تحریر: رستم عباس
(دوسرا حصہ)
آئیں پہلے لفظ امام کے مطلب سے آشنائی حاصل کریں۔
لفظ امام کا مصدر ہے ام۔ الف پر پیش کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔عرب اس لفظ کو ہر اس چیز کے لیے بولتے ہیں جس سے کوئی چیز نکلے اور پھر وہ چیز رجوع کے وقت واپس اسی کی طرف رجوع کریے۔
مثلاً مکہ کو ام القری کہا جاتا ہے۔
کیونکہ کہ مکہ سے ملحق تمام قریے مکہ سے ہی نکلے ہیں اور اور تمام اہم امور میں مکہ کی طرف ہی رجوع کرتے ہیں۔مکہ انکا کیپیٹل بھی ہے۔
اس وقت جو ممالک عالمی طور پر سپر پاور سمجھے جاتے ہیں اور جہاں زوال اور خطرات دوسری دنیا کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔۔
چین ان میں سر فہرست ہے۔
آپ چائنہ کے سیاسی اور انتظامی حکومتی نظام کو دیکھیں۔
چائنہ میں جمہوریت نہیں ہے۔نہ وھاں ووٹنگ ہوتی ہے کہ عوام حاکم چنیں۔اور نہ وھاں کوئی سیاسی جماعتیں ہیں کہ عوام کو فریب دے کر جھوٹ بول کر اقتدار میں اجائیں۔اور پھر یہ نااہل اور ہوس اقتدار میں ڈوبے ہوئے۔ ملک کو تباہ کریں۔چین نے یہ رستہ ہی بند کر دیا ہے۔
جو ممالک دوسرے تیسرے نمبر پر مستحکم ہیں ان میں روس
امریکہ۔جرمنی شمالی کوریا بنگلہ دیش۔شامل ہیں۔
ایران میں ولایت فقیہ کی حکومت ہے
وھاں پر امامت جزوی طور پر لاگو ہے کیوں کہ وھاں ووٹنگ ہوتی ہے عوام ووٹ کے زریعے وزیر اعظم چنتے ہیں۔عقل انسانی اور بصیرت کا تقاضا یہ ہے کہ کسی معاشرے کا سربراہ سب سے زیادہ ذہین سب سے زیادہ عاقل سب سے زیادہ مخلص سب سے زیادہ ایمان دار ہونا چاہیے۔
تو کیا جو انسان کامل ہو وہ ووٹ دے کر کامل کیا جاتا ہے۔کہ عوام ووٹ دیں کون کامل انسان ہے۔
یعنی جب اتنی خصوصیات کے مالک کو ڈھونڈنا ہو تو اس کو انگوٹھا چھاپ تلاش کریں گے۔
عقل کہتی ہے کہ نہیں حکومت اور حاکمیت قوموں کی بقاء کا مسلئہ ہے۔لہزا حاکم چننے کا نظام بے عیب ہونا چاہیے۔
اسی طرح ہم سب جانتے ہیں کہ تمام انسان عقل شعور کردار علم فضل کے لحاظ سے برابر نہیں ہیں۔لیکن جب حاکم چننے کا وقت آئے تو کیا جمہوریت کی طرح سب کو برابر سمجھا جائے
چور اور ڈاکو بھی ووٹ ہیں جج اور قاضی بھی بس ایک ووٹ ہے۔
کیسا احمقانہ نظام ہے یہ نظام جمہوریت۔۔۔
اللّہ نے جو نظام بنایا ہے اس کو امامت کا نام دیا ہے یعنی نظام رہبری۔نظام لیڈری۔نہ کہ نظام جمہوریت کہ عوام مل کر کسی گدھے کو حاکم بنا لیں کہ جس نے دھوکہ دینے کے لیے انسان کہ کھال چڑھائی ہوئی ہے۔
جمہوریت وہ چور دروازہ ہے جو ٹھگ اور عیاش لوگوں کو رستا دیتا ہے کہ وہ آئیں اور فریب کے زریعے جھوٹ کے زریعے مسند اقتدار تک پہنچ جائیں اور مملکت کو برباد کریں۔
نظام امامت کی بنیاد توحید پر ہے۔ اللّہ واحد لا شریک ہے اس نے جو انسانوں کے لیے حاکمیت کا نظام بنایا ہے۔اس میں انسان کو اختیار نہیں دیا کہ انسان انسانوں پر حکومت کریں۔امام وہ الہی نمائیندہ ہے جو اللّہ کے قانون کو عوام پر نافذ کرتا ہے۔ دراصل امام قانون الہی اور حکومت الہی کا محافظ ہوتا ہے۔
امام اور حاکم اللّہ کیسے بناتا ہے؟؟؟؟؟
لا حکم الا لاااللہ یعنی حق حکومت صرف اللّہ کو حاصل ہے۔اللہ نے انسان کو اپنا جانشین قرار دیا ہے۔اور انسان اللّہ کی نیابت میں قانون الہی لاگو کرتا ہے۔لیکن ہر انسان کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔
اللّہ نے انبیاء و مرسلین کو اپنا جانشین قرار دیا ہے۔اور بعد از انبیاء رسول خدا کے جانشین امیر المومنین علی علیہ السّلام کو اور انکے بعد آپ علیہ السّلام کے 11بیٹے اس امت اس جہان پر اللّہ کی طرف سے حاکم ہیں۔
اسلامی حاکم یعنی امام زمین پر اللّہ کا عکس ہوتے ہیں۔اللہ کی عملی تصویر ر ہوتے ہیں۔ تمام صفات الہی ان میں پائی جاتی ہیں۔
جو نظام اللّہ کے زریعے مخلوق تک پہنچا ہے اس میں انسان کی اس دنیا کی زندگی اور حیات بعدازممات دونوں کی زندگیوں کی بھلائی اور فلاح ہے۔
کیوں کہ حاکم الہی انسان کو صراط مستقیم پر لے کر چلتے ہیں۔ان کے نزدیک صرف ظاہری دنیا کی فلاح ضروری نہیں بلکہ عالم آخرت کو اولیت حاصل ہے۔
حاکم اسلامی وہ منصوبے بناتا ہے جس سے انسان دونوں جہانوں میں فلاح پائے ۔
جب کہ چین اور ان جیسے دھریے معاشرے جو دنیا میں عقل سے ترقی کر رہے ہیں
لیکن آنے والے عالم میں انکا کوئی حصہ نہیں ہے یہ اخروی نجات نہیں پاسکیں گے۔اور دنیا میں مادی ترقی کی دوڑ میں یہ ممالک زمین کو ویران کر رہے ہیں۔اور ہوس دنیا پیٹ کی ہوس اور پیسے کی ہوس نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔انسان کی استعمال کی ہوئی اشیاء کا کوڑا اس قدر زیادہ ہے کہ آنے والے سوسال میں شاید آدھی دنیا کوٹے کرکٹ سے ہی فل ہوگی۔
جاری ہے۔۔۔۔۔