سیاسیات- پاکستان میں کل ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے آیت اللہ شیخ محمد باقر مقدسی دام ظلہ العالی نے پاکستانی شیعہ سنی عام کے نام خصوصی پیغام دیا ہے۔
انتخابات، جمہوری سیاسی نظام کا سب سے اہم اور بنیادی ستون ہے۔ ایک جمہوری نظام کی خوبصورتی اس میں ہے کہ لوگ بصیرت اور اگاہی کے ساتھ ایک باصلاحیت اور محب وطن اور خدمت گذار فرد کے انتخاب کرنے کے لیے انتخابات میں بھرپور شرکت کرنے کی کوشش ہونی چاہیے چونکہ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے لہذا اس ملک میں احزاب اور سیاسی جماعتوں کو فوقیت دیتے کے بجائے قانون گزار اور امیدواروں کی اللہ کی اطاعت اور لوگوں کی خدمت کے پہلو کو مرکزی حیثیت دیکر شائستہ اور متدین امیدواروں کو انتخاب کرنے کی ضرورت ہے اپ تک ہونے والی انتخابات میں مختلف پارٹیوں کو مرکزی حیثیت دے کر حق رائے دہی کے استعمال کا تجربہ خاطر خواہ کامیاب نہیں ہوا کیونکہ پارٹی کے محوریت ہونے والی انتخابات میں خود غرض، قانون شکن، متعصب اور مفاد پرست لوگو بھی منتخب ہوئے جس کے نتیجے میں پاکستان، ترقی کے بجائے روز بہ روز تنزلی کا شکار ہوا جو ہم سب کے لیے نہ صرف لمحہ فکریہ ہے بلکہ کی باعث عبرت بھی ہے اس لیے اس بات پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ غلط اور مفاد پرست لوگو کو انتخاب کرکے ملک کے باگ ڈور سنبھالنے کے بعد غم و غصّے کا اظہار کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے لہٰذا عقلمندی یہ ہے کہ جھاں پاکستان کے استحکام اور پائیداری کے لیے بھرپور طریقے سے انتخابات میں حصہ لینے کی ضرورت ہے تو وہاں یہ بھی انتہائی ضروری ہے کہ مفاد پرست، متعصب، دہشت گرد، تکفیری سوچ کے حامل ملک اور ملت دشمن عناصر کو قانون ساز اسمبلیوں تک رسائی حاصل کرنے سے روکنا تمام محب وطن اور باایمان پاکستانیوں کی زمے داری ہے پسندیدہ امیدوار کے انتخاب کرنے سے پہلے درجہ زیل نکات پرتوجہ کرنے کی ضرورت ہے:
پیغمبر اکرم (ص) مبعوث بہ رسالت ہونے کے بعد، خدا نے پیغمبر اکرم (ص) کے اچھے اخلاق پر زور دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ: “وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ” (قلم، 4) اور آل عمران کی آیت 159 ارشاد فرمایا:« وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ »اگر آپ اخلاق کے پیکر نہ ہوتے تو لوگ آپ کے اردگرد سے بکھر جاتے۔ ان آیات کی روشنی میں کہہ سکتے ہیں کہ حکمران یا ذمہ دار شخص کی پہلی خصوصیت اچھے اخلاق کا ہونا ہے۔ ان لوگوں سے اجتناب کریں جو اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کسی اخلاقی معیار کی پابندی نہیں کرتے۔ اسے لوگوں کا کام اپنے منشور بیان کرنے کے بجائے حریف امیدواروں پر بے بنیاد الزامات کے زریعے سے لوگوں کے نظروں سے گرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
سورہ ہود کی آیت نمبر 88 میں حضرت ہود علیہ السلام اپنی قوم سے فرمایا: ’’إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ” مجھے خدا نے تمہاری اصلاح کے لیے چنا ہے اور تمہاری اصلاح کے علاؤہ میرا کوئی مقصد نہیں ہے۔ آپ کے اس جملے سے صداقت کی اہمیت کو سمجھ سکتے ہیں۔ ذمہ دار شخص یا امیدواروں کو لوگوں سے ایسے بیکار وعدے نہ کریں جو ان کی طاقت سے باہر ہوں۔ کوئی منصب حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولنا کسی مومن اور شائستہ شخص کی شان نہیں۔ سورہ مبارکہ “صف” کی آیات 2 اور 3 میں خدا ان لوگوں کو مخاطب کرتا ہے جو جھوٹا وعدے کرتے ہیں اور فرماتا ہے :«یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ اے ایمان والو تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو نہیں کرتے؟ «کَبُرَ مَقْتًا عِندَ اللَّهِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ اللّٰہ کو وہ بات بھت ناپسند ہے جس پر عمل نہیں کرتے ہو بدقسمتی سے عوام کے ووٹ اکٹھے کرنے کے لیے خالی وعدے کرنا کچھ لوگوں کی انتخابی عادت بن چکی ہے!
اللہ تعالیٰ سورہ النساء کی آیت نمبر 58 میں فرماتا ہے: «إِنَّ اللّهَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا خدا آپ کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکان کو واپس کردیں” منصب اور عہدہ سب سے اہم امانتوں میں سے ایک ہے جسے اس کے شائستہ افراد کے حوالہ کیا جانا چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں: «اخْتَبِرْهُمْ بِمَا وُلُّوا لِلصَّالِحِینَ قَبْلَکَ فَاعْمِدْ لِأَحْسَنِهِمْ کَانَ فِی الْعَامَّهِ أَثَراً وَ أَعْرَفِهِمْ بِالْأَمَانَه»( نہج البلاغہ، نامہ، 53) ان کا امتحان اس خدمت سے کرو جو انہوں نے تم سے پہلے نیک خدمت گزاروں کو دیا ہے، اور اس پر بھروسہ کرو جس نے سب کے درمیان اچھا اثر چھوڑا ہو اور امانت داری میں سب سے مشہور ہو اورامتحان میں کامیاب ہوا ہو۔” (نہج البلاغہ، خط، 53) ) آج جو پارلیمنٹ کے عہدے کے دعویدار ہیں جن کی برسوں کی کارکردگی قوم کے سامنے ہے، جنہوں نے کھبی بھی اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا وہ اس منصب کے لیے یقیناً اہل نہیں ہے امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے خط نمبر 26 میں فرماتے ہیں: اور یقیناً قوم سے سب سے بڑی خیانت عوام کیے وعدے کو پورا نہ کرنا؛ قوم سے خیانت ہے۔ سورہ یوسف کی آیت نمبر 55 میں فرماتا ہے: حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا اے خدا مجھے اس سرزمین کے خزانوں اور دولت کا ذمہ دار بنا دے کیونکہ میں دانا اور علم والا ہوں۔ اس سلسلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث ہے، فرماتے ہیں کہ جب کسی کو کسی کام کے لیے انتخاب کرے جب کہ وہ جانتے ہو کہ مسلمانوں میں ایسا شخص بھی موجود ہے جو اس ذمہ داری کے لائق اور قرآن و سنت کا زیادہ علم رکھنے والا موجود ہے تو یقیناً خدا اور رسول اور تمام مومنین کے ساتھ خیانت کی ہے۔
صحیح امیدوار کا معیار یہ ہے کہ وہ عوام الناس میں سے ہو اور وہ ہمدرد اور مہربان ہو۔ جو امیدوارعوامی مقبول نہیں ہے وہ مظلوم اور محروم طبقے کے ساتھ ہمدردی اور مہربان نہیں ہوگا۔ سورہ “توبہ” کی آیت نمبر 128 میں خدا فرماتا ہے؛ «لَقَدْ جَاءکُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُم بِالْمُؤْمِنِینَ رَؤُوفٌ رَّحِیمٌ؛یقیناً تمہارے پاس خود تم ہی میں سے ایک نبی آیا ہے تمہیں تکلیف میں دیکھنا ان پر شاق گزرتا ہے وہ تمہار بھلائی کا نہایت خواہاں ہے اور مومنوں کے لیے نہایت شفیق، مہربان ہے۔ رہبر معظم سید علی خامنہ مدظلہ العالی کے فرمان کے مطابق: ’’ انتخابات میں خدمت کا مقابلہ ہونا چاہیے، اقتدار حاصل کرنے کا مقابلہ نہیں۔
5: اسلام اور ملک دشمنوں سے دوستی کرنے سے اجتناب
سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے اجنبیوں اور اسلام کے دشمنوں سے دوستی کرنا منافقوں کی خصوصیات میں سے قرار دیا ہے۔ آج اصلح امیدوار کی سب سے اہم خصوصیت اسلامی نظام کے دشمنوں کے ساتھ دوستی نہ کرنا ہے۔ ان دشمنوں کو کوئی بہانا نہ دیں جو ہر وقت وار کرنے کے درپے ہوتے ہیں امت مسلمہ کے دشمنوں سے دوستی اپنی قوم اور مسلم عوام کے نظریات و اقدار سے خیانت ہے اور آج غزہ اس کا گواہ ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ فلسطین کے مظلوم مسلمان آئے روز مارے جاتے ہیں لیکن اسلامی ممالک خاموش ہیں کیونکہ اسلامی ممالک کے اکثر حکمران عوام میں سے نہیں ہیں۔ لہذا، مستقبل کے نمایندوں کے انتخاب میں ماضی سے سبق سیکھیں اور مومن، دلسوز، خدمت گزار اور وفادار امیدواروں کو منتخب کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ اپ سب کا حامی و ناصر ______________________
جاری کردہ: دفتر آیت اللہ باقر مقدسی دام ظلہ