اکتوبر 9, 2024

اپنے گریبانوں میں جھانکیں!

تحریر: سید اعجاز اصغر

1765 تا 1815 کے درمیان برطانوی ہر سال تقریبا ایک کروڑ اسی لاکھ پونڈ ہندوستان سے نکالتے رہے، لندن میں فرانسیسی سفیر کاسٹے ڈی چیٹلیٹ نے لکھا یورپ میں چند بادشاہ ہی ہیں جو انگلش ایسٹ انڈیا کمپنی کے ڈائریکٹرز سے زیادہ امیر ہونگے، ایسٹ انڈیا کمپنی کیطرف سے عام طور پر آمدنی کا کم از کم 50 فیصد ٹیکس اتنا جابرانہ، ظالمانہ تھا کہ اٹھارویں صدی کے آخر میں انگریزوں کے زیر اقتدار دو تہائی آبادی اپنی زمینیں چھوڑ کر بھاگ گئیں، ڈیورنٹ لکھتا ہے کہ ٹیکس نادہندگان کو پنجروں میں قید رکھا جاتا تھا، اور جلتے سورج کے سامنے کھڑا کیا جاتا تھا، بڑھتے ہوئے نرخوں سے جدوجہد کرتے باپ اپنے بچوں کو فروخت کر دیتے، غیر ادا شدہ ٹیکس کا مطلب یہ ہےکہ ادائیگی کے لئے اذیت برداشت کرنا اور بے سروسامان مظلوم کی زمین کو ضبط کرلیا جاتا تھا۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے تاریخ میں پہلی بار اپنے روایتی ذریعہ رزق سے محروم کرکے بے زمین کسان پیدا کئے، ستم ظریفی یہ ہےکہ ماضی میں ہندوستانی حکمرانوں نے اپنی حکومتوں کو بڑے پیمانے پر کاشتکاروں پر ٹیکس لگانے سے نہیں بلکہ علاقائی اور عالمی دونوں طرح کے تجارت کے نیٹ ورکس کو استعمال کرنے سے بھی روک دیا تھا، ایسٹ انڈیا کمپنی کا لوٹ مار کا ردعمل اس مروجہ معمول سے بالکل الٹ تھا، ایسا نہیں کہ ہندوستان میں بدعنوانی اور کرپشن نہیں تھی، مگر انگریزوں کے تحت کرپشن، بدعنوانی مزید بڑھتی گئی، خاص طور پر چونکہ ہندوستان سے ایسی ٹیکس کی وصولی کی جاتی جو ان کی استطاعت سے زیادہ تھی، باقی رشوت ڈکیتی اور یہاں تک کہ قتل کے ذریعے بھی لوٹ مار کا بازاد گرم رہا، آکسفورڈ ہسٹری آف انڈیا کے 1923 کے ایڈیشن میں تحریر درج ہے کہ ہر کوئی ہر چیز برائے فروخت تھی، یعنی سرمایہ کار ہندوستان چھوڑ کر جوق در جوق بھاگ رہے تھے۔

پاکستان 11 جولائی 1950 کو آئی ایم ایف کا رکن بنا، آئی ایم ایف کے 190 رکن ممالک پر مشتمل ادارہ ہے، 1944 میں امریکہ میں ہونیوالی بریٹن ووڈ کانفرنس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کے ادارے کو قائم کیا گیا، تاکہ جنگ عظیم کے بعد عالمی معیشت کو مستحکم کیا جا سکے، یہ ادارہ 1970 تک قائم رکھنے کا معاہدہ ہوا تھا مگر اسکے عزائم اور ارادے بدلتےگئے، اس کی توسیع کردی گئی، آئی ایم ایف کے اراکین ایک فکسڈ ایکسچینج ریٹ پر متفق ہوئے تھے، بدقسمتی سے ماسوائے پاکستان کے یا چند دوسرے ممالک کے باقی تمام رکن ممالک نے آئی ایم ایف سے مستفید ہو کر اپنے اپنے ممالک کو ترقی یافتہ بنا دیا۔

اب 1950 کے بعد اللہ تعالٰی کا لاکھ شکر ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے بڑی بہادری سے اپنے گریبان میں جھانکنے کا نعرہ لگایا ہے، اور کہا کہ کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ کن وقت آگیا ہے، چلو دیر آید درست آید ہی سہی، یہ تو اعتراف کیا ہے کہ 750 پچاس ارب روپے کے سیلز ٹیکس ہڑپ کئے جا چکے ہیں اقوام عالم میں آج ہماری وہ حیثیت نہیں جو پاکستان کی ہونی چاہئے، یہ بھی جناب میاں شہباز شریف صاحب نے فرمایا ہے کہ ٹیکس کی آڑ میں 24 کھرب روپے کھائے جا رہے ہیں صرف 9 ارب روپے خزانے میں جمع ہو رہے ہیں، لاکھوں سلام ہے جناب میاں شہباز شریف صاحب کو جنہوں وہ نعرہ لگایا ہے جو کبھی قیدی نمبر 804 جناب عمران خان صاحب لگاتے تھے، اب وہ تو اڈیالہ جیل میں مقید ہیں چلو ان کا بیانیہ اور نعرہ میاں شہباز شریف نے لگا لیا ہے تو قدم بڑھاو شہباز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں، عمران خان کو رہا کریں یا نہ کریں اپنے بیان کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے گریبان کو جھانکنے کی تصدیق کریں کہ ظالمانہ ٹیکس غریبوں کی بجائے ان لوگوں پر عائد کرنے کا عہد کریں جنہوں نے 1950 سے لیکر آج تک آئی ایم ایف سے قرض لے لے کر اپنی تجوریاں بھر بھر کر وطن عزیز پاکستان کو بے دردی سےدیوالیہ کردیا ہے، اور اس دیوالیہ پن کا اعتراف جناب خواجہ آصف صاحب اپنے آبائی شہر کے دورہ کے دوران کر چکے ہیں، میاں شہباز شریف صاحب ان بددیانتوں ،بدعنوانوں اور کرپٹ افراد کی گردنوں میں شکنجہ ڈالیں ان کے خزانے جو بیرون ممالک میں پڑے ہوئے پاکستان میں واپس لاکر وطن عزیز کی تقدیر بدلنے میں کردار ادا کریں، غربا اور مساکین اور یتیم لوگوں کی رگوں کو کاٹنے کی بجائے کرپٹ اشرافیہ اور کرپٹ امیر طبقہ کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے، جو جہاں جائز کمائی سے کاروبار کرنا چاہتے ہیں ان کو سہولیات فراہم کی جائیں ان پر ٹیکس کا بوجھ بہت کم عائد کیا جائے ورنہ آپ کا شمار بھی ایسٹ انڈیا کمپنی میں ہوگا، بہت اچھا بیان دیا ہے کہ ایسے کارنامے کرونگا کہ ہندوستان نہیں ہندوستان کے باپ کو بھی پیچھے چھوڑ دینگے، ایک قدم اور آگے بڑھائیں کہ عہد کریں ملک میں ججوں کو اغوا نہیں کیا جائے گا، صحافیوں کو یرغمال نہیں کیا جا ئے گا، قابل ایمان دار ملازمین، وکلا، افسران، کو عزت اور تحفظ دیا جائے گا، عدالت میں انصاف کے عمل کو ترجیح دی جائے گی، تاجروں کو تحفظ دیا جائے گا اور تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی، ٹیکس نیٹ کو اولین ترجیحات کی بنیاد پر شفافیت کو مقدم رکھا جائے گا اور سب سے پہلے جن لوگوں نے ملکی خزانے کو بے دردی سے لوٹا ہے ان کا احتساب کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے گا،اگر یہ لوٹی ہوئی رقم واپس آجاتی ہے تو آئی ایم ایف کا قرضہ بغیر ٹیکسوں کی ظالمانہ اور غیر منصفانہ بھرمار سے ادا ہو جائے گا۔

میاں شہباز شریف صاحب قوم کو بتایا جائے کہ 1950 میں پاکستان آئی ایم ایف کا رکن تو بن گیا تھا مگر پاکستان کی تقدیر بدلنے کی بجائے کرپٹ حکمرانوں کی تقدیر بدل گئی وہ دن بدن امیر ہوتے گئے اور پاکستان مقروض ہوتا گیا، جس کا قرض اتارنے کے بجلی مہنگی کردی گئی، زرعی شعبے کا ستیاناس کردیا گیا، تمام اداروں کو نجی کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا، وزیراعظم میاں شہباز شریف صاحب مذکورہ بالا قوم کی دردناک آواز کو اپنے کانوں سے غور سے سماعت فرمائیں محض زبانی کلامی اپنے گریبانوں کو جھانکنے کا نعرہ نہ لگائیں ورنہ جس طرح ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور اقتدار میں لوگ اپنی زمینیں اور کاروبار چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اسی طرح تو آج نہیں بلکہ کافی عرصہ سے پاکستان کی تاجر برادری اپنی سرمایہ کاری بیرون ممالک میں منتقل کر چکی ہے اور اگر ظالمانہ و غیر منصفانہ ٹیکسوں کا سلسلہ نہ رکا تو باقی جو رہ گئے ہیں وہ بھی جانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں، اور آپ اداروں کی نجکاری کرنے میں لگے ہوئے ہیں کیونکہ یہ ادارے خسارے کا باعث بن رہے ہیں یہ تو کوئی حل نہیں۔

جناب میاں شہبازشریف صاحب، اداروں کو تباہ کرنے والوں کا سراغ لگائیں، ان کا کڑا احتساب کریں، یہ ادارے ہمارے ملک کی پہچان اور وقار کی علامت ہیں، ان اداروں کوغیرملکیوں کی تحویل میں دینا مسئلے کا دائمی حل نہیں ہے ، یہ آئی ایم ایف کے اشاروں کی بنا پر تو پاکستان کو آہستہ آہستہ غیر ملکیوں کے ہاتھوں میں دینے کا عندیہ ہے، غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ان حالات میں دعوت دینا بے سود ہوگا، پہلے اپنے گھر کو تو سنوارنے کا بندوبست کرلو، امید ہے جناب میاں شہباز شریف صاحب اپنے گریبان کو جھانکتے ہوئے خود احتسابی اور1950سے لیکر آج تک کے کرپٹ حکمرانوں کے احتساب کا بھی بہت دلیری دے نعرہ لگا کر قوم کے ہردلعزیز و مقبول لیڈر بن جائیں گے، اللہ تعالٰی آپ کو سلامت رکھے، عمر دراز کرے تاکہ ہم ہندوستان نہیں بلکہ ہندوستان کے باپ کو بھی ترقی کرتے ہوئے پیچھے چھوڑ جائیں، آمین ثم آمین!

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 × 5 =