تحریر: سید محمد روح اللہ رضوی
جغرافیائی آزادی یا ایک الگ زمین کے ٹکرے کا حصول یقینا بنیادی حیثیت کا حامل ہے لیکن اسکی کامل افادیت اس وقت ممکن ہوسکتی ہے جب کوئی ملت اپنے تمام عزم و ارادے، اہداف کی نسبت سنجیدگی اور اپنے فیصلوں میں آزاد ہو۔ یعنی حقیقی آزادی و استقلال سے آراستہ ہو اور کسی قسم کی سیاسی، علمی، عسکری، ثقافتی، اقتصادی وابستگی کا شکار نہ ہو۔ امت اپنی تقدیر خود لکھے، اپنے فیصلے خود کرے، اپنی راہ و روش کو خود معین کرے کوئی غیر اس پر اپنی مرضی مسلط نہ کرسکے یہ اسکا فطری حق اور دینی ذمہ داری ہے۔
اس فطری و انسانی حق و ضرورت کو دین اسلام میں بہت اہتمام کے ساتھ بیان کیا گیا ہے، قرآن کریم کی کئی آیات صراحت کے ساتھ امت مسلمہ کے استقلال اور غیر وابستگی کے نظریہ اور حکم کو بیان کررہی ہیں۔ اسلام کی نظر میں استقلال و آزادی جہاں ایک حق ہے وہیں مسلمانوں کے لئے حکم و ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے مفادات و اہداف کو کسی بھی غیر الہی قدرت کے ساتھ وابستہ نہ کریں۔ قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے:
وَلَن يَجعَلَ اللَّهُ لِلكافِرينَ عَلَى المُؤمِنينَ سَبيلاً؛ اور ہرگز اللہ کفار کو مومنین پر غلبہ و تسلط عطا نہیں کریگا۔ (سورہ نساء آیت ۱۴۱)
علم دین کی اصطلاح میں اس قانون کو نفی سبیل سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ تکوینی قانون کی حیثیت سے اس آیت کے دو معنی لئے جاسکتے ہیں:
۱۔ اگر مومنین ایمان کی تمام شرائط پر عمل پیرا ہوں تو کبھی کفار ان پر غالب نہیں ہوسکتے۔
۲۔ اس کائنات کی سرنوشت اور عاقبت مومنین کے ہاتھوں میں ہے۔
بطور حکم تشریعی بھی اس آیت سے دو معنی نکلتے ہیں:
۱۔ اسلام میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں جو مسلمانوں پر کسی بھی جہت سے اغیار کے مسلط ہونے کا سبب بنے۔
۲۔ مسلمانوں کا وظیفہ ہے کہ کسی بھی میدان میں کوئی ایسی پالیسی یا روش نہ اپنائیں جس کے نتیجہ میں اغیار و کفار ان پر غلبہ پاسکیں۔
یعنی؛ نہ ہی اللہ تعالی نے دین اسلام میں کوئی ایسا حکم قرار دیا ہے جو مومنین کو غیر دینی قوتوں اور کفار کے سامنے بے بس اور کمزور کرے اور نہ ہی مومنین کو اس بات کی اجازت ہے کہ کوئی ایسا اقدام اٹھائیں جس کے سبب کفار کے آگے ذلیل و رسوا ہوں، نہ انکے آگے ہاتھ پھیلائیں، نہ انکے فرمان پر لبیک کہیں، نہ اپنی داخلی و خارجہ پالیسی ان کے حکم کے مطابق تیار کریں اور نہ اپنی ثقافت، اقتصاد، علمی ترقی، سیاست غرض کسی بھی میدان میں انکے محتاج ہوں۔ اسی طرح اگر کہیں ضعف و کمزوری ہے تو ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے جو مستقبل میں انہیں کفار سے بے نیاز کردے۔
نیز دوسری جانب یہ آیات؛ الہی وعدہ کی جانب اشارہ کررہی ہیں کہ اگر مومنین اللہ کے راستے پر استقامت دکھائیں، اپنے عمل و کردار سے ایمان کی تمام شرائط و تقاضوں کو پورا کریں تو خدا ہرگز ان پر اغیار کو مسلط نہیں ہونے دے گا بلکہ انہیں غالب و کامیاب قرار دے گا۔ اور مومنین کو وعدہ دیا جارہا ہے کہ وہ اپنی اس تحریک اور اس راہ میں استقامت کو بے نتیجہ نہ سمجھیں بلکہ یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اس کائنات کی سرنوشت و عاقبت مومنین و متقین کے ہاتھوں میں ہے۔ اس کائنات پر بالآخر عدل کا نظام قائم ہوگا لہذا اس روشن دن کے لئے اپنی کوششوں کو تیز کریں؛ اس تکوینی نتیجہ کو قرآن کی دیگر آیات سے بھی سمجھا جاسکتا ہے۔
1947ء میں برصغیر کے مسلمانوں نے اسی حکم الہی پر عمل کرتے ہوئے انگریز استکبار کے تسلط سے ایک زمین کا ٹکرا آزاد کرایا اور مملکت خداداد پاکستان معرض وجود میں آیا جو عالم اسلام میں ایک بہت بنیادی اور اہم پیشرفت تھی لیکن یہ آزادی کا ایک مرحلہ تھا ابھی بہت سے مراحل باقی ہیں، اللہ کے راستے میں توقف و ٹہراو نہیں ہے۔ ہم نے زمین کا ٹکرا تو حاصل کرلیا لیکن ابتداء سے آج تک ہمارا اقتصاد، ہماری سیاست، ہماری ثقافت، ہماری علمی ترقی روز بروز کفار و اغیار کے پنجوں میں جکڑتی جارہی ہے۔ ہمارے سیاسی فیصلے، ہمارا تعلیمی پلان، ہمارے ثقافتی اور معاشرتی اقدار، ہمارا عسکری استقلال، علم کی دنیا میں ترقی ہر آئے دن کمزور ہورہی ہے اور ہر آنے والا دن ہمیں زیادہ محتاج اور زیادہ مقروض بنا رہا ہے۔
ہہاں وابستہ نہ ہونے سے مراد قطعا یہ نہیں ہے کہ ہم دنیا سے تعلق ختم کردیں اور نہ ہی یہ مراد ہے کہ دنیا کی ترقی سے فائدہ حاصل نہ کریں بلکہ اس حوالے سے بھی واضح حکم ہے کہ حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے ملے لے لو لیکن ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہیں حکمت کے نام پر ذلت و رسوائی نہ دی جارہی ہو، ماضی کی طرح کہیں تعقات و تجارت کے بہانے اغیار ہم پر غالب نہ آجائیں۔ لہذا حکم قرآن کے سبب ہماری بطور ملت اسلامیہ یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ملک کو استکبار کے شکنجے سے آزاد کرائیں اس حقیقی آزادی کی جانب سفر کریں جس کا اللہ نے وعدہ کیا ہے اور اسکے تحقق کی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر عائد کی ہے۔ اگر ہم نے الہی وعدہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے ملک کو ہر میدان میں خودکفیل بنانے کی کوشش کی تو یقینا اِن تَنصُرُوا اللهَ یَنصُرکُم (سورہ محمد آیت ۷) کا مصداق قرار پاکر دنیا و آخرت میں سرخرو ہوں گے۔
خدا اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔
پاکستان_زندہ_باد