تحریر: محمد ثقلین واحدی
انتہائی زیادتی کا مقام ہوگا اگر 14 اگست کو تحریک آزادی پاکستان کے روح رواں اور خزانچی راجہ محمد امیر احمد خان جو راجہ صاحب محمود آباد کے نام سے مشہور ہیں کو یاد نہ کیا جائے کسی بھی ادارے، سسٹم یا تحریک میں خزانچی ہمیشہ ایک ایسے شخص کو بنایا جاتا ہے جو کچھ کر گزرنے کی ہمت رکھتا ہو مالی حوالے سے جب بھی اس سسٹم کو مشکلات کا سامنا ہو خزانچی دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے خزانوں کا منہ کھول دے راجہ صاحب 5 نومبر 1914ء کو اودھ کی ریاست محمود آباد کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے راجہ صاحب نے ایک ایسے ماحول میں پرورش پائی جو ہر طرح سے اخلاقی اور مذہبی روایات کا امین تھا انکے والد محمد علی محمد خان سنہ 1917 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بنے وہ اس وقت محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ابتدا میں یہ تعلقات سیاسی نوعیت کے تھے مگر رفتہ رفتہ یہ مراسم برادرانہ تعلقات میں تبدیل ہوگئے۔ اپریل 1918 میں جب قائد اعظم نے رتن بائی سے نکاح کیا تو اس نکاح نامے پر مہاراجہ محمد علی محمد خان نے بانی پاکستان کے وکیل کی حیثیت سے دستخط کیے اور دلہن کو قیمتی انگوٹھی بھی تحفے میں دی تھی۔ قائد اعظم کو چچا اور فاطمہ جناح کو پھوپھی کہنے والے راجہ صاحب نے 1931 میں اپنے والد کی وفات کے بعد تقریبا سولہ سال کی عمر میں فہم و فراست اور تدبر سے ریاست محمود آباد کا اقتدار یوں سنبھالا کہ سب انگشت بدنداں رہ گئے
شروع میں راجہ صاحب کو آل انڈیا مسلم لیگ کے پرچم تلے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر منتخب کیا گیا جہاں انہوں نے نہ صرف تنظیمی معاملات کو درست کیا بلکہ نوجوانوں میں ایسی روح پھونکی جس نے بعد میں تحریک آزادی پاکستان میں اہم کردار ادا کیا راجہ صاحب کا مسلم لیگ سے یہ تعلق قیام پاکستان تک جاری رہا۔
کہا جاتا ہے کہ ریاست محمود آباد کے حکمراں راجہ صاحب کا شمار انتہائی دولت مند افراد میں ہوتا تھا انہوں نے وہ تمام دولت و سرمایہ تحریک آزادی کی راہ میں خرچ کر دیا اور اسی وجہ سے ریاست کی حکمرانی بھی انکے ہاتھ سے جاتی رہی تعجب کی بات یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں ایک انچ زمین نہ خریدی، نہ کوئی کارخانہ یا ملیں لگائیں، نہ کوئی پرمٹ یا ٹھیکہ لیا نہ ریاست نہ وزارت، افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ ہمارے آج کے حکمران بلا تفریق توشہ خانوں کے تحائف بیچنے کے کیسز میں جیلوں میں جاتے ہیں سیلاب متاثرین کا سامان ہڑپ کرتے اور وباوں کے نام پہ مال جمع کرتے نظر آتے ہیں پاکستان بنانے والے کیسے اوراجاڑنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1959ء میں ایک انٹرویو کے دوران حصول آزادی اور قیام پاکستان کے بعد سیاسی معاملات میں اپنی کنارہ کشی اور اس حوالے سے چہ مگوئیوں کے بارے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام چہ مگوئیاں بے محل اور قیاس آرائیاں بے موقع ہیں۔ آزادی اور قیام پاکستان کا مطالبہ میرا قدرتی حق تھا، جس کے لئے بھرپور جدوجہد کی اور اب بھی نظریہ کے مطابق خدمت کر رہا ہوں۔ قیام پاکستان کے بعد اگست میں ہی ایران روانہ ہوگئے اور عراق میں مستقل سکونت اختیار کرنے کا اعلان کیا۔ جب ان سے ایک انٹرویو میں دریافت کیا گیا کہ آپ نے قیام پاکستان کے بعد ملک میں قیام کیوں نہیں کیا تو انہوں نے کہا تقسیم ہند کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اس ملک میں میری ضرورت نہیں تو اس سے استفادہ کرنا بھی مجھے گوارہ نہ ہوا اس لئے عراق جانا میں نے بہتر سمجھا۔
سانحہ مشرقی پاکستان راجہ صاحب کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہوا وہ آخر عمر تک اس سانحہ پر آنسو بہاتے رہے۔
جب پاکستان میں جنرل ایوب خان کی حکومت نے سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی اٹھا لی تو راجہ صاحب کو لیگی کارکنان کی جانب سے صدارت کے لئے نامزد کیا گیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ 1963ء تا 1969ء متعدد بار پاکستان آئے اور لندن گئے، لیکن انہوں نے پاکستان میں کسی قسم کی سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ 1971ء میں مشرقی پاکستان کا جدا ہو جانا راجہ صاحب کے لئے بہت بڑا سانحہ تھا، وہ سیاسی صورتحال سے اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ لندن واپس چلے گئے، ان کی عارضہ قلب کی تکلیف بڑھ گئی اور وہ ہسپتال میں داخل ہوگئے۔ ایک ماہ کے بعد وہ ہسپتال سے واپس آئے اور اسلامک سنٹر کے قیام کے لئے جدوجہد کرتے رہے۔ 14 اکتوبر 1973ء کو دل کا شدید دورہ پڑا اور 59 برس کی عمر میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ راجہ صاحب کی میت ایک خصوصی طیارے کے ذریعے لندن سے تہران لائی گئی اور مشہد مقدس میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مقبرہ کے ساتھ احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔