اکتوبر 5, 2024

آزاد کشمیر اور وفاق میں بجلی ٹیرف کا تنازعہ ۔۔؟

تحریر: عمر فاروق
آزاد کشمیر کے وزرا ء حکومت عبدالماجد خان،چوہدری ارشد حسین، چوہدری یاسر سلطان،دیوان علی چغتائی،چوہدری اخلاق احمد،چوہدری اظہر صادق اور ملک ظفر اقبال نے حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر کے بجلی کے ٹیرف میں ہونے والے اضافہ کومسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں حالیہ اضافہ حکومت آزاد کشمیر،واپڈا اور حکومت پاکستان کے مابین ہونے والے منگلا ڈیم کی تعمیر کے معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت واپڈا آزاد کشمیر کے عوام کو رعایتی قیمتوں پر بجلی فراہم کرنے کا پابند ہے۔ بجلی کے ریٹ کبھی بھی یکطرفہ طور پر نافذ نہیں ہوسکتے یہ دو حکومتوں کے مابین ایک حل طلب معاملہ ہے اسے مذ اکرات اور ریکارڈ کی روشنی میں طے کیا جانا چاہیے۔
تحریک انصاف آزادکشمیرکی حکومت قوم پرستوں کے پروپیگنڈہ کاشکارہے یاپھرجان بوجھ کرعمران خان کی سیاسی جنگ کوآزادکشمیرکے مالی معاملات کے ساتھ نتھی کرنے کی کوشش کررہی ہے کیوںکہ آزادحکومت عوام کومکمل حقائق سے آگہی دینے کی بجائے پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہے ۔منگلاڈیم کے حوالے سے ہمارے وفاق کے ساتھ تین معاملات ہیں واٹریوزچارجز،رائلٹی اوربجلی کاٹیرف ۔اگران معاملات کاباریک بینی اوراعدادوشمارکے ساتھ مکمل جائزہ لیاجائے توکہیں بھی ایساتاثرنہیں ملتاکہ وفاق آزادکشمیرکے حقوق پرڈاکہ ڈال رہاہے ۔
منگلاڈیم کی تعمیر1962 میںشروع ہوئی اور 1967میں مکمل ہوئی، یہ اس وقت تک پاکستان کا دوسرا بڑاڈیم ہے ۔اس سے زیادہ سے زیاد 15سو میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے، جو پاکستان کی 22ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، تاہم منگلا سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے،،جس کا دارومدار دریائے جہلم میں پانی کے بھائو پر منحصر ہے ۔
آزاد کشمیر کے دریائوں میں بہنے والے پانی کی ملکیت حکومت آزاد کشمیر کی ہے۔ پاکستان اس پانی کو استعمال کرنے کی وجہ سے اس کی قیمت(واٹریوزچارجز) ادا کرتاہے۔ اس کی قیمت وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ تاہم رائج الوقت معاہدے کے تحت 42 پیسے فی کیوبک فٹ کے حساب سے آزاد کشمیر حکومت کو وفاقی حکومت واٹریوزچارجزکی ادائیگی کررہی ہے۔
 آزاد کشمیر حکومت کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران اس مد میں آزاد حکومت کو 70 کروڑ روپے ملنے کی توقع ہے۔ گزشتہ مالی سال بھی اس مد میں 70 کروڑ روپے ہی ملے، دوہزار اکیس میں68 کروڑ روپے، دوہزار بیس میں 65کروڑ روپے، دوہزار انیس میں1 ارب دس کروڑ روپے، دوہزار اٹھارہ میں1 ارب روپے، دوہزار سترہ میں 1 ارب بیس کروڑ روپے، دوہزار سولہ میں1 ارب روپے اور دوہزار پنددہ میں 74 کروڑ روپے وفاق کی جانب سے آزادکشمیرکودئیے گئے۔اب یہ سوال پی ٹی آئی کی حکومت سے بنتاہے کہ جب وفاق میں ن لیگ کی حکومت تھی توواٹریوزچارجزکی مدمیں زیادہ رقم ملی اورجب وفاق میں پی ٹی آئی کی حکومت آئی تویہ رقم کم کیوں ہوگئی ۔ ؟
 منگلا ڈیم سے بننے والی بجلی کی رائیلٹی بھی گزشتہ 55 سالوں سے آزاد کشمیر وصول کررہاہے، یہ رائیلٹی آزاد کشمیر حکومت کو سستی بجلی کی مد میں دی جارہی ہے۔ منگلا ڈیم بناتے وقت وفاق نے آزادکشمیر کو سستی بجلی فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا جس پر آج بھی عملدرآمد ہورہا ہے،۔دستیاب سرکاری ریکارڈکے مطابق آزاد کشمیر میں بجلی کی زیادہ سے زیادہ طلب 4سو میگاواٹ تک ہے جو کم زیادہ ہوتی رہتی ہے،، بجلی کے ترسیلی نظام کے تحت تین کمپنیاں آزاد کشمیر کو بجلی فراہم کرہی ہیں،، بھمبر کے زیادہ ترحصے کو گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی بجلی فراہم کرتی ہے، میرپور، کوٹلی، پونچھ ڈویژن کو اسلام آد الیکٹرک سپلائی کمپنی اور مظفرآباد اور اس کے ملحقہ علاقوں کو پشاور الیکٹرک سپلائی بجلی فراہم کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے تمام علاقوں میں بجلی کے نرخ یکساںہیں۔تاہم منگلا ڈیم پر رائلٹی کے تحت آزادکشمیر حکومت کو سستی بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔
2004کے غیررسمی معاہدے کے تحت آزاد کشمیر حکومت کو 2.69 روپے فی یونٹ بجلی فراہم کی جا رہی ہے۔ جو لائف لائن صارفین (چھ ماہ تک100یااس سے بھی کم یونٹ خرچ کرنے والے ) کے ریٹ 3.95سے لے کر7.74روپے تک ہیں۔سے بھی کم ہیں(یہ سستاترین بجلی کاریٹ بھی اگرزیادہ ہے تواس پرکیاکہاجاسکتاہے ؟)۔ اس سے قبل یہ ریٹ 1.57روپے تھے جو تقریبا 15 سال تک تک لاگورہا ۔اس وقت وفاقی حکومت اورآزادکشمیرکے درمیان بجلی کے ریٹ کے حوالے سے مذاکرات چل رہے ہیں وفاقی حکومت کی طرف سے 4.71روپے فی یونٹ کے حساب سے تجویززیرغورہے یہ ریٹ کیوں بڑھایاجارہاہے اس کے کئی عوامل ہیں ۔
چونکہ واپڈا کی کمپنیاں تو بجلی پیداواری لاگت کے حساب سے فروخت کرتی ہیں اس لئے پیداواری قیمت اور آزاد کشمیر حکومت سے وصول ہونے والی قیمت میں پایا جانے والا فرق وفاقی حکومت اپنی جیب سے سبسڈی کی مد میں ادا کرتی ہے اس رقم میں اگرچہ ایک تسلسل کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے تاہم وفاقی حکومت کے اعداد شمار کے مطابق 91 ارب روپے وفاق نے ان کمپنیوں کی ادائیگی کرنی ہے(جوآزادکشمیرکوبجلی فراہم کرتی ہیں )اوریہ 91ارب روپے24 سو ارب روپے کے مجموعی گردشی قرضے میںبھی شامل ہیں۔
آزاد کشمیر کی وزارت بجلی کے ریکارڈ کے مطابق آزادکشمیر اس وقت ماہانہ بنیادوں پر15سے20 لاکھ یونٹ بجلی خرید رہا ہے جس کے لیے ان تین کمپنیوں کو25سے 33 روپے فی یونٹ کے حساب سے ادائیگی کی جاتی ہے۔یہ ادائیگی وفاقی حکومت کرتی ہے آزادکشمیرصرف 2.69 روپے فی یونٹ کے حساب سے رقم دیتاہے ۔ ریاستی حکومت ماہانہ بجلی کی مد میں پچاس کروڑ روپے خرچ کرتی ہے(واضح رہے کہ آزادکشمیرمیں تین ارب روپے سے زائدکی بلنگ ہوتی ہے ) جبکہ آزادکشمیرحکومت کی اپنی نااہلی اورچوربازاری کی وجہ سے صارفین سے ماہانہ ڈیڑھ سے پونے دوارب وصول کرتی ہے جبکہ باقی ایک ارب روپے سے زائد کی بجلی چوری ہوجاتی ہے،اس اعتبارسے دیکھا جائے تو سالانہ بنیادوں پر حکومت کو بجلی کی مد میںتقریبا20 ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔(اب یہ آمدنی کہاں خرچ ہوتی ہے کوئی حساب کتاب نہیں )
یہ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ اس وقت وفاقی حکومت آزاد کشمیر حکومت کو سالانہ 40 سے 45 ارب روپے کی بجلی فراہم کرتی ہے اوراس کے بدلے میں آزادکشمیرحکومت محض 5 ارب روپے دیتی ہے۔ سستی بجلی خرید کر عوام کو مہنگے داموں فروخت کرکے آزاد کشمیر حکومت نے گزشتہ دس سالوں میں چالیس فیصد بجلی چوری کے باوجود ایک سو اٹھارہ ارب روپے کا منافع کمایا ہے ۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آزاد کشمیر میں بجلی کی چوری اور ٹرانسمیشن نقصانات 40 فیصد کے لگ بھگ ہیں جو پاکستان کے کسی بھی علاقے سے زیادہ ہیں۔اورآزادکشمیرمیں لوڈشیڈنگ کی بڑی وجہ یہ نقصان بھی ہے اربوں روپے کمائی کرنے والے محکمہ برقیات کواس حوالے سے اپنی توجہ دیناچاہیے ۔
منگلا ڈیم کی رائلٹی کی مد میں سستی بجلی کی فراہمی کے قانون کے دبائو کے باوجود پاکستان کے دوسرے ہائیڈل منصوبوں میں یہ مثال نہیں بننے دیا گیا۔ اگر ہم منگلا ڈیم اور صوبہ خیرپختونخواہ کے تربیلا ڈیم کی رائلٹی اور واٹر چارجز کی شرح کا تقابلی جائزہ لیں توسستی بجلی کی سہولت کے پی کے کو حاصل نہیں ہے اورواپڈا اس کو عام نرخوں پر ہی بجلی فروخت کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات یادرکھیں کہ منگلا ڈیم کی وجہ سے آزاد کشمیر حکومت بجلی کی پیداواری لاگت کا اوسطا صرف دس فیصد ادا کرتی ہے اور یہ سہولت کے پی کے کے عوام کو نہیں ہے۔ تربیلا ڈیم بجلی اور پانی کے ذخیرے کی صلاحیت کے اعتبار سے بڑا ڈیم ہونے کے باوجود اس کا علاقہ میرپور جتنا ترقی یافتہ اورمنی انگلینڈ نہیں بن سکا۔یہ منگلاڈیم کاہی کرشمہ ہے کہ اس وقت دس لاکھ کشمیری برطانیہ میں آبادہیں اورایک خوشحال زندگی بسرکررہے ہیں ۔
Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

16 − ten =