دسمبر 7, 2024

اسلامی نظریاتی کونسل کی شرعی حیثیت

تحریر: آصف محمود

وی پی این تو خوش قسمت تھا، بزرگوں کی ’بروقت‘ وضاحت سے دوبارہ شرعی ہو گیا۔ اس بچگانہ حیلہ سازی کے بیچ سوال اب یہ ہے کہ  اسلامی نظریاتی کونسل کی اپنی ’شرعی حیثیت‘ کیا ہے؟

بزرگان کے دست ہنر کی داد دیجیے، ٹائپنگ کی ایک ’غلطی‘ کی وضاحت میں انہوں نے چھ دن لگا دیے۔ یہ رویہ کسی عجائب گھر کو تو معتبر بنا سکتا ہے، ایک جدید ریاست اس کاہلی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔

یہ اگر ٹائپنگ ہی کی غلطی تھی تو یہ وضاحت چھ دن پہلے بھی جاری ہو سکتی ہے۔ وضاحت بتا رہی ہے کہ معاملہ محض ٹائپنگ کی غلطی نہ تھا۔ یہ ادارہ خود غلطی ہائے مضامین بن چکا ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت کیا ہے؟

یہ ادارہ نفاذ اسلام کے باب میں کی گئی ایک سنجیدہ کاوش ہے یا یہ صرف ایک ’اسلامی ٹچ‘ ہے تاکہ نیم خواندہ رعایا مطمئن رہے کہ مملکت خداداد میں اسلامائزیشن کے عمل سے خلوص کی ندیاں بہہ رہی ہیں؟

اسلامی نظریاتی کونسل بظاہر ایک بڑا شاندار ’کھلار‘ ہے لیکن عملی طور پر اس کی حیثیت وہی ہے جو خواب میں ’واؤ مادولہ‘ کی ہوتی ہے۔ ہو یا نہ ہو، فرق نہیں پڑتا۔

آئین کا ایک پورا باب اسلامی نظریاتی کونسل سے متعلق ہے۔ پڑھ کر لگتا ہے ’اسلامی انقلاب‘ بس دو چار کوس کے فاصلے پر ہے اور کسی بھی وقت دارالحکومت میں جلوہ افرز ہو سکتا ہے۔ لیکن آرٹیکل 230 کی ذیلی دفعہ 3 میں اس ‘کھلار’ کی حقیقت پڑھیں تو آئی سازوں کی ہنرکاری آدمی کو گدگدا دیتی ہے۔

اگر پارلیمان یا صدر کی جانب سے کسی قانون پر رائے مانگی جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل اس قانون کو غیر اسلامی اور غیر شرعی قرار دے تو کیا ہو گا؟

آرٹیکل 230 کہتا ہے کہ اس سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔ نہ تو وہ قانون منسوخ ہو گا، نہ ہی معطل ہو گا بلکہ اس پر صرف نظر ثانی فرمائی جائے گی۔

مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ نظر ثانی کتنی مدت تک فرمائی جاتی رہے گی۔ چنانچہ آئینی پوزیشن یہ ہے کہ یہ نظر ثانی لامحدود مدت تک فرمائی جا سکتی ہے۔ یعنی کونسل کے اختلاف کے باوجود قانون نافذ کر دو اور اس کے بعد جی چاہے تو تاحیات نظر ثانی فرماتے رہو۔

یہاں ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ نظر ثانی کے بعد بھی پارلیمان اگر اسی قانون کو برقرار رکھے تو کیا ہو گا ؟ آئین اس بارے میں خاموش ہے۔ آئین سازوں نے ’اسلامی ٹچ‘ دینا تھا دے دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران بعض اوقات اسلامی نظریاتی کونسل کو رائے کے قابل بھی نہیں سمجھتے۔ کرونا وبا کے دوران صدر پاکستان جناب عارف علوی نے جب یہ رائے لینا چاہی کہ کیا حفاظتی تدابیر کے طور پر نماز جمعہ پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو انہوں نے یہ رائے اسلامی نظریاتی کونسل سے نہیں بلکہ مصر کی جامعۃ الازہر سے مانگی۔

معلوم نہیں یہ صدر پاکستان کا نظریاتی کونسل پر عدم اعتماد تھا یا وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ عوام کی نظر میں نظریاتی کونسل بھی اتنی ہی معتبر ہے جتنی حکومت۔

آرٹیکل 228 ذیلی دفعہ 2 کے تحت علما کے ساتھ ساتھ معیشت، سیاست، قانون اور انتظامی امور کے ماہرین کو بھی کونسل کا رکن منتخب کیا جا سکتا ہے۔ وی پی این کو تو چولہے میں ڈالیے، سوال یہ ہے کہ ان دو درجن کے قریب فقیہان عصر میں کوئی انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ماہر بھی ہے؟

آرٹیکل میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ پارلیمان کا رکن صرف وہ شخص بن سکتا ہے جو امین، دیانت دار، نیک، پاک، اور پارسا ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی تعلیمات کا کما حقہ علم رکھتا ہو۔ آدمی سوچتا ہے کہ جب اس محیرالعقول پارلیمان میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے رجال کار موجود ہیں جو اتنی گوناگوں خوبیوں کے ساتھ ساتھ دین کا کما حقہ علم بھی رکھتے ہیں تو پھر اسلامی نظریاتی کونسل کی ضرورت ہی کیا ہے؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرح آرٹیکل 62 بھی صرف ایک ’اسلامک ٹچ‘ ہو اور 62 کے ٹچ پر 228 کا ٹچ لگانا پڑا ہو؟

یہی معاملہ رویت ہلال کمیٹی، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے شریعت اپیلیٹ بنچ کا بھی ہے۔ دین کا کما حقہ علم رکھنے والا، کوئی سچا، پارسا، نیک پاک، دیانت دار اور امین قسم کا پارلیمنٹیرین ہی شاید بتا سکے کہ یہ سب کچھ اسلامائزیشن کی سنجیدہ کاوش ہے یا محض اسلامک ٹچ؟

ریاست کا مملکتی مذہب اگر اسلام ہے تو کیا سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے تمام ججز کو اسلامی قانون پر عبور نہیں ہونا چاہیے؟ آخر وہ اسلامی ریاست کے اسلامی آئین کے تحت قائم آئینی عدالت کے جج ہیں۔

یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جج صاحبان تو اسی نو آبادیاتی کامن لا کے ماہرین ہی ہوں، فیصلوں میں قرآن و سنت اور اسلامی فقہ کی بجائے خلیل جبران اور جان مارشل کی گرہیں لگتی ہوں، حوالے اسلامی جورسپروڈنس کی بجائے کامن لا سے پیش کیے جاتے ہوں اور اسلامک ٹچ کے طور پر متوازی شرعی عدالت بنا لی جائے جس کا پھر دس دس سال بنچ بھی نہ بن سکے اور اس میں تیس تیس سال سے مقدمے پڑے ہوں کہ بنچ بنے تو سماعت ہو۔

محسوس یہ ہوتا ہے کہ اسلامی نظام کا مطالبہ چونکہ اہل مذہب کا تھا، اس لیے ’اسلامک ٹچ‘ کے طور پر مختلف ادارے بنا کر انہیں اکاموڈیٹ کر لیا گیا۔ کچھ مناصب بھی عطا ہو گئے۔ عوام کو تاثر دیا گیا کہ دیکھیے ہم نفاذ اسلام کے لیے اتنے مخلص ہیں کہ پارلیمان قانون سازی سے پہلے اسلامی نظریاتی کونسل سے شرعی رہنمائی طلب کرتی ہے اور دیکھیے ہمارے ہاں تو رویت ہلال کمیٹی بھی ہے اور چاند بھی علما چڑھاتے ہیں۔

اسلامک ’ٹچ سسٹم‘ کی اس ہنر کاری میں، سوال وہی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی اپنی شرعی حیثیت کیا ہے؟

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

8 + 1 =