سیاسیات- پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ہمارے لیے تمام سیاستدان اور سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں اور افواج پاکستان کسی خاص سیاسی سوچ اور جماعت کی نمائندگی نہیں کرتی۔
پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ٓآج کی پریس کانفرنس میں آپ سب کو خوش آمدید، آپ کو عید کےفوراً بعد اس پریس کانفرنس میں آنا پڑا جس کے لیے میں شکر گزار ہوں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آج کی اس بریفنگ کا مقصد افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں اور حالیہ دہشت گردی کے خلاف کیے جانے والے اقدامات کا احاطہ کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کی پریس کانفرنس میں رواں سال کے دوران، سیکیورٹی اور دہشت گردی کے اہم معاملات پر روشنی ڈالی جائے گی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ سب سے پہلے ہم مشرقی سرحدوں کی پاک-بھارت ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کے مابین 2003 کے سیز فائر ایگریمنٹ پر عملدرآمد کے حوالے سے فروری 2021 میں جو انڈراسٹینڈنگ ہوئی، اس کے بعد سے لائن آف کنٹرول کی صورتحال نسبتاً پرُامن رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی لیڈرشپ کی گیڈر بھپکیاں اور لائن آف کنٹرول پر پاکستان کی جانب سے انفلٹریشن ٹیکنیکل ایئر وائلشین اور دیگر الزامات کا لگاتار جھوٹا پروپیگنڈا بھارت کی درحقیقت ایک خاص پولیٹیکل ایجنڈے کی عکاسی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ہمیشہ اقوام متحدہ کے قائم کردہ ’یونائیٹڈ نیشنز ملٹری آبزور گروپ اِن انڈیا اینڈ پاکستان‘ کے ساتھ بھرپور تعاون کیا ہے، اس ضمن میں پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ کے مبصرین کو لائن آف کنٹرول پر مکمل رسائی دی گئی ہے جبکہ بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کے مبصرین کو نہ ہی کوئی رسائی دی گئی ہے اور نہ ہی لبرٹی آف ایکشن کی اجازت دی گئی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان کی طرف سے گزشتہ کچھ ہی عرصے کے دوران لائن ٓآف کنٹرول پر 16 دورے کروائے، جس میں بین الاقوامی میڈیا اور او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کا دورہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے جبکہ بھارت کی جانب سے ایسا کوئی بھی وزٹ نہیں کروایا گیا جو کہ اس کی مقبوضہ کشمیر میں حقیقی صورتحال کو چھپانے کی خواہش کی غمازی کرتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ رواں سال اب تک 56 مرتبہ بھارت کی جانب سے چھوٹی سطح پر مختلف سیز فائر کی خلاف ورزیاں کی گئیں، جس میں اسپیکولیٹو فائر کے باعث فضائی حدود کے تین، سیز فائر کی خلاف ورزیوں کے 6 چھوٹے اور ٹیکنیکل فضائی حدود کی خلاف ورزی کے 25 واقعات شامل ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے بتایا کہ بھارت کی لائن آف کنٹرول پر خلاف ورزیوں کے دوران اسی عرصے میں پاک فوج نے 6 جاسوس کوارٹرز کو بھی مار گرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ افواج پاکستان بھارت کی ان تمام شرانگیزوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمہ وقت تیار اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے پرُعزم ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اب ہم مغربی سرحدوں کی بات کرتے ہیں، پچھلے چند ماہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گرد امن و عامہ کو خراب کرنے کی بے حد کوششیں کرتے رہے، مگر فورسز، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ان مذموم عزائم کو بھرپور طریقے سے ناکام بنانے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی داخلی اور بارڈر سیکیورٹی کو یقینی اور دائمی بنانے کے لیے ہم مکمل طور پر فوکسڈ ہیں، اس حوالے سے پاکستان کی سول اور ملٹری انٹیلی جنس ایجنسیز، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سیکیورٹی فورسز نے شاندار اقدامات کیے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو کیفرکردار تک پہنچانے میں شب و روز اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے ان واقعات میں کالعدم ٹی ٹی پی کا اور بلوچستان کی دہشت گرد تنظیموں کا بیرونی تعلق بھی ثابت ہوا ہے، افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات میں نسبتاً اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ہم رواں سال کی طرف مرکوز ہوتے ہیں، رواں سال میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے دہشت گردی کے 436 واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 293 افراد شہید جبکہ 521 زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 219 واقعات میں 192 افراد شہید جبکہ 330 زخمی ہوئے، بلوچستان میں 206 واقعات میں 80 افراد شہید جبکہ 170 زخمی ہوئے، پنجاب میں دہشت گردی کے 5 واقعات ہوئے جن میں 14 افراد شہید جبکہ 3 زخمی ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح سندھ میں ہونے والی دہشت گردی کے 6 واقعات میں 7 افراد شہید جبکہ 18 زخمی ہوئے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ رواں سال سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف 8 ہزار 269 چھوٹے بڑے خفیہ اطلاع پر آپریشنز کیے ہیں، اسی دوران لگ بھگ 1535 دہشت گردوں کو واصل جہنم یا گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا میں 3591 آپریشنز کیے گئے اور 581 دہشت گردوں کو گرفتار اور 129 کو واصل جہنم کیا گیا، بلوچستان میں 4 ہزار 40 آپریشنز کے دوران 129 دہشت گردوں کو گرفتار اور 25 کو جہنم رسید کیا گیا، پنجاب میں 119 آپریشنز کیے گئے اور سندھ میں 519 آپریشنز کے دوران 398 دہشت گردوں کو گرفتار جبکہ 3 کو جہنم رسید کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر 70 سے زائد آپریشنز افواج پاکستان، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے انجام دے رہے ہیں، یہاں یہ بات انتہائی اہم ہے کہ آج الحمد اللہ عوام اور افواج پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت پاکستان میں کوئی ’نو گو ایریا‘ نہیں ہے، البتہ مختلف علاقوں میں دہشت گردوں کی کچھ تشکیل سرگرم عمل ہیں، جن کی روزانہ کی بنیاد پر سرکوبی کی جا رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ان آپریشنز کے دوران دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور گولہ بارود برآمد کیا گیا ہے اور کیا جارہا ہے، جو دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں، ان میں ملوث دہشت گردوں، منصوبہ سازوں اور سہولت کاروں کو بھی بے نقاب اور گرفتار کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس لائنز مسجد پشاور کے معصوم اور نتہے شہریوں کو نماز کے دوران اور کراچی میں کراچی پولیس آفس پر حملہ دہشت گردوں کے ناپاک ارادوں کی عکاسی کرتا ہے، اور یہ واضح کرتا ہے کہ ان دہشت گردوں کا ریاست پاکستان، خوشحال مستقبل اور دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہ اگر ہم 30 جنوری 2023 کو پشاور پولیس لائنز پر ہونے والے خودکش حملے کی بات کریں تو یہ خود کش حملہ کالعدم ٹی ٹی پی قیادت کے احکامات کے بات جماعت الاحرار کے رکن نے کیا، چہرے کی شناخت اور سی سی ٹی وی سے ملنے والی تصاویر سے یہ بات واضح ہوئی کہ خودکش حملہ آور افغان تھا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اگر ان کے نیٹ ورکس کی بات کریں تو اس سلسلے میں خود کش حملہ آور امتیاز عرف کورا شاہ کو باجوڑ سے گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ دیگر مزید خود کش حملہ آوروں کو جن کی ٹریننگ مولوی عبدالبصیر عرف اعزام صافی نے کی، جس کا تعلق جماعت الاحرار اور ٹی ٹی پی سے ہے، وہ بھی بھی گرفتار ہوا، ان دہشت گردوں کی ٹریننگ افغانستان کے مختلف علاقوں میں کی گئی، جن میں کنڑ، پختونخے، دردانہ اور نولے شامل ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پشاور حملے میں ملوث خودکش بمبار کا تعلق افغانستان سے تھا جس کو حملے سے تین ہفتے پہلے حملے کے سہولت کاروں کے حوالے کیا گیا تھا جبکہ سہولت کاروں کو اس حملے کی منصوبہ بندی اور عملدرآمد کے لیے 75 لاکھ روپے دیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ سہولت کاروں کی طرف سے پہلے دو حملے مسجد میں نمازیوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے مؤخر کردیے گئے جبکہ تیسرے حملے میں نمازیوں کی بڑی تعداد دیکھتے ہوئے خود کش دھماکا کروایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اسی طرح کراچی پولیس آفسر پر 17 فروری 2023 کو جن تین دہشت گردوں نے حملہ کیا وہ تینوں دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے جوابی حملے میں ہلاک ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ ان دہشت گردوں میں کفایت اللہ کا تعلق لکی مروت اور زالہ نور کا تعلق جنوبی وزیرستان سے تھا اور اس کے علاوہ حملے کے تین ماسٹر مائینڈ کو بھی بعدازاں حراست میں لیا گیا تھا جن میں عریاد اللہ، وحید اور عبدالعزیز صدیقی شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گرفتار دہشت گردوں سے خود کش جیکٹس اور بھاری مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بھی برآمد کیا گیا تھا جو کہ حب کے راستے کراچی پولیس آفس پہنچے تھے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ عریاد للہ خان نے 8 ماہ تک کراچی پولیس آفس کی جاسوسی کی اور ڈی آئی خان سے دہشت گردوں کو لانے کی منصوبہ بندی کی جو کہ تینوں دہشت گرد حملے میں ہلاک ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ عریاد اللہ کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) قیادت کی طرف سے احکامات جاری ہوئے اور اس سلسلے میں اس نے 30 لاکھ وصول کرنے کے بعد گاڑی بھی خریدی جس کو حملے میں استعمال کیا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ رواں برس آپریشنز کے دوران 137 افسر اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیا جبکہ 117 افسران اور جوان زخمی ہوئے اور پوری قوم ان بہادر سپوتوں اور ان کے لواحقین کو خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کی امن و سلامتی اور ہمارے روشن مستقبل کے لیے قربان کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ اصل طاقت کا محور اور مرکز پاکستان کے عوام ہیں اور جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو پاک فوج قومی فوج ہے ہمارے لیے تمام سیاستدان اور سیاسی جماعتیں قابل احترام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج یہ نہیں چاہے گی کہ وہ کسی خاص سیاسی سوچ یا خاص سیاسی زاویے اور نظریے یا جماعت کی طرف راغب ہو۔
میجر جنرل احمد شریف نے مزید کہا کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ افواج پاکستان، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کا عزم اور دہشت گردی کو ختم کرنے کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہماری مقتدر انٹیلی جنس ایجنسیز کی انتھک کاوشوں کے نتیجے میں بلوچستان سے بلوچ نیشنل آرمی کے سربراہ اور انتہائی مطلوب دہشت گرد گلزار امام عرف شمبے کو گرفتار کیا گیا ہے۔
میجر جنرل احمد شریف نے مزید کہا کہ درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجز کے باوجود افواج پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف قربانیاں اور کامیابیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں.
ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اگر پاکستان کا موازنہ دیگر ممالک سے کیا جائے تو جس طرح پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے اور لڑ رہی ہے اس کو نا صرف دنیا نے سراہا ہے بلکہ اس کی کوئی نذیر نہیں ملتی، دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ ویسٹرن بارڈر میجمنٹ کے تحت جو کام جاری ہیں وہ پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ہیں، بارڈر مینجمنٹ کے تحت 2612 پاک افغان سرحد پر 98 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے جبکہ پاک ایران سرحد پر 85 فیصد سے زائد کام مکمل ہو چکا ہے.