سیاسیات- حکومت پاکستان نے آمدن اور اخراجات کے جو منصوبے عالمی ادارے کے ساتھ شیئر کیے ہیں، ان سے آئی ایم ایف بدستور غیرمطمئن دکھائی دیتا ہے۔
وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستانی کیمپ میں اس حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے کہ آئی ایم ایف کی جانب سے نویں جائزے کے عرصے جولائی تا ستمبر2022ء کے بجائے پورے مالی سال کی تفصیلات مانگی جارہی ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سینئر پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے عہدیداروں کے مابین آخری ملاقات زیادہ خوشگوار نہیں رہی، جس کی وجہ عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے ایسی شرائط کی تعمیل پر اصرار بنا، جو نویں جائزے کی مدت میں قابل اطلاق ہی نہ تھیں۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے اس دعوے پر بھی سوالات اٹھائے ہیں کہ وہ اب بھی رواں مالی سال کے دوران پٹرولیم لیوی کے ذریعے 800 ارب روپے کی آمدن حاصل کرسکتا ہے، اس مد میں حالیہ بجٹ میں 855 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا تھا۔تاہم پہلی سہ ماہی کے دوران صرف 47 ارب روپے ہی جمع ہوسکے تھے، یہ رقم وزارت خزانہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اکتوبر کے اختتام تک 80 ارب روپے سے تجاوز کرگئی تھی۔
پاکستان نے عالمی ادارے کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اگر پٹرولیم لیوی کا ہدف پورا نہ ہوسکا تو پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس عائد کیا جاسکتا ہے۔
آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ جولائی2022 سے جون 2023 تک ماہانہ بنیادوں پر پٹرولیم لیوی اور پٹرولیم مصنوعات کے استعمال کے تخمینے کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کو شبہ ہے کہ حکومت محصولات کی وصولی کے بارے میں تخمینوں میں مبالغہ آرائی کررہی ہے۔
دوسری جانب وزارت خزانہ کے حکام اس بارے میں پرامید دکھائی دیتے ہیں کہ پٹرولیم لیوی اور پٹرولیم مصنوعات کے استعمال کی صورتحال میں بہتری آئے گی کیونکہ سیلاب کے بعد اب کاروباری سرگرمیوں میں تیزی آنا شروع ہوگئی ہے۔
حکومت نے پہلے ہی پٹرول پر 50 روپے فی لیٹر لیوی عائد کر رکھی ہے اور ڈیزل کے نرخوں میں بھی اضافہ کرنا شروع کردیا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین اختلاف رائے کی وجہ سے ہی عالمی ادارے کے مشن کی آمد میں بھی خاصی تاخیر ہوچکی ہے، اس مشن کی آمد پر نویں جائزے کی تکمیل ہونی تھی، جس کے بعد قرضے کی 1.2ارب ڈالر پر مشتمل اگلی قسط کی ادائیگی کی منظوری دے دی جاتی۔
آئی ایم ایف کی ٹیم کو 26 اکتوبر کے آس پاس پاکستان آنا تھا، تاہم فی الحال فریقین دورے کے لیے نئی تاریخ پر متفق نہیں ہوسکے۔ نویں جائزے کی تکمیل میں رکاوٹ کے باعث دیگر عالمی قرض دہندگان سے رقوم ملنے میں بھی تاخیر ہورہی ہے، جس سے زرمبادلہ کے ملکی ذخائر اور شرح مبادلہ پر دبائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔