تحریر: رستم عباس
انسان کو اللّٰہ نے شرف اور کرامت عطاء کی ہے۔ انسان کو وہ خوبیاں دی ہیں جو کسی بھی دوسری مخلوق کو نہیں دیں۔انسان کے علاؤہ جن ہیں ملائکہ ہیں۔جو انسان سے ملتی جلتی خصوصیات رکھتے ہیں۔لیکن اللّہ نے جو فیچرز انسان کو *عطاء* کئے ہیں وہ ان ملائکہ اور جنات کو نہیں عطاء کیے۔
انسان کا سب سے بڑا امتیاز جو اس کو دوسری مخلوقات پہ فوقیت دیتا ہے اس کا عاقل ہونا ہے۔اور دوسرا اس کا قوت ارادہ کا مالک ہونا ہے۔
یعنی انسان کو اللّٰہ نے خدائی طاقتیں دیں ہیں۔ مثال کے طور پر اللّہ کسی کام کا ارادہ کرنا کرنا چاہیے تو وہ فرماتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔اور اسی طرح انسان اگر کسی چیز کا ارادہ کرے تو وہ بھی اس کام کو کر گزرتا ہے اس مقصد کو اپنے ھدف کو حاصل کر لیتا ہے۔ہرچند اس کے لیے اسے لمبے عرصے تک اس کے مادی وسائل فراہم کرنے ہوتے ہیں اور عملی جدجہد کرنا پڑتی ہے۔
یعنی اللّہ صاحب ارادہ ہے اور انسان بھی ایک فرق کے ساتھ صاحب ارادہ ہے۔
دوسرا امتیاز انسان کو یہ حاصل ہے کہ انسان کو اللّٰہ نے عقل وشعور بخشا ہے۔جس کی وجہ سے انسان نے دنیاکوبدل کر رکھ دیا ہے۔ اللّہ تعالیٰ نے بھی صاحبان عقل کو ہی اپنا مخاطب قرار دیا اور اپنی ھدایت کی کامل اور آخری کتاب میں جابجا عقل کو خطاب کیا ہے کہ۔۔۔۔۔
کیا تم قرآن پر غور نہیں کرتے یا تمہارے دلوں پر تالے پڑے ہیں۔۔۔۔
اس قرآن میں عقل والوں کے لیے نشانی ہے۔۔۔۔
مومنین وہ ہیں جو بات سن کر جو بہترین ہو اس کی پیروی کرتے ہیں۔یہ ہی صاحبان عقل خرد ہیں۔
اللّہ نے انسان کو عقل کی وجہ سے تمام عالمین پر فوقیت دی ہے۔
اور انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس نے زندگی گزارنے کے لیے مختلف تجربات کے زریعے آسانیاں پیدا کیں ہیں۔
ابتدائی انسان نے جو پہلی عقلانی پیش رفت کی وہ انسانوں کا ایک معاشرے کے طور پر رہنا ہے۔
ابتدائی انسان غاروں میں دروں میں جنگلوں میں حیوانات کے ساتھ رہتا رہا ہے لیکن عقل کے رشد کے ساتھ ساتھ انسان نے اجتماعی زندگی بسر کرنا شروع کی۔معاشرے تشکیل پائے تہزیب نے جنم لیا۔اور انسان نے پہلی اور دائمی پیش رفت کی کہ ایک نظام حاکمیت اور نظام حکومت تشکیل دےدیا ۔
جب تک انسان کی عقل پیغام الہی اور وحی الہی سے منور نہیں ہوئی انسان قبائلی طرز حکومت کو ترجیح دیتا رہا ہے۔
ایک قبیلے کے لیے ہر وہ چیز حق ہوتی جو اس کو دوسرے قبائل سے تحفظ دے اس تحفظ کے لیے انسان کسی قاعدہ و قانون کا پابند نہیں تھا۔
لیکن وحی کے ذریعے اللہ نے انسان کو باور کروایا ہے کہ ایے انسان تو ایک قوم ایک قبیلے تک محدود نہیں اللّہ کے نزدیک تمام عالم کے انسان برابر ہیں۔اور سب کا جان ومال عزت و ناموس محترم ہے۔
لہذا اللہ نے اپنے نمائندے بھیجے اور انکو انسانوں کو زندگی گزارنے کا پورا لائحہ عمل دیا ہے۔
لیکن انسان چونکہ آزاد پیدا ہوا پے۔جو راہ چاہیے انتخاب کر سکتا ہے۔
لہذا انسان نے اکثر اپنے خالق کی ھدایت کو نظر انداز کیا ہے اور خود سے زندگی گزارنے کے اصول اور قانون ایجاد کئیے پیں۔
موجود صورت میں سب سے مشہور نظام زندگی سیکولر جمہوریت ہے جو انسان نے ہزاروں سال کے ارتقاء کے بعد فائنل کیا ہے۔کہ یہ انسان کی بہبود کے لیے بہترین نظام زندگی ہے
جمہوریت کی بنیاد انسانی خواہشات ہیں۔یعنی انسان کو جو طرز زندگی پسند ہے انسان وہ طرز حیات اپنانے میں آزاد ہے۔اس وقت مغرب سیکولر جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔
اس جمہوریت کے ثمرات اب دنیا نے دیکھنے شروع کیے ہیں جبکہ دانشور اس کی پیدائش سے ہی اس کے خطرے کی نشاندھی کر رہے تھے۔
سودی معشیت۔معاشرتی بگاڑ۔زن سالاری۔فحاشی عریانی۔
حتی مرد کی مرد سے شادی۔اور حد تو یہ ہے کہ محرم رشتوں کی شادی یعنی باپ بیٹی کی شادی۔یہ سب مغربی سیکولر جمہوریت کے فساد ہیں۔
اس طرز زندگی اس طرز حکومت کی بنیاد ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ خواہش نفس پر ہے۔جو انسان کا جی چاہیے گا وہ قانون ہوگا۔جمہوریت کی بنیاد عقل پر نہیں رکھی گئی۔
دوسری طرف آمریت۔ ملوکیت وبادشاہت ہے۔
یہ سب نظام زندگی دو انتہائی حدوں پر ہیں۔جمہوریت نے ہر انسانی خاہش کو انسانی ضرورت کا نام دے کر فطرت کو پائمال کیا ہے۔
جبکہ امریت ملوکیت اور بادشاہت نے استبداد کو روا رکھا ہے۔یہ لوگ ظلم و جبر سے طاقت میں آئے اور مخلوق خدا کے درمیان زور زبردستی سے حکم چلایا۔
ہر دو نے عقل انسانی کو عاجز کیا۔عقل انسانی کے مطابق انسان کو فلاح و بہبود نہ مہیا کرسکے۔
اس کے مقابلے میں خالق کائنات نے انسان کے لیے عقل و خرد سے نظام زندگی تشکیل دیا ہے جس کو نظام امامت و ولایت کہا جاتاہے
امامت نظام عقل حکمت۔۔۔۔
اللّہ تعالیٰ نے جو نظام انسان کی فلاح و بہبود کے لیے بنایا ہے اس کو قرآن میں امامت کہا ہے۔اور رہبر لیڈر کو امام کا خطاب دیا ہے۔
قبائلیت۔امریت۔ملوکیت۔اور امامت میں فرق۔
امامت اور دوسرے تینوں نظاموں میں ایک چیز مشترک ہے اور وہ ہے کہ اس میں فرد واحد کو مرکز مانا گیا ہے۔اس میں عام عوام کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔یعنی قبیلے کا سردار فوجی امر اور بادشاہ عوام کی مرضی یا ووٹ سے نہیں بنتا۔بلکہ یہ تینوں نظام طاقت اور جبر سے وجود میں آتے ہیں۔
جبکہ اللّہ کا نظام حیات جس کو امامت کہا گیا ہے اس میں فرد واحد کو مرجع خلائق مانا گیا ہے۔لیکن یہ انسان جو امام ہے اس کو نہ تو عوام نے منتخب کیا ہے کہ عوام کے اشاروں پر چلے اور نہ یہ زور زبردستی سے امام بنا ہے بلکہ امام کو اللہ نے عہد امامت عطاء کیا ہے۔امامت ایک منصب ہے۔جو حکومت اور مقام و منصب کا محتاج نہیں پے۔لیکن امام اللہ نے بنایا حکومت کے لیے ہی ہے۔
امام الہی خصوصیات کا حامل ایسا انسان ہے۔جو تمام انسانی صفات کا مجموعہ ہے۔جو مخلوق خدا پر یکساں مہربان ہے۔
اور وہ مخلوق پر خالق کے قانون کو نافذ کرنے والا ہے۔
یہ امام زمین پر قانون خدا اور اقدار الہی کا امین ہوتا ہے۔
یہ امام شروع انسانیت میں انبیاء الہی کہلاتے تھے جن کا قرآن میں کثرت سے ذکر ہے۔
ماضی قریب میں ان رہبران الہی کو امام معصوم کہا گیا ہے۔
اسلام جو کہ آخری دین خدا ہے
اسلام کے آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم اس امت کے امام بھی ہیں اور پیغمبر بھی آپ کے بعد آپ کے جانشین جن کو خود اپنے آخری خطبہ میں اللّٰہ کے حکم سے نامزد کیا وہ علی ابن ابی طالب علیہ السّلام ہیں۔
اور ان کے بعد انکے گیارہ بیٹوں کی امامت کا اعلان بھی کیا ہے۔
اس وقت امام مہدی آخری امان پردہ غیبت میں ہیں۔
لیکن دین چونکہ کامل ہے ہر دور کے ہر قسم کے حالات کے لیے ھدایات دیتا ہے لہزا اس دور میں
امام کے فرمان کے مطابق۔
وہ عالم عادل جو فقیہ ہو اور ہواوہوس کا پیروکار نہ اور دین خدا سے وفاء دار ہو۔وہ لیڈر اور رہنما ہے مخلوق نے اس کے پیچھے چلنا ہے۔
قرآن مکمل ضابطہ حیات ہے۔
اور امام مکلمل حیات کا رہبر اور لیڈر ہے۔جب تک قرآن ہے اس وقت تک امام کی ضرورت ہے
یہ امام کبھی تو معصوم ہوگا اور کبھی غیبت کبریٰ میں غیر معصوم ولی فقیہ ہوگا۔
یہ عقل کا راستا ہے کہ ہم خالق کائنات کے بنائے ہوئے نظام کو تسلیم کریں۔اور کامیابی حاصل کریں۔
یا دنیا کے بنائے ہوئے نظام اپنا کر راہ یزید پر چل کر مقام یزیدیت تک پہنچ جائیں۔
یزید ایک سیکولر جمہور پسند انسان تھا۔جو نہ کسی رشتے کا تقدس جانتا تھا نہ خدا نہ وحی نہ پیغمبر کو مانتا تھا۔
وہ جدید مغربی تہزیب کا داعی تھا کہ شہوت کو انسان جہاں سے چاہیے پورا کرے۔چاہیے رشتوں کے تقدس کو پائمال ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
اور حکومت ملنی چاہیے چاہے اس کے لیے آپ کو نواسہ رسول کو ہی کیوں نہ زبح کرنا پڑے۔
یزیدیت ظلم وفساد فحشاء کا مجموعہ ہے۔
اور موجودہ جمہوریت بھی یزیدیت کی ایک شکل ہے اب فیصلہ مومینین کے ہاتھ میں ہے کہ وہ راہ حسین اختیار کرتے ہیں یا راہ یزید۔
اہے رسول آپ پر فقد پہنچا دینا فرض ہے۔