سیاسیات- پاکستان نے اضافی فنڈ کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف ) سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تحت کلائمیٹ چینج کانفرنس سے ورچوئل خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمائے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے آئندہ راؤنڈ میں آئی ایم ایف کے ٹرسٹ فنڈ سے پاکستان کے لیے اضافی فنڈنگ حاصل کرنے پر غور جاری ہے ، یہ فنڈنگ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمائے کی قلت کو دور کرنے میں مدد فراہم کریگی۔
نگراں وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ترقیاتی اور موسمیاتی تبدیلیوں چیلنجز سے نمٹنے کے لیے 2023سے 2030 کے عرصے میں 340 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو جی ڈی پی کا 10فیصد ہے۔
دنیا کے تمام کم آمدن والے اور ترقی پذیر ملکوں کی طرح پاکستان بھی ترقیاتی فنانسنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنے کے لیے درکار فنانسنگ کے درمیان توازن پیدا کرنے کے چیلنج کا سامنا ہے ماسوائے ان ملکوں کے جنہوں نے خود کو ڈیفالٹ کیا لیکن اس کے نتائج بھی بہت پیچیدہ ہیں جن میں انفلوز کا منجمد ہوجانا شامل ہے۔
پاکستان کے لیے یہ سود مند آپشن نہیں، ہمیں اپنی معیشت کو بحال کرنے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کلائمیٹ فنڈز جمع کرنی کی ضرورت ہے جو اس وقت نہیں ہورہا تاہم میں نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف کے اگلے راؤنڈ میں ٹرسٹ فنڈ سے پاکستان کے لیے اضافی فنڈنگ حاصل کرنی چاہیے۔
نگراں وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ موجودہ کلائمیٹ فنانس بین الاقوامی سطح پر انڈر فنڈڈ ہے اس لیے جب پاکستان موسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے سرمایہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو بین الاقوامی ترقیاتی معاونت کے فنڈ سے دیگر ترقیاتی ضروریات کے فنڈ میں کٹوتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی لیے ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے لیے سرمائے کے حصول میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بڑا مسئلہ ہے جو ہمیں موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے فنانسنگ کے حصول میں درپیش ہے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے کہا کہ2030تک ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات پر پاکستان کے اخراجات کا تخمینہ 200ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا مقابلہ اور ایڈاپٹیشن کے لیے 39ارب ڈالر کی پبلک فنانس اور 9ارب ڈالر پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ فنانسنگ متوقع ہیں جس میں نیشنل ڈیولپمنٹ بینکس بھی شامل ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے فنانسنگ کی شدید کمی کو ظاہر کرتی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ عالمی سطح پر متعدد نجی اقدامات کے ذریعے کلائمیٹ فنانسنگ حاصل کی جاتی ہے اور ہمارے لیے بھی انسٹی ٹیوشنل سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے پاکستان کی نجی فرمز کے وسائل کو استعمال کرنا زیادہ موزوں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ حکومت پاکستان نے نیشنل ایڈاپٹیشن پلان متعارف کرادیا ہے ، یہ پلان اڈاپٹیشن حکمت عملی پر عمل درآمد کے ایک موثر فریم ورک کے طور پر کلائمیٹ فنانسنگ کے حصول میں اہم کردار ادا کرے گا۔
نیشنل ایڈاپٹیشن پلان فریم ورک متعلقہ وزارتوں کی کارکردگی کو بڑھاتے ہوئے سرکاری اخراجات کو موثر طریقے سے استعمال کرنے کے ساتھ ریونیو بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
نگراں وزیر خزانہ نے کہا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی نے متحدہ عرب امارات میں ہونے والی COP28کے لیے بھرپور تیاری کی ہے اور پاکستان کے حوالے سے اہم پیش رفت کی امید ہے، ہم پاکستان کو درپیش مسائل کے ساتھ اختراعی فنانسنگ انتظامات کے لیے بھی کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو کلائمیٹ فنانس کی کمی کو دور کرنے کے سلسلے میں سخت چیلنجز کا سامنا ہے تاہم ملٹی لٹرل ذرائع بالخصوص ورلڈ بینک نے کچھ وعدے کیے ہیں جن کی تکمیل آئندہ سال متوقع ہے، ایشیائی ترقیاتی بینک بھی کلائمیٹ ڈیولپمنٹ ایجنڈے کی مزید سپورٹ کرے گا۔
نگراں وزیر نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے سامنے زودپذیری اور غیرملکی قرضوں کا معاملہ بین الاقوامی مالیاتی آرکیٹکچر کے ڈائیلاگ کا اہم عنصر ہے اور میں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ساتھ ملاقاتوں میں بھی اس پر بات کی ہے کیونکہ ہم اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے آگے کمزور ملک قرار پاچکے ہیں اور ہم مختلف پلیٹ فارمز کے سامنے اپنا موقف مضبوط انداز میں سامنے لارہے ہیں۔