دسمبر 12, 2024

حماس نے اسرائیل میں کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ کا خوف پیدا کردیا: امریکی اخبار

سیاسیات- امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ گوریلا حکمت عملی اپنانے والی تنظیم حماس نے اسرائیل میں ایک کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ کا خوف پیدا کر دیا ہے۔

امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے سات ماہ بعد بھی حماس شکست سے بہت دور ہے، جس سے اسرائیل میں یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ وہ ایک دائمی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔

اگرچہ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ اس تنظیم کو ختم کرنے کے لیے رفح میں ایک بڑا زمینی آپریشن ضروری ہے، لیکن سات ماہ سے نشانے پر حماس کا مکمل صفایا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔

وال سٹریٹ جرنل نے کہا ہے کہ گوریلا حکمت عملی اپنانے والی تنظیم نے اسرائیل میں ایک کبھی ختم نہ ہونے والی جنگ کا خوف پیدا کر دیا ہے۔

خبر میں کہا گیا کہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو کا حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کا ہدف اب بھی بہت مشکل لگتا ہے اور اس سوال کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں ملا کہ حماس کے بغیر غزہ پر حکومت کیسے چل سکتی ہے۔

حماس، جسے امریکہ دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے، اپنے سرنگوں کے نیٹ ورک، عسکریت پسندوں کے وسیع سماجی اثر و رسوخ کے ساتھ، زندہ رہنے اور حملہ کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔

جبالیہ پناہ گزین کیمپ میں خدمات انجام دینے والے 98 ویں کمانڈو ڈویژن کے ایک اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ حماس اس سے بھی زیادہ جارحانہ حملے کر رہی ہے اور انہیں ٹینک شکن ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

خبر میں یہ بھی بتایا گیا کہ اسرائیل کو، جس نے اپنے فوجیوں کو غزہ کے جنوب میں رفح کی طرف بڑھنے کی ہدایت کی تھی، شمال میں نسبتاً پرسکون علاقوں میں ’ہٹ اینڈ رن‘ کی حکمت عملی سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔

جوسٹ ہلٹرمین، برسلز میں قائم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام ڈائریکٹر ہیں۔ اس صورت حال پر وہ اس طرح تبصرہ کرتے ہیں کہ ’حماس غزہ میں ہر جگہ موجود ہے۔ وہ شکست سے دور ہیں۔‘

واشنگٹن پوسٹ کے مطابق امریکی اور اسرائیلی حکام حماس کی طاقت اور نیتن یاہو کی جنگ کے بعد غزہ کے لیے منصوبہ بندی میں ناکامی کے بارے میں دو ٹوک اندازے پیش کر رہے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب حماس شمال کی طرف لوٹ رہی ہے اسرائیل کی غزہ میں اینڈ گیم کہیں نظر نہیں آ رہی ہے۔

وال سٹریٹ جنرل نے یہ بھی رپورٹ کیا کہ امریکی انٹیلی جنس اور اسرائیلی حکام حماس کو مکمل طور پر تباہ کرنا ناممکن سمجھتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ رفح کے خلاف وسیع آپریشن کی دھمکیوں کے باوجود تنظیم کے فائربندی مذاکرات میں پیچھے نہ ہٹنے کی وجہ یہی آگاہی تھی۔

اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس یونٹ کے سابق سربراہ تامیر ہیمن کہتے ہیں: ’اگر آپ دہشت گردانہ کارروائیوں اور سماجی ڈھانچے کو مٹا دیں تو بھی اسلامی بھائی چارے کا احساس، نظریاتی اور مذہبی عوامل باقی ہیں۔ یہ ایسی چیزیں نہیں ہیں، جنہیں ختم کیا جا سکتا ہے۔‘

فلسطینی حکام کے مطابق سات اکتوبر کے حملوں کے بعد اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں 35 ہزار سے زائد افراد جان سے جا چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔

تل ابیب کے اندازوں کے مطابق غزہ میں حماس کی جانب سے بنائے گئے 128 قیدیوں میں سے 36 اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

حماس اخبار کے مطابق وہ ’ہٹ اینڈ رن‘ حکمت عملی اور جنگجوؤں کے چھوٹے گروپوں کا استعمال کر رہا ہے تاکہ وہ ’برسوں نہیں تو مہینوں تک‘ لڑ سکے۔

امریکی صدر جو بائیڈن کا بھی خیال ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ایک بڑا رفح آپریشن، غزہ میں حماس کو شکست دینے کے اس کے مقصد کو حاصل نہیں کر سکے گا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے گذشتہ دنوں ایک بریفنگ میں کہا تھا: ’رفح میں حملہ اس مقصد کو حاصل نہیں کرسکے گا۔‘

جان کربی نے کہا کہ اسرائیل کی طرف سے حماس پر خاصا دباؤ ڈالا گیا ہے اور اب اس گروپ کی قیادت کے پاس جو کچھ بچا ہے، اس کے تعاقب میں عام شہریوں کو خطرے میں ڈالنے کے علاوہ بہتر طریقے موجود ہیں۔

ایک سینیئر اسرائیلی اہلکار نے گذشتہ جمعرات کو کہا کہ یرغمالیوں کی رہائی کے ممکنہ معاہدے پر قاہرہ میں مذاکرات کا موجودہ دور اختلافات کے واضح حل کے بغیر ختم ہو گیا ہے۔ اہلکار نے کہا تھا کہ اسرائیل رفح میں اپنی کارروائی کو منصوبہ بندی کے مطابق آگے بڑھائے گا۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

12 + thirteen =