سیاسیات-سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ نیب ترامیم کے خلاف عمران خان پارلیمنٹ کیوں نہیں جارہے؟ ایک شخص کی وجہ سے پورا نظام منجمد ہورہا ہے سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے۔
نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں بنچ نے سماعت کی۔ تحریک انصاف کا پارلیمنٹ واپس جانے کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیر بحث آگیا۔
حکومت بتائے کیا نیب ترامیم کا معاملہ پارلیمنٹ بھیج دیں؟ چیف جسٹس
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا کہ اخبارات میں خبریں چھپی ہیں کہ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں واپس جا رہی ہے، اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟ چیف جسٹس نے وزیر اعظم کے وکیل سے کہا کہ اپنے موکل سے پوچھیں کیا ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟
پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب ترمیمی بل پیش کرسکتی ہے، حکومت
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ ہدایات لیے بغیر عدالت میں کوئی بات نہیں کرسکتا، پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے، پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کرسکتی ہے۔
حکومت اور پی ٹی آئی نیب ترامیم میں ملکی مفاد کو سامنے رکھیں، جسٹس اعجاز
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قانون سازی اکثریتی رائے کے بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے، حکومت اور پی ٹی آئی نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے، امید ہے حکومت اور پی ٹی آئی اتفاق رائے سے قانون سازی کریں گی۔
ممکن ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آ کر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں، حکومت
حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاست کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے، دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی حکومت کا تصور بھی موجود ہے، ہوسکتا ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آ کر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں۔
نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عمل درآمد متاثر ہو رہا ہے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ چاہتے ہیں کہ نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو، نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عمل درآمد متاثر ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جارہی؟ وہاں جائے اور نیب ترمیمی بل لائے، جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ پارلیمنٹ میں جا کر نیب ترامیمی بل پیش کردیں، پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جارہی؟ اس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی، کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بناسکتے ہیں، جسٹس اعجاز
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا موثر قانون چاہتے ہوں گے، حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بناسکتے ہیں، توقع ہے دونوں جانب سے دانش مندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
کئی بار کہہ چکے کہ نیب ترامیم کیس پارلیمنٹ سے حل ہونا چاہیے، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ صرف اتنا کہہ دیں کہ ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا تو 90 فیصد کیس ختم ہوجائے گا، ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے، مخدوم علی خان کو اسی لیے ہدایات لینے کا کہا ہے، توقع ہے حکومت کھلے ذہن کے ساتھ معاملے کا جائزہ لے گی، سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے، بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184/3 کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر پارلیمنٹ سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آسکتے ہیں، جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا مناسب نہیں ہوگا پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو، اسمبلی میں بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آ جائے، اس پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں واپس جانا یا نہ جانا سیاسی فیصلہ ہے، اگر پارلیمان سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آ سکتے ہیں۔
کیا ایسی کوئی مثال ہے کہ ارکان اسمبلی نے اپنے کیسز ختم کرانے کیلئے قانون سازی کی، جسٹس اعجاز
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کئی ارکان پارلیمان کا کرپشن کے سنگین الزامات پر ٹرائل چل رہا تھا، کیا کوئی ایسی مثال ہے کہ ارکان اسمبلی نے اپنے کیسز ختم کرانے کیلئے قانون سازی کی ہو؟ حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ امریکی صدر کو اختیار ہے کہ کسی بھی مجرم کو عام معافی دے دے۔
کیا نیب ترامیم ایمنسٹی اسکیم ہیں یا عام معافی؟ جسٹس اعجاز
جسٹس اعجاز نے کہاکہ کیا نیب ترامیم ایمنسٹی اسکیم ہیں یا عام معافی؟ کیا نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق کرنا اپنے الزامات صاف کرنا نہیں ہے؟
عدالت ارکان اسمبلی کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی، حکومتی وکیل
اس پر حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں ترامیم کا ماضی سے اطلاق نہ ہوسکے، کبھی کوئی قانون اس وجہ سے کالعدم نہیں ہوا کہ ارکان پارلیمنٹ کی نیت اچھی نہیں تھی، عدالت ارکان اسمبلی کی نیت کا تعین نہیں کر سکتی، مفادات کا ٹکراؤ بھی قانون سازی کالعدم کرنے کی وجہ نہیں ہوسکتا، بجٹ منظور کرنے والے کئی ارکان اسمبلی صنعت کار اور کاروباری بھی ہوتے ہیں۔
یہ دیکھنا چاہیے کہ نیب ترامیم آئینی ہیں یا غیر آئینی، حکومتی وکیل
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا ارکان اسمبلی کے کنڈکٹ پر عدالت اپنی حدود کو پھیلا سکتی ہے؟ اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں یا نہیں۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کو نیب ترامیم سے ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا، حکومتی وکیل
وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایک وزیر نے پاکستان آ کر وزارت کا حلف لیا اور عدالت میں پیش ہونے سے نیب کیسز ختم ہوئے، ایک اور وزیر خزانہ اس شرط پر بنے کہ ان پر دائر نیب کیسز ختم کیے جائیں، پی ٹی آئی کے رہنماوں کو نیب ترامیم سے ریلیف ملا لیکن اسے کسی نے چیلنج نہیں کیا، سابق وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور ایک ادارے کے چیف ایگزیکٹو پر نیب کیس بنایا گیا، کئی سال جیل میں رکھنے کے بعد تفتیش میں کچھ نا ملنے پر وہ بری ہوئے، نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔
تفتیشی افسروں اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی سے قانون کا نظام خراب ہوا، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت ایکشن لے گی، ہمیں آزاد تفتیشی اور پراسیکیوٹرز چاہئیں، تفتیشی افسروں اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی کی وجہ سے قانون کا نظام خراب ہوا، ملک کے قانونی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔
عمران خان کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہورہا ہے، ہم انہیں کیوں سنیں؟ جسٹس منصور
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نہ ہی اس کے فیصلوں کو مانتے ہیں، عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں تھے اس کارروائی کو کیا چیلنج کرسکتے ہیں؟