اکتوبر 8, 2024

امام حسن علیہ السلام منجی اسلام

تحریر: علی سردار سراج

گزر تاریخ کے ساتھ ظالم بے نقاب ہوتا ہے اور اس کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے ۔
بعد والے لوگ جب ماضی کے ظالم کو اصلی روپ میں دیکھتے ہیں تو تعجب کرتے ہیں، کہ کس طرح اس زمانے کے لوگوں نے اس ظالم کے ساتھ دیا تھا؟!!
حالانکہ اکثر اوقات وہ خود بھی ایسے ہی ایک ظالم شخص یا سسٹم کے حامی ہوتے ہیں جن پر آئندہ کے لوگ تعجب کریں گے ۔
عام خیال یہ ہوتا ہے کہ فرعون اس زمانے کے تمام لوگوں کے سامنے ایک شناختہ شدہ ظالم ہونے کے باوجود لوگوں نے اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہونگے ۔
ایسا ہرگز نہ تھا۔
فرعون کے جس چہرے سے آج دنیا آشنا ہے وہ اس زمانے کے لوگوں کے لئے اس کا باطن تھا ۔
اس زمانے کے عوام الناس
کے نزدیک فرعون نہ فقط اللہ تعالی کے مقربین میں سے تھا بلکہ وہ خود ان کا سب سے بڑا رب تھا ۔
لوگ اس کی حکومت اور اقتدار کو اس کی حقانیت کی دلیل سمجھتے تھے ۔ (اور عام لوگ آج بھی اقتدار اور طاقت کو حق کی دلیل سمجھتے ہیں اور یہ ہمیشہ سے عوامی ذہن رہا ہے )
فرعون اس عوامی سوچ سے آشنا تھا ۔
لہذا وہ بھی اپنی شان و شوکت کو اپنی حقانیت کی دلیل کے طور پر پیش کرتا تھا ۔
وَنَادَىٰ فِرْعَوْنُ فِى قَوْمِهِۦ قَالَ يَٰقَوْمِ أَلَيْسَ لِى مُلْكُ مِصْرَ وَهَٰذِهِ ٱلْأَنْهَٰرُ تَجْرِى مِن تَحْتِىٓ ۖ أَفَلَا تُبْصِرُونَ
اور فرعون نے اپنی قوم سے پکار کر کہا اے قوم کیا یہ ملک مصر میرا نہیں ہے اور کیا یہ نہریں جو میرے قدموں کے نیچے جاری ہیں یہ سب میری نہیں ہیں پھر تمہیں کیوں نظر نہیں آرہا ہے
43-Az-Zukhruf : 51
لوگ فرعون کے مقابلے میں قیام کو رب کے مقابلے میں قیام سمجھتے تھے ۔
کیونکہ وہ فرعون کے ظاہری جاہ و جلال اور اس کے خبث باطنی کے درمیان تشخیص نہیں دے سکتے تھے ۔

◼️اسی طرح اسلام کی تاریخ میں منافقین بھی کوئی شناختہ شدہ گروہ نہیں تھا۔
ان کا ظاہر بہت زیبا اور باطن بہت ہی وحشت ناک تھا ۔
قرآن مجید ان کی تصویرکشی اس طرح کرتا ہے ۔
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُۥ فِى ٱلْحَيَوٰةِ ٱلدُّنْيَا وَيُشْهِدُ ٱللَّهَ عَلَىٰ مَا فِى قَلْبِهِۦ وَهُوَ أَلَدُّ ٱلْخِصَامِ۔
انسانوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کی باتیں زندگانی دنیا میں بھلی لگتی ہیں اور وہ اپنے دل کی باتوں پر خدا کو گواہ بناتے ہیں حالانکہ وہ بدترین دشمن ہیں
2-Al-Baqara : 204
اسلام نے جب جزیرہ نما عرب میں ظاہر ہو کر لوگوں کو توحید کی طرف دعوت دی تو سب سے پہلے شیطان اور سرداران مشرکین مکہ اس بات کو سمجھ گئے کہ اس ندا میں ان کی نابودی ہے۔
امام علی علیہ السلام پہلی وحی کی روداد یوں بیان کرتے ہیں ۔
جب آپؐ پر (پہلے پہل) وحی نازل ہوئی تو میں نے شیطان کی ایک چیخ سنی جس پر میں نے پوچھا کہ: یا رسول اللہؐ! یہ آواز کیسی ہے؟ آپؐ نے فرمایا کہ: «یہ شیطان ہے کہ جو اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے۔ (اے علیؑ!) جو میں سنتا ہوں تم بھی سنتے ہو اور جو میں دیکھتا ہوں تم بھی دیکھتے ہو، فرق اتنا ہے کہ تم نبی نہیں ہو بلکہ (میرے) وزیر و جانشین ہو اور یقیناً بھلائی کی راہ پر ہو»۔( نہج البلاغہ خطبہ 190)
لہذا قریش اسلام کو مٹانے کے لئے یکجا ہوگئے، لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ انہیں ناکامی اور رسوائی کے سوا کچھ نہ ملا، تو انہوں نے اسلام سے مقابلے کے لئے رنگ تبدیل کیا ۔
لہذا زر و زور کی جگہ تزویر نے لے لی ۔
اب اسلام اور پیغمبر اکرم کا مقابلہ ایسے لوگوں سے بھی ہے جن کا ظاہر تو اسلامی لیکن باطن وہی کفر اور الحاد ہے۔
اور اللہ تعالی نے اپنے حبیب کو کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دیا ۔
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ جَٰهِدِ ٱلْكُفَّارَ وَٱلْمُنَٰفِقِينَ وَٱغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ وَمَأْوَىٰهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَبِئْسَ ٱلْمَصِيرُ
پیغمبر !کفار اور منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے کہ ان کا انجام جہنّم ہے جو بدترین ٹھکانا ہے
9-At-Tawba : 73
جہاد سے مراد لازمی طور پر قتال اور جنگ نہیں ہے ۔
بلکہ دشمن کے مقابلے میں انتہائی سعی و تلاش اور جدوجہد کا نام ہے ۔
جو ایک طاقت فرسا کام ہے ۔
جس میں حق اور اہل حق کا عمدہ اسلحہ، ایمان، بصیرت، علم اور آگاہی ہے۔
اور اہل کفر اور نفاق کا عمدہ حربہ، زر ، زور اور تزویر ہے ۔
معاشرہ جس قدر مومن ،بصیر، عالم اور آگاہ ہوگا اسی حساب سے کفر اور نفاق کا خاتمہ ہوگا ۔
اور یہ کوئی ایسا ہدف نہیں ہے جو فوری طور پر حاصل ہو جائے بلکہ یہاں پر صبر اور حوصلے کے ساتھ انسان اور انسانی معاشرے کی تعلیم، تربیت اور تزکیہ پر توجہ دی جاتی ہے ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ فریضہ خوش اسلوبی سے انجام دیتے رہے ۔ لیکن اسلام کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ نفاق میں بھی گہرائی اور عمق آتا گیا۔
یہاں تک کہ اہل نفاق اس میں سپیشلسٹ ہوگئے۔
چنان کہ خواص کے لئے بھی ان کی شناخت ناممکن ہوتی گئی ۔
وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ ٱلْأَعْرَابِ مُنَٰفِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ ٱلْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا۟ عَلَى ٱلنِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ.
اور تمہارے گرد دیہاتیوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں -عنقریب ہم ان پر دوہرا عذاب کریں گے اس کے بعد یہ عذاب عظیم کی طرف پلٹا دئیے جائیں گے
9-At-Tawba : 101
پیغمبر اکرم کے بعد امام علی علیہ السلام نے اور ان کے بعد امام حسن مجتبی علیہ السلام نے منافقین کے ساتھ جہاد کو جاری رکھا ۔
اس جہاد میں ان کا سامنا باغی جماعت کے اس سرغنہ سے ہے جس کے پاس کئی سالوں سے شام کے وسیع علاقے کی حکومت رہی ہے ۔
جس میں مادی امکانات کے ساتھ ساتھ افرادی قوت کی بھی فراوانی ہے ۔
ایسے افراد جن کی تربیت ہی پیغمبر اکرم کے اہل بیت بالخصوص علی علیہ السلام سے دشمنی پر ہوئی ہے۔(1)
وہ لوگ خاندان ابو سفیان کو ہی پیغمبر اکرم کے اہل بیت سمجھتے ہیں۔(2)
ان کی آندھی تقلید کا یہ عالم ہے کہ جمعہ کی نماز بدھ کو پڑھانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ (3)
معاویہ نے اپنے آپ کو عثمان کے خون کا وارث بنا کر پیش کیا ۔
اور اسلامی معاشرے میں پھوٹ ڈالنے کے لیے خلافت کے مسئلے میں علی علیہ السلام اور شیخین کے درمیان پائے جانے والے تاریخی اختلاف کو خوب اچھالتا ہے۔
جنگ جمل کی وجہ سے دو اہم اسلامی مراکز کوفہ اور بصرہ کے درمیان باہمی محبت کی جگہ کدورتوں نے لے لیا ہے ۔
عام مسلمانوں میں بصیرت کی کمی ہے لہذا وہ معاویہ کے حقیقی چہرے کو تشخیص دینے سے قاصر ہیں ۔
جنگ صفین میں عمار یاسر اس جماعت کے اصلی روپ کو دیکھاتے ہوئے فرماتا ہے “میں نے پیغمبر اکرم (ص) کی سربراہی میں جنگ بدر، احد اور حنین میں اسی سیاہ پرچم اٹھانے والوں کے ساتھ جنگ کی ہے کہ جو پرچم آج عمرو ابن عاص کے ہاتھ میں ہے۔ اور چوتھی مرتبہ آج اسی سیاہ پرچم کے مقابلے میں جنگ کررہا ہوں، میری نظر میں طرف مقابل کی حالت پہلے جنگوں کے طرف مقابل کی نسبت خراب نہ ہوئی ہے تو بہتر نہیں ہوئی ہے۔ اور آج ہمارا مقام بلکل وہی ہے جو پیغمبر اکرم (ص) کے پرچم کے سائے میں آنے والوں کا ہے اور اُن کا مقام اس زمانے کے مشرکین اور احزاب کے مقام کی طرح ہے اور معاویہ اور ان کے حواریوں کا خون، چڑیا کے خون کی طرح اپنے لیے جائز سمجھتا ہوں اور کسی قسم کے شک و تردد کا شکار نہیں ہوں۔ (4)
لیکن نیزوں پر بلند ہونے والے قرآنوں سے مجاہدین اسلام دھوکہ کھا گئے جس کے نتیجے میں علی علیہ السلام کی فوج میں ایک اور شکاف
پڑھ گیا ۔ جس کا نتیجہ جنگ نہروان کی شکل میں سامنے آیا۔
جب امام حسن علیہ السلام مسند خلافت پر بیٹھ گئے تو اکثر لوگ جنگ و جہاد سے تھک چکے تھے اور کچھ لوگ معاویہ کے وسوسوں کے مقابلے میں مقاومت نہ کر سکے ۔
ان کی فوج کا اہم کمانڈر عبیداللہ بن عباس رشوت لے کر فوج کے بارہ ہزار افراد کے ساتھ معاویہ سے ملحق ہوگئے ۔ معاویہ کے لوگ امام حسن علیہ السلام کی فوج میں پنہان ہوکر انہیں قتل کرنے کے درپے ہیں ۔
امام عالی مقام نے ان مشکلات کو دیکھتے ہوئے اپنے مبارزے کی روش کو تبدیل کیا ۔
ان کے پاس مکتب اسلام اور پیروان قرآن و اہل بیت علیہم السلام کو بچانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ بچا تھا ۔
یہ وہی راستہ تھا جس پر ان سے پہلے ان کے جد امجد رسول اسلام مشرکین مکہ کے مقابلے میں چلے تھے ۔
جس طرح وہاں پر پیغمبر اکرم نے زخم زبان برداشت کیے تھے اسی طرح آج حسن مجتبی علیہ السلام نے بھی اپنے آپ کو ناقابل التہاف زخموں کے لئے آمادہ کیا ۔
تحمیل شدہ صلح کو قبول کرکے اسلامی معاشرے کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ طلقا کے باطنی اور حقیقی چہرے کو نزدیک سے دیکھ لے ۔
تاریخ میں آیا ہے کہ معاویہ نے امام حسن(ع) کےساتھ صلح کے بعد ایک دن نماز عید کے خطبوں میں اپنے مقاصد اور اہداف سے پرده اٹھاتے ہوئے کہا:
“میں نے تم سے اس لئے جنگ نہیں کی ہے کہ آپ روزه رکھیں ٬ نماز پڑھیں٬ حج بجالائیں یا زکات ادا کریں! کیونکہ میں جانتا تھا کہ آپ یہ کام انجام دیتے ہیں٬بلکہ میں نے تم لوگوں سے اس لئے جنگ کی ہے تاکہ تم لوگوں کا امیر بن جاوں ٬ خداوند متعال نے آپ پر حکمرانی کرنا مجھے عطا کی تھی اور تم لوگ نہیں چاہتے تھے-” (5)
امام حسن علیہ السلام نے وہ سخت فیصلہ کیا جو اگرچہ ان کے بعض قریبی لوگوں پر بھی بہت شاق گزرا ۔
امام علیہ السلام نے اس سخت فیصلے کے ذریعے کئی اہم مقاصد حاصل کیے ۔
جن میں سب سے اہم مقصد بنو امیہ کے حقیقی چہرے کو لوگوں کے سامنے بے نقاب کرکے اسلام کو ان کے چنگل سے نجات دلانا تھا ۔
حقیقت امر یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین علیھما السلام ایک ہی ہدف کے تعاقب میں تھے، جو امام حسن مجتبی علیہ السلام کے صلح سے شروع ہوکر امام حسین علیہ السلام کی عظیم شہادت کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچا ۔
اور وہ ہدف یہی تھا کہ لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ یہ بظاہر مسند رسول اکرم پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا اسلام سے دور تک کوئی تعلق نہیں ہے ان کا ہدف حکومت اور اقتدار ہے ۔
ورنہ عام خیال یہی ہوتا تھا کہ یہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں اور ان کا قول و فعل اسلام ہے۔
امام حسن اور امام حسین علیھما السلام نے اپنی بے مثال قربانی سے ان لوگوں کو ظاہری حکومت تک ہی محدود کیا۔
محبان اہل بیت علیہم السلام (جو ائمہ اطہار کی امامت کو منصوص من اللہ مانتے ہیں ) کے علاوہ عموم مسلمانوں نے بھی انہیں اپنے دینی پیشوا اور رہبر ماننے سے انکار کیا ۔
لہذا دین اور دینی احکام ان ظالم اور فاسق حکمرانوں کے چنگل سے کسی حد تک آزاد ہو کر علماء کے ہاتھوں میں آگئے ۔
منصف مزاج علماء اہل سنت کو اس بات کے اعتراف میں کوئی عار نہیں ہے کہ ،آج اہل سنت کے پاس جو دین ہے وہ بھی امام حسن اور امام حسین علیھما السلام کی
بے مثال قربانی اور فدا کاری کا مرہون منت ہے ۔
وگرنہ اسلام دیمک کی طرح کھا جانے والی ملوکیت کے ہاتھوں اندر ہی اندر سے ختم ہوجاتا اور اسلام کا صرف نام رہ جاتا ۔
______________

(1):النصایح الکافیة، العمانی، ص72. ، شرح نهج البلاغه، ابن ابی الحدید، ج4، ص 73.    
(2):مروج الذهب، ج3، ص33.، النزاع و التخاصم، مقریزی، ص 28۔
(3):مروج الذهب، ج 3، ص 31.
(4): وقعه صفين, نصر بن مزاحم،ص 321.
(5):( أبو الفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقى (م 774)، البدایةوالنهایة،ج 8،ص131، نشر دار الفکر، بیروت، 1407/ 1986.ُُُُُّّّّّ)

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

five × 4 =