ آور ہوا لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں لیکن امریکہ کے یہ تمام حربے مٹی میں مل گئے ۔

گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ حقیقی انقلاب یوں راتوں رات سب کچھ تبدیل نہیں کر دیتے یہ تو بس معاشرے پر چھائے جمود کو توڑتے ہیں اور پھر ارتقاء کا سفر شروع کرتے ہیں کسی بھی قسم کی مخصوص لابی یا تنگ نظر گروہ حقیقی انقلاب لانے میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ حقیقی انقلاب تو صرف اور صرف عوام کی امنگوں اور معاشرے کی گہرائی سے نکلتے ہیں اور دنیا پہ چھا جاتے ہیں ۔

بانی ِ انقلابِ اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی امام خمینیرح  کی سیاسی علنی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز  اکتوبر 1962 میں ہوا جب جب شاہ کی کابینہ نے ایک بل پاس کیا جس میں امیدواران اور رائے دہندگان میں غیر مسلموں کی شمولیت اور قرآن کریم کی بجائے دوسری آسمانی کتب پر حلف اٹھانے جیسے امور شامل تھے امامرح   کو جیسے ہی اسکی اطلاع ملی امامرح   شاہ  کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے جسکا اثر یہ ہوا کہ بل پہ عملدرآمد روک دیا گیا۔

انقلاب کے لیئے اگلا پیش خیمہ 1963 میں یوم عاشور کے موقع پر امام کا وہ خطاب ثابت ہوا جس میں انہوں نے شاہ کے اسرائیل کے ساتھ خفیہ تعلقات کا پردہ چاک کیا قم مرگ بر شاہ کے نعروں سے گونجنے لگا امام کو گرفتار کر لیا گیا لوگوں میں اشتعال مزید بڑھا تو حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیالیکن عوام اپنے رہبر کے بغیر رہنے پہ آمادہ نہ تھے عوامی دباو پر امام کو رہا کر دیا گیا لیکن اب دیر ہو چکی تھی امام کی انقلابی فکر شاہ کی ظلم سہتی ایرانی عوام کو اپنا گرویدہ بنا چکی تھی ایسی صورتحال میں 1964 میں ایک اور بل منظور کیا گیا جس میں ایران کے اندر امریکی فورسز کی تعیناتی کے لیئے تمام رکاوٹوں کا خاتمہ تھا امام خمینیرح   نے ایک طاغوت شکن خطاب کے ذریعے  اس بل کی زبردست مخالفت کی شاہ کی حکومت امام کی اس مزاحمت سے سخت تذبذب کا شکارتھی  امام کی گرفتاری کا تجربہ ناکام ہو چکا تھا شاہ کے پاس اب ایک ہی رستہ بچا تھا سو اس نے وہ آزما دیا 4 اکتوبر 1964 کو امام کو جلا وطن کر دیا گیا جلا وطنی کے دوران امامرح  ترکی، نجف اشرف اور پیرس میں قیام پذیر رہے  لیکن ان تمام تر مشکلات کے باوجود امام اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے  اس دوران امام کے فرزند کو شہید کر دیا گیا  امام کا عزم و حوصلہ دیدنی تھا  پائے استقلال میں ذرا برابر بھی لغزش لائے بغیر اپنے مشن کو آگے بڑھاتے رہے ۔

بالآخر 14 سال کی جلا وطنی کے بعد یکم فروری 1979 کو امام تہران کے مہر آباد پہ اترے تو مناظر دیدنی تھے عوام  اپنے محبوب لیڈر کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے بے تاب تھے بختیار کی حکومت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اپنے رہبر کی آواز پہ لبیک کہتی ایران کی انقلابی عوام نے شاہی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی11 فروری کا سورج انقلابِ اسلامی کی نوید لے کر طلوع ہوا۔

اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ امام خمینی رح کی فکر اور انکے راہنما اصولوں پر گامزن امام راحل کے نظریاتی و معنوی فرزند آیت ۔۔۔العظمی سید علی خامنہ ای دامت برکاتہ کی بابرکت قیادت میں ایران تیزی سے ترقی کے زینے طے کرتا دنیا بھر میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔

انقلابِ اسلامی نے جہاں دنیا بھر میں اسلام و مسلمین کو سربلند رکھا وہیں اہلِ اسلام کو ایسے فرزند بھی عطا کیئے جنہوں نے سرافرازی کا درس کربلا سے حاصل کیا تھا  آج جب انقلابِ اسلامی اپنی  41ویں بہاردیکھ رہا ہے  ہمارے درمیان وہ دلوں کا سردار موجود نہیں جس نے اپنی جان اس خطے کے امن و امان پہ قربان کر دی در حقیقت فرزندِ انقلاب، مدافعِ اسلام و مسلمین شہید حاج قاسم سلیمانی کی شہادت نہ صرف عالمِ اسلام بلکہ پوری انسانیت کے لیئے ایک بہت بڑا خسارہ ہے آج دنیا تکفیری فتنے داعش سے چھٹکارے کو شہید سلیمانی کی فدا کاریوں کا مرہون منت سمجھتی ہے  نیا مشرقِ وسطی بنانے کے ناپاک و منحوس امریکی و صیہونی عزائم کو خاک میں ملانے والے سردار قاسم سلیمانی کو ایک بزدلانہ حملے میں شہید کر کے امریکہ یہ سمجھ رہا تھا کہ انقلابِ اسلامی اب اپنے پاوں پہ کھڑا نہیں رہ پائے گا  لیکن سچ تو یہ ہے کہ 11 فروری 1979 کو اسلامی انقلاب کا جو نور چمکا تھا شہید قاسم  نے 3 جنوری 2020 کی صبح بغداد میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اسے جلا بخشی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔پھونکوں سے یہ چراغ  بجھایا نہ جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

four × 2 =