سیاسیات- اٹک ریفائنری لمیٹڈ (اے آر ایل) نے درآمدات پر آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (او ایم سیز) کے بڑھتے ہوئے انحصار اور مارکیٹ میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے حکومت کو اپنے پلانٹس کی عنقریب بندش سے خبردار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ مصنوعات کی قیمتوں کے ذریعے صارفین سے وصول کی جانے والی نقل و حمل کی لاگت کا آڈٹ کیا جائے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر پیٹرولیم محمد علی اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کے چیئرمین مسرور خان کو لکھے گئے علیحدہ علیحدہ خطوط میں سربراہ اٹک ریفائنری لمیٹڈ عادل خٹک نے کہا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل (ایچ ایس ڈی) کے لیے اپنا مختص کوٹہ لفٹ کرنے میں ناکام رہی ہیں اور درآمدات پر انحصار کررہیں، ایسا بار بار ہوتا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اٹک ریفائنری کو اپنے پیٹرول اور ڈیزل کی پیداوار کو استعمال میں لائے جانے میں گزشتہ چند ماہ سے مسلسل سنگین چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اپنا مختص کوٹہ بڑھانے میں ناکام رہی ہیں۔
انہوں نے وزیر اور اوگرا کے سربراہ کو خط لکھا کہ صورتحال ایک بار پھر اس خطرناک موڑ پر پہنچ گئی ہے کہ اصلاحات کے لیے اگر کوئی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو مجبوراً اٹک ریفائنری بند کرنی پڑ جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ پیٹرول اور ڈیزل کے بھاری اسٹاکس کو سنبھالنے کے لیے شٹ ڈاؤن ناگزیر ہو جائے گا جوکہ انتہائی افسوسناک ہو گا۔
راولپنڈی میں واقع اٹک آئل ریفائنری خیبرپختونخوا اور پوٹھوہار کے علاقوں سے 100 فیصد دیسی خام تیل کو پراسس کرتی ہے، ریفائنری سے مصنوعات کے ذخیرے کی ناقص لفٹنگ ان علاقوں میں آئل فیلڈز کی بندش کا باعث بن سکتی ہے، اس طرح تیل پیدا کرنے والوں کو جرمانے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
دوسری طرف اس میں طویل مدت کے لیے غیر ملکی زرمبادلہ کے نقصان اور زیادہ نقل و حمل کی لاگت پر زیادہ درآمدات کی ضرورت ہو گی جو بالآخر صارفین کو مصنوعات کی زائد قیمتوں کی صورت میں ادا کرنی پڑے گی۔
خط میں کہا گیا کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے اقدام کی وجہ سے اٹک ریفائنری کے لیے 80 فیصد کے کم صلاحیت پر بھی کام کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، گزشتہ 4 ماہ کے فروخت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اٹک ریفائنری کے سیلز لفافے میں او ایم سیز کی طرف سے فروخت کیا گیا صرف 38 فیصد پیٹرول اور 47 فیصد ڈیزل اٹک ریفائنری سے لفٹ کیا گیا اور باقی کو مقامی یا درآمدی ذرائع سے لایا گیا جس سے نہ صرف زرمبادلہ کا نقصان ہوا بلکہ اندرون ملک فرائٹ ایکولائزیشن مارجن (آئی ایف ای ایم) میں بھی اضافہ ہوا جو صارفین سے وصول کیا جاتا ہے۔
اٹک ریفائنری کے مطابق خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور پنجاب کے شمالی علاقوں سمیت اٹک ریفائنری کے زیرِ انتظام علاقوں میں پیٹرول کی کُل فروخت اگست میں ایک لاکھ 48 ہزار 600 ٹن رہی جس کے برعکس اٹک ریفائنری نے 63 ہزار ٹن کی پیشکش کی تھی لیکن آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے صرف 57 ہزار ٹن ایندھن لفٹ کیا۔
ستمبر میں کُل فروخت ایک لاکھ 14 ہزار 139 ٹن رہی اور اٹک ریفائنری نے 54 ہزار ٹن کی پیشکش کی لیکن آئل مارکیٹنگ کمپنیوں نے صرف 43 ہزار ٹن ہی لفٹ کیا، نومبر میں خطے میں کُل فروخت ایک لاکھ 17 ہزار 485 ٹن تک پہنچ گئی اور اٹک ریفائنری نے 71 ہزار ٹن کی پیشکش کی جبکہ آیل مارکیٹنگ کپمنیوں نے صرف 51 ہزار 400 ٹن ہی لفٹ کیا۔
عادل خٹک نے کہا کہ اوگرا کم سے کم یہ کر سکتا ہے کہ وہ اٹک ریفائنری کے سپلائی ایریا میں آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی سپلائی کا آڈٹ کرائے تاکہ نادہندہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی نشاندہی کی جا سکے جو آئل ریفائنری سے مصنوعات کو بہتر بنانے کے بجائے درآمدی مصنوعات لا رہے ہیں، اس طرح نہ صرف زرمبادلہ کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ اندرون ملک فرائٹ ایکولائزیشن مارجن کی غلط تخصیص بھی ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جنوبی علاقوں سے 5 ہزار بیرل یومیہ کنڈینسیٹ خام تیل مختص کرنے میں تاخیر اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی جانب سے مصنوعات کی ناقص لفٹنگ کی وجہ سے اٹک ریفائنری کو ماہانہ تقریباً 70 کروڑ روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
مزید برآں اٹک ریفائنری کے بھاری پیداوار سے پیٹرول اور ڈیزل کی درآمد کو کم کرکے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوسکے گی۔