دسمبر 13, 2024

ایرانی حملہ

تحریر: عبدالحمید  

تین روز کی سخت کشیدگی کے بعد پاکستان اور ایران کے تعلقات بہتری اور مکمل بحالی کی جانب گامزن ہیں۔دونوں ممالک نے اپنے اپنے سفیروں کو واپس پہنچنے کو کہا ہے۔

29جنوری کو ایران کے وزیرِ خارجہ ممکنہ دورے پر پاکستان پہنچ رہے ہیں۔یہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب ایران نے پاکستان کے صوبہ بلوچستان پر میزائلوں سے حملہ کیا جس میں دو بچیاں شہید اور تین بچیاں زخمی ہوئیں۔

ایران کی طرف سے ایک دوست برادر اسلامی پڑوسی ملک کے خلاف بلا اشتعال جارحانہ کارروائی انتہائی غیر مناسب اور ننگی جارحیت کہی جا سکتی ہے۔

یہ کارروائی یوں بھی قابلِ مذمت ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین اچھی ہمسائیگی کے تعلقات قائم ہیں اور رابطے کے کئی چینلز موجود ہیں۔جب یہ افسوس ناک واقعہ ہوا اس سے دو گھنٹے پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ اور پاکستان کے عبوری وزیر اعظم کے درمیان ڈیووس میں ملاقات ہوئی،اسی وقت پاکستان نیوی اور ایرانی نیوی آبنائے ہُرمز میں مشترکہ مشقیں کر رہی تھیں اور ہاٹ لائن وسفارتی ذرائع موجود تھے ۔

پاکستان نے ایرانی بلا اشتعال حملے پر ایرانی سفارت کار کو وزارتِ خارجہ میں طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا اور پاکستانی سفیر کو پاکستان واپس بلوا لیا۔ایران کی جانب سے پہلے روز مثبت ردِعمل سامنے نہ آیا۔

ایران کا کہنا تھا کہ اس نے بلوچستان میں جیش العدل کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔کوئی پاکستانی بھی ایران کو دشمن ملک نہیں گردانتا لیکن اس جارحیت کی بالکل بھی حمایت ممکن نہیں۔

پاکستان نے احتجاج کے بعد حوصلے سے انتظار کیا کہ ایران کی جانب سے غلطی کا اعتراف ہو اور دوستی کا ہاتھ بڑھے لیکن ایسا نہ ہوا بلکہ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنے پہلے بیان میں کہا کہ ایسی کارروائی آیندہ بھی ہو سکتی ہے۔

ایسے میں پاکستان نے ایران کے ساتھ تمام اعلیٰ سطح کے رابطے معطل کر دئے لیکن احتیاط کا دامن تھامے رکھتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع نہیں کیے۔چونکہ مثبت جواب نہیں آ رہا تھا تو انتہائی جچے تلے انداز میں جواب دینے کا فیصلہ کیا گیا اور ایرانی صوبہ بلوچستان و سیستان کے اندر بی ایل اے اور بی ایل ایف کے سات ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔پاکستان کا حملہ اتنا موثر تھا کہ بی ایل اے اور بی ایل ایف نے تسلیم کیا کہ ان کے لوگ مارے گئے۔

پاکستانی افواج خاص کر پاکستانی ایئر فورس کی پروفیشنل صلاحیت لائقِ تحسین ہے۔کامیاب حملے کی تمام تر ذمے داری افواجِ پاکستان کے سر ہے۔بھارت نے جب رات کے اندھیرے میں پلوامہ کا بہانہ بناتے ہوئے پاکستان پر حملہ کیا تھا تو یہ پاکستان ایئر فورس ہی تھی جس نے بھارت کے دو جہاز مار گرائے اور ایک پائلٹ ابی نندن کو دبوچ لیا۔ اگلے روز بھارتی ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنا کر اپنی برتری کا واضح پیغام دیا۔

پاکستان کی سلامتی کو کئی ایک چیلنجز درپیش ہیں۔ہماری معیشت تباہ حال ہے سیاسی افراتفری چھائی ہوئی ہے۔ہم ایک ایسی قوم ہیں جو باہم دست و گریباں ہے۔افغان جنگ نے پاکستانی معیشت اور معاشرت پر برے اثرات مرتب کیے ہیں۔

بھارت کے ساتھ پاکستان کا ایک لمبا بارڈر ہے۔جموں و کشمیر میں سیز فائر لائن پر قدرے امن ہے لیکن مئی میں بھارت میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔

پاکستانی انتخابات میں بھارت کبھی ایک ایشو نہیں رہا لیکن بھارت کی اکثر سیاسی پارٹیاں خاص کر بی جے پی اپنے ووٹ بینک کو بڑھانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

اگر صرف الزام تراشی سے کامیابی یقینی نہ نظر آئے تو سرحد پر اشتعال انگیزی شروع ہو جاتی ہے۔بھارت نے ویسے بھی کبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اس لیے اس محاذ پر ہمیں ہر وقت چوکس رہنا پڑتا ہے۔We can not afford to lower our guard on this front.

کسی پاکستانی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ رات کے اندھیرے میں ایران،پاکستان پر حملہ کر دے گا۔جب پاکستان نے بہت جچا تلا لیکن انتہائی موثر جواب دیا تو ایران کی طرف سے مثبت پیغام آنے لگے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایران نے ایسا کیوں کیا۔

اس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ایران نے پاکستان پر حملے سے پہلے شام اور عراق میںکئی ٹھکانوں پر حملہ کیا۔شام اور عراق دونوں ایران کے قریبی شیعہ دوست ممالک ہیں۔ایران کا شام عراق اورپھر پاکستان پر حملہ کسی شدید دباؤ کا نتیجہ لگتا ہے۔ایرانی انقلاب کے چند ہی مہینوں میں انقلاب کو محفوظ رکھنے کے لیے ایرانی پاسدارانِ انقلاب کا قیام عمل میں لایا گیا۔یہ پاسداران انقلاب،ایرانی سپریم لیڈر کے علاوہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں۔

یہ ایرانی سیاسی حکومت کو رپورٹ نہیں کرتے۔فنڈز کی ان کے پاس کوئی کمی نہیں۔ان کے عزائم بہت بلند ہیں یہ ایرانی اسٹیبلشمنٹ اور ڈیپ اسٹیٹ ہیں۔

جس طرح سات اکتوبر کو حماس کے ملٹری ونگ نے اسرائیل پر اپنی سیاسی قیادت کو بتائے بغیر حملہ کیا بالکل اسی طرح پاسدارانِ انقلاب اپنی حکومت کو بتائے بغیر کارروائیاں کرتے ہیں اور ان کی لاج رکھنے کے لیے ایرانی منتخب حکومت ان کارروائیوں کو سپورٹ اور جواز مہیا کرنے لگتی ہے۔یہ ایرانی حکومت کی مجبوری ہے۔

جنرل قاسم سلیمانی پاسداران کے بہت بڑے ہیرو تھے۔انھوں نے عراق،شام لبنان یمن ،پاکستان اور عرب ممالک میں اپنے Assetsپیدا کر رکھے تھے۔جنرل قاسم سلیمانی کا قتل،ایران کے سب سے اعلیٰ نیوکلیئر سائنسدان کا قتل، اسرائیلی موساد کا تہران کے انتہائی نگہداشت والے دفتر سے ایٹمی راز والی فائلوں کا اڑا لے جانا اور جنرل قاسم سلیمانی کی برسی پر دو دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 95افراد کا مارا جانا اور211کا زخمی ہونا،ایرانی انٹیلی جنس اور پاسداران کے لیے بہت بڑی Embarrasmentبن گئی تھی۔

ایران نے اسرائیل کو دھمکیاں دی تھیں کہ اگر اس نے حماس کے خلاف جنگ بند نہ کی تو اسرائیل کے لیے بہت برا ہوگا۔اسرائیل نے جنگ اور فلسطینیوں کا قتلَ عام جاری رکھا اور ایران نے کچھ بھی نہیں کیا۔ غزہ کی پٹی کو ذبح ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا ۔

پاسداران انقلاب نے اپنے آپ کو منوانے اوراپنی طاقت دکھانے کے لیے عراق اور شام پر حملہ کر دیا۔ حملوں کی کامیابی پر پاسداران نے مزید آگے بڑھ کر پاکستان کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔وہ یہ بھول گئے کہ پاکستان عراق یا شام نہیں۔پاسداران امریکا اور اسرائیل کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ دیکھ لو اگر ہمارے میزائل اور ڈرون اتنے دور پہنچ رہے ہیں تو یہ تل ابیب اور گلف میں امریکی اڈوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔

اگر ایرانی اقدام شام اور عراق تک محدود رہتا تو ایرانی پیغام موئثر ہوتا لیکن پاکستان پر حملے کے نتیجے میں پاکستان کے بھرپور جواب نے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ثابت ہو گیا کہ اگر پاکستان ایران کو منہ توڑ جواب دے سکتا ہے تو امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ قوت کے آگے کیا ٹھہرے گا۔ایران نے پاکستان پر حملہ کر نے کی غلطی کی۔خواہ مخواہ ایک دوست مسلمان ملک کو خفا کیا ۔

 

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

4 × five =