تحریر:حاجی شبیر احمد شگری
حال ہی میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے افسوسناک واقعے پر ساری دنیا میں مسلمانوں نے احتجاج کیا۔ یہ پرامن احتجاج مسلمانوں کا حق تھا جس کی وجہ سے غیر مسلموں کی اس شدت پسندی کی پوری دنیا میں حوصلہ شکنی ہوئی۔ لیکن پھر اچانک کیا ہوا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جہاں اقلیتوں کا تحفظ آئین وحکومت کی ذمہ داری ہے اتنا بڑا افسوسناک واقعہ پیش آگیا کہ ہمیں اپنے اقلیتی بھائیوں کے سامنے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ کون سی سازش ھے کیا اس کے ذریعے پوری دنیا میں قرآن کی بےحرمتی کے خلاف ھونے والے مظاہروں اورواضح موقف کو نقصان پہنچایا گیا یا ملک عزیز کے امن کو تباہ کرنے کی سازش کی گئی۔ اگر کسی نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی تھی تواس کی تحقیقات متعلقہ اداروں کا کام ھے۔اس کے لئے قوانین موجود ہیں۔ نہ کہ ہم خود قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ھم عملی سے زیادہ جذباتی مسلمان ہیں۔ حالانکہ ہمارے لئے واضح نمونہ عمل کلام خدا رسول پاک اور ان کے اہلبیت کی سیرت سب کچھ موجود ھیں۔ ھمیں اپنے معاملات میں اس پر عمل کرنا چاہئے۔ جس نبی پاک کا ھم کلمہ پڑھتے ہیں کیا ھماری سوچ ان سے بھی بڑھ کر ہے؟ ہمارا ہر عمل ان کی سیرت کے مطابق ھونا چاہئے۔ جذباتیات میں آکر کہیں ھم خود قرآن پاک کی اور رسول پاک کی گستاخی تو نہیں کررہے۔ کیا دوسروں کا عمل برا اور ھم خود جومرضی کریں اچھا ھے؟. حالیہ جڑانوالہ کے واقعے نے بہت سے سوالات پیدا کردئیے ہیں۔ اس کا جواب رسول پاک کی سیرت سے تلاش کریں اور حضور پاک کے عیسائیوں سے کئے گئے وعدے کو یاد کریں۔ تو بحیثیت مسلمان شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ ھم نے خدا کے رسول کے احکامت کی توہین کی ہے۔
سینٹ کیتھرین کی خانقاہ جدید مصر میں دنیا کی قدیم ترین خانقاہ ہے۔ یہاں عیسائی مخطوطات کا بہت بڑا ذخیرہ محفوظ ہے۔اس خانقاہ کو عالمی ورثے کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پر عیسائیت کی سب سے پرانی اور نایاب تصاویر بھی موجود ہیں۔ یہ عیسائی تاریخ کا ایک ایسا خزانہ ہے جو چودہ سو سال سے مسلمانوں کی حفاظت میں سنبھال کر رکھا گیا ہے۔
یہ 628 عیسوی کی بات ہے جب سینٹ کیتھرین کی خانقاہ کا ایک وفد نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور ان سے پناہ دینے کی درخواست کی۔ جس پر آپ نے انہیں حقوق کا پورا ضابطہ عطا کیا۔ اور سینٹ کیتھرین کے ساتھ عہد کیا گیا۔
” یہ پیغام محمد ابن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کے ساتھ، چاہے وہ دور ہوں یا نزدیک، ایک عہد ہے کہ ہم اُن کے ساتھ ہیں۔ بے شک میں، میرے خدمتگار، مددگار اور پیروکار ان کا تحفظ کریں گے کیونکہ عیسائی بھی میرے شہری ہیں؛ اور خدا کی قسم میں ہر اس بات سے اجتناب کروں گا جو انہیں ناخوش کرے۔ ان پر کوئی جبر نہیں ہوگا۔ نہ ان کے منصفوں کو ان کے عہدوں سے ہٹایا جائے گا اور نہ ہی ان کے راہبوں کو ان کی خانقاہوں سے۔ ان کی عبادت گاہوں کو کوئی بھی تباہ نہیں کرے گا، نقصان نہیں پہنچائے گا اور نہ وہاں سے کوئی شئے مسلمانوں کی عبادت گاہوں میں لے جائی جائے گی۔ اگر کسی نے وہاں سے کوئی چیز لی تو وہ خدا کے عہد کو توڑنے اور اس کے نبی کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا۔ بے شک وہ میرے اتحادی ہیں اور انہیں ان تمام کے خلاف میری امان حاصل ہے جن سے وہ نفرت کرتے ہیں۔ کوئی بھی انہیں سفر کرنے یا جنگ پر مجبور نہیں کرے گا۔ ان کے لئے جنگ مسلمان کریں گے۔ اگر کوئی عیسائی عورت کسی مسلمان سے شادی کرے گی تو ایسا اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہو گا۔ اُس عورت کو عبادت کے لئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا۔ ان کے گرجا گھروں کا احترام کیا جائے گا۔ انہیں گرجا گھروں کی مُرمت یا اپنے معاہدوں کا احترام کرنے سے منع نہیں کیا جائے گا۔ (مسلمانوں کی) قوم کا کوئی فرد روزِ قیامت تک اس معاہدے سے رُوگردانی نہیں کرے گا۔”
رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمائے ہوئے اس واضح لائحہ عمل پر میں اس سے زیادہ بات اس لئے نہیں کروں گا کہ میرے نبی پاک کے اقلیت کو دئیے گئے اس تحفظ کے بعد اس سے آگے کیا رہ جاتا ھے۔ صرف اطاعت اور یا نافرمانی رہ جاتی ہے۔
قرآن پاک کی بے حرمتی چاہے کچھ دن پہلے والی ہو یا حالیہ جڑانوالہ والی۔ ان بدبختوں کو اس کی جو سزا ھے ضرور ملنی چاہئے۔ اگر کوئی قانون نہ بھی دے تو اللہ کا قانون انصاف پر مبنی ہے۔اس سے مبرا کوئی نہیں بے شک اس پر پرامن احتجاج ھمارا حق بنتا ھے۔مگر ذرا سوچیں ہم مسلمان کفار کی صرف قرآن اور رسول پاک کی گستاخی پر سیخ پا ھوجاتے ہیں۔ لیکن معذرت کے ساتھ کہیں رسول پاک اور قرآن پاک کی شان میں زیادہ گستاخی خود ھم تو نہیں کررہے ہیں۔ قرآن کو صرف چوم کر اونچے طاقوں میں رکھ دینا یہ قرآن کا احترام نہیں ھے۔ اس کو نہ پڑھنا اور پڑھ کر عمل نہ کرنا یہ اللہ سے گستاخی ہے۔ ھم دن رات جھوٹ بول رہے ہیں چوری، دھوکہ فراڈ، نماز نہ پڑھنا، روزہ نہ رکھنا، غیبت، دوسرے بھائیوں کو تکلیف دینا، زیادتی کرنا تو معاشرے کی ایک عام سی صورتحال ھے۔ کیا رسول پاک نے ان باتوں سے ہمیں منع نہیں فرمایا؟ ہم میں موجود یہ اعمال رسول پاک کے تعلیمات کی کھلم کھلا خلاف ورزی اور ان کی شان میں گستاخی نہیں؟ کیا ھم خدا کے احکامات کی ڈھیٹ پنے سے دھجیاں نہیں اڑارہے؟ طاقت ور کا کمزور پر ظلم روز بروز بڑھتا جارہا ھے۔ کیا یہ اللہ اور رسول کی گستاخی نہیں ہے۔ ہم اپنے رسول اور قرآن کے احکامات کے ساتھ جیسا مرضی سلوک کریں۔ بس کوئی غیرہمارے خدا کو ھمارےرسول کو ہمارے قرآن کو کچھ نہ کہے۔استغفراللہ کیسا کھلا تضاد ہے۔ خدا سے رسول سے قرآن و اہلبیت سے ہمارے رشتے صرف جذباتی ہی نظر آتے ہیں حالانکہ عملی صورت میں کردار کی شکل میں نظر آنے چاہئے تھے۔
اللہ پاک ھم سب کو خدا اس کے رسول اور اہلبیت کرام کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین یا رب العالمین
میں نے ایک عام معاشرے کی صورتحال بیان کی ہے جس میں میں خود بھی شامل ہوں میرا مقصد کسی کی دل آزاری نہیں ھے۔ لیکن جڑانوالہ کا افسوسناک واقعہ اور اسی طرح کے دیگر واقعات پر شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ یہ سیرت اور احکامات رسول کے خلاف ہے۔ مگر میں کس سے شکوہ کروں سکول اور تعلیمی اداروں کے نصاب سے رسول پاک اور اسلام کی عظیم ہستیوں کی تعلیمات کو موثر اور جدید انداز میں فروغ دینے کی بجائے ان کو کم کیا جارہا ہے ہٹایا جارہا ہے۔ پارلیمنٹ سے مذہبی ہم آھنگی پر بات کرنے کی بجائے شرپسندی والے بل پاس کئے جارہے ہیں۔اتحاد کی بجائے ہم فرقوں سے نہیں نکل رہے۔ ابھی جڑانوالہ کا زخم ہرا ہے۔ جس پر میڈیا سوشل میڈیا پر بڑھ چڑھ کر تبصرے ہورہے ہیں لیکن یہ بھی شاید بہت سے دوسرے زخموں کی طرح وقت کی بے حسی کی مٹی تلے دب جائے گا۔کیونکہ شاید ماضی کی طرح اس واقعے کا علمی وعملی سدباب تو کوئی ھونا نہیں ھے۔ اور پھرھم خدانخواستہ اسی طرح کے کسی اور واقعے تک اسے بھی بھول چکے ہوں گے۔