جولائی 20, 2024

پشاور حملہ: پاکستانی حکام نے طالبان وزیر خارجہ کا بیان نمک پاشی کے مترادف قرار دے دیا

سیاسیات-پاکستان میں حکومت اور سکیورٹی سے منسلک حکام نے ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان حکومت کے وزیر خارجہ کا پشاور خودکش حملے سے متعلق بیان کو زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک پاشی کے مترادف قرار دیا ہے۔

دارالحکومت کابل میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اس سنگین واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ خطہ بارود، دھماکوں اور جنگوں سے آشنا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی جیکٹ، کوئی خودکش، کوئی چھوٹا بم اتنی تباہی پھیلائے۔ پچھلے 20 سالوں میں ہم نے کوئی بم ایسا نہیں دیکھا جو مسجد کی چھت اور سینکڑوں انسانوں کو اڑائے۔ لہذا اس کی باریک بینی سے تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کا الزام افغانستان پر نہ لگایا جائے۔‘

پشاور میں پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش حملے کے نتیجے میں 100 کے قریب اموات ہوئیں جن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی جبکہ سو سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے متعدد تاحال ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔

اس بڑی تباہی کے بعد پاکستان کی عمومی فضا انتہائی سوگوار ہے۔ اس غم و غصے میں محض پولیس فورس تنہا نہیں بلکہ پوری قوم شریک ہے۔ پشاور میں اس دہشت گردی کی کارروائی کے خلاف مذمتوں کا سلسلہ اندرون و بیرون ملک اب بھی جاری ہے۔

امریکہ سمیت دنیا بھی کی حکومتوں نے اس حملے کی مذمت کی۔ ملک کے اندر قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی مذمتی قراردار متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے اجلاس کے دوران افغان پناہ گزینوں کی پاکستان میں موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  کہا کہ کئی دہائیوں کی افغانستان جنگ کے دوران ہزاروں افغانوں کو ملک میں محفوظ جگہ مہیا کی۔

’ہمسایہ ملک کی یہ جنگ ہماری دہلیز پر بھی آگئی۔ پاکستان کو سوات سے لے کر باجوڑ اور وزیرستان سمیت ملک بھر میں بدامنی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس بیان سے ہر پاکستانی کے جذبات کو شدید ٹھیس پہنچی ہے جو سینکڑوں معصوم انسانی جانوں کے اس ضیاع پر غم زدہ ہیں۔

’کسی ایک انسان کی جان بھی ناحق ضائع ہو تو اس کی مذمت ہونی چاہیے چہ جا یہ کہ پاکستان کو یہ کہا جائے کہ ایک چھوٹا دھماکہ اتنی تباہی نہیں کرسکتا۔ پاکستانی تدفین کے کرب سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دوسرے ملک بیٹھ کر اسے ایک چھوٹا دھماکہ قرار دے دیا۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ چھوٹا دھماکہ تھا؟‘

خود بیرون ملک مقیم افغان اس حملے کی ذمہ داری طالبان پر ڈالتے ہیں۔ ٹوئٹر پر ایک صارف انوری نے کہا کہ اس حملے کی وجہ طالبان سربراہ کا بیان تھا۔

افغان امور کے ماہرین اور عسکری ماہرین کے خیال میں ’افغان طالبان تو اس قسم کے حملوں کا کافی تجربہ رکھتی ہے‘۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان کو معلوم ہوگا کہ دھماکے کی شدت کا زیادہ انحصار اس کے محل وقوع اور حالات پر ہوتا ہے۔

’کوئی چھوٹا دھماکہ شدید نقصان پہنچا سکتا ہے اور کوئی بڑا حملہ بغیر کسی نقصان کے ہوسکتا ہے۔ یہ سائنسی اور تکنیکی پہلو شاید آپ کو سمجھ نہ آئیں۔‘

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں اور جلد ہی مزید تفصیلات سامنے آجائیں گی اور اس سلسلے میں انہیں فی الحال کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں۔

’طالبان حکومت کو چاہیے کہ پاکستان کو نصیحت اور مشورے دینے کی بجائے ان امور کی جانب توجہ دے جن کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔ کئی پاکستان حلقوں کی جانب سے اس طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔‘

پاکستان کا امن و امان افغانستان میں امن و سلامتی کی مجموعی صورتِ حال سے مشروط رہا ہے جب کہ افغانستان گذشتہ چار دہائیوں سے دہشت گردی، جنگ اور خانہ جنگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسی بدامنی کے اثرات سرحد کے اس پار بھی منتقل ہوئے ہیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1 × one =