نومبر 23, 2024

استاد محترم سید جواد نقوی حفظہ اللہ در میزان نقد

تحریر: علی سردار سراج 

شخصیات کے بارے میں لکھنا اور بولنا اچھا نہیں لگتا ہے ، بالخصوص جب وہ قید حیات میں ہوں۔

لیکن بعض اوقات نہ چاہتے ہوئے بھی بعض شخصیات کے مثبت یا منفی پہلو اجاگر کرنا پڑتا ہے۔

استاد محترم سید جواد نقوی صاحب اپنی ذات، شخصیت، اور نظریات کے حساب سے ایک متوازن شخصیت کا مالک ہو یا نہ ہو ان کے مخالفین اور موافقین کی اکثریت میں عدم توازن کا پہلو نمایاں ہے ۔

کچھ ان کو ہی میزان بنا کر دوسروں کو تولتے ہیں ۔

ان کے نزدیک گویا استاد محترم نہ فقط نقد نا پذیر ہیں بلکہ وہ ہی نقد کا میزان اور ترازو ہیں ۔

جب کہ ان کے سر سخت مخالفین ان کو نہ صرف منحرف سمجھتے ہیں بلکہ باعث انحراف اور گمراہی بھی سمجھتے ہیں ۔

یہ ان کی شخصیت کی عظمت اور وسعت کی علامت ہے جس کی وجہ سے ان کے بارے میں اس طرح کے متضاد نظریات معاشرے میں وجود میں آتے ہیں ۔

ہمارے پاس اس طرح کی شخصیات کی اور بھی مثالیں موجود ہیں ۔

استاد محترم کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ استاد پر نقد کرنے سے پہلے ان سے زیادہ یا ان کا جتنا علم حاصل کریں پھر نقد کریں، اس سے پہلے نہ آپ نقد کا حق رکھتے ہیں اور نہ آپ کا نقد صحیح ہے ۔

کسی اور کو معلوم ہو یا نہ ہو استاد محترم اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ حقیقت میں نقد کے دروازے کو بند کرنا ہے ۔

کسی کھانے کے ذائقے کو ٹسٹ کرنے کے لئے بہت بڑا باورچی بننے کی ضرورت نہیں ہے اور انسان کی اچھائی کو دیکھنے کے لیے بہت زیادہ نیک ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور کسی عالم کے علم و فضل کو سمجھنے کے لئے یا اس کی عملی زندگی کو جانچنے کے لئے اس کے مقام میں ہونا ضروری نہیں ہے ۔

اگر یہ بات صحیح ہو تو پھر ہر استاد اپنے شاگردوں کو اور ہر عالم اپنے سامعین کو اور ہر مجتھد اپنے مقلدین کو یہیں جواب دے کر خاموش کرائے گا۔

استاد محترم خود بھی شخصیات اور نظریات پر نقد کرتے ہیں اور ان کی شخصیت کا یہ پہلو نہ فقط مثبت ہے بلکہ غنیمت ہے۔ بالخصوص پاکستانی معاشرے کے اندر جہاں اندھی تقلید اور شخصیت پرستی کا سکہ رائج ہے ۔

کسی عزیز کے بقول ” ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ جوتوں کے ساتھ اکثر لوگوں کے ذہنوں میں داخل ہوجاتے ہیں”

اس طرح کی تاریک اور کٹھن فضا کی کوکھ سے اندیشہ ہائے ناب کا جنم لینا، کوئلے کی کان سے ہیرے نکلنے کے مترادف ہے ۔

تاریخ بشریت میں یہ المیہ رہا ہے کہ کچھ شخصیات اپنی عظمت کی وجہ سے لوگوں کو اس طرح اسیر بناتی ہیں کہ وہ ان کے مقابلے میں سوچنے، سمجھنے اور آزاد اندیشی کی صلاحیت کھو جاتے ہیں، اور علم ، تحقیق اور تفکر کی جگہ تعصب ،اندھی تقلید اور عدم برداشت جیسی صفات حاکم ہو جاتی ہیں ۔

لہذا اس اسیری سے نکلنے کےلئے بہت جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے ۔

استاد محترم کا کبھی کبھار سخت کلمات کا چناؤ بھی شاید اسی قصد سے ہے کہ لوگ بعض شخصیات اور نظریات کے حصار سے باہر نکل آئیں ۔

شیعہ فقہ کی تاریخ میں شیخ الطائفہ، شیخ طوسی علیہ رحمة، تقربیا سو سال تک حوزہ علمیہ کے اوپر حاوی رہے ہیں ۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ استاد محترم کے شاگرد اپنے استاد سے آزاد اندیشی سیکھنے کے بجائے ان کی شخصیت کے حصار میں اسیر ہوتے جاتے ہیں اور وہ ان کے مقابلے میں مقلد محض بنتے جاتے ہیں ۔ جو غیر متوقع ہے ۔

سید محترم کا اگرچہ دوسرے علوم میں بھی اچھا خاصا تخصص ہوگا، لیکن ان کی شخصیت پر فلسفہ اور فلسفیانہ سوچ کا غلبہ نمایاں ہے۔ اور وہ مسائل کو منطقی انداز اور فلسفی اسلوب میں تبیین کرتے ہیں اور کبھی کبھی یہی روش فقہی مسائل کی تبیین میں بھی نظر آتی ہے ۔

انہوں نے عملی طور پر بہت خدمات انجام دی ہیں جو قابل تقدیر اور تشکر ہیں۔ اسی طرح بعض مسائل میں ان کا اظہار نظر قابل نقد ہے ۔

یہاں پر میری توجہ کا مرکز فقط ان کی شخصیت کا فکری پہلو ہے ، لہذا دوسرے پہلوؤں سے چشم پوشی کرتے ہیں ۔

وہ ایک عظیم مفکر ہیں جس نے اپنے نظریات کے ذریعے پاکستان کے معاشرے پر غالب فکری جمود پر کاری ضرب لگائی ہے ۔

اور اپنے علمی نظریات کی وجہ سے عوامی محفلوں سے آگے بڑھ کر علمی محفلوں میں نمایاں ہوتے جا رہے ہیں ۔

ایک فرقے سے تعلق رکھتے ہوئے فرقہ واریت کے حصار میں نہیں ہیں جس کی وجہ سے بعض اپنے بھی ان سے نالاں ہیں اور بعض دیگر فرق کے لوگ بھی ان پر مشکوک ہیں ۔

لیکن اس بات پر شک نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اسلام اور پاکستان کے ساتھ مخلص ہیں ۔

وہ جمہوریت کے سر سخت مخالف ہیں اور نظام ولایت اور امامت کے داعی ہیں اور اس حوالے سے ان کے اندر پائی جانے والی سختی قابل مشاہدہ ہے۔

وہ اس حوالے سے جمہوری سرگرمیوں میں ملوث علماء کو ولایت سے دور اور جمہوریت کے پیروکار سمجتے ہیں اور جمہوری نظام کو نظام طاغوت سمجھتے ہیں ۔

یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان میں موجود سسٹم طاغوت کے مصادیق میں سے ہے یا نہیں؟؟ لہذا ہمارے موضوع بحث سے خارج ہے ۔

اسی طرح کیا اس سسٹم میں رہ کر جمہوری سرگرمیوں میں حصہ لے سکتے ہیں یا نہیں؟

اس بحث میں پڑنے کی بھی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ علمی حساب سے ہماری نظر جو بھی ہو عملی حساب سے ہم مجتھدین کے فتوی کے پابند ہیں اور کسی مجتھد نے حرمت کا فتوی دیا ہو میرے علم میں نہیں ہے ۔

میرے حساب سے استاد محترم پر سب سے بڑا نقد وہی ہے جو ابن تیمیہ پر ہے۔

ابن تیمیہ نے قرآن کریم کی وہ آیات جو مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ان کو اعمال کے ظاہری تشابہ کو دیکھتے ہوئے اہل قبلہ پر تطبیق کیا ۔

حالانکہ کسی بھی مسلمان کے ذہن میں خدا وند تبارک و تعالی کے ساتھ کسی کو شریک قرار دے کر اس سے مدد طلب کرنے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے گرچہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مبارک ہی کیوں نہ ہو ۔

کیونکہ اسلام کا اساس ہی اللہ تعالی کی توحید اور دوسروں کی بندگی کی نفی ہے۔

ہو بہو استاد محترم بھی ان ادلہ کو جو ائمہ اطہار علیھم السلام کی ولایت و امامت کے منکرین کے بارے میں ہیں ان کو شیعیان علی علیہ السلام بالخصوص جمہوری عمل میں حصہ لینے والے علماء کے اوپر تطبیق کرتے ہیں ۔

حالانکہ شعیت کی بنیاد ہی ائمہ طاہرین کی ولایت کا اقرار اور دوسروں کی ولایت کا انکار ہے۔

شیعہ، مجتھد جامع الشرائط کی ولایت کو بھی ائمہ اطہار علیھم السلام کی ولایت کے عرض میں نہیں مانتے ہیں تو دوسروں کی کیا مجال وہ اس ولایت میں شریک ہو جائیں؟؟؟

اللہ تعالی ہم سب کی ہدایت فرمائے اور راہ مستقیم پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

14 − two =