نومبر 23, 2024

عمران خان کی سیاست میں پاکستان نے اور عمران خان نے کیا کھویا کیا پایا

تحریر: رستم عباس

عمران خان پاکستان کی محبوب ترین شخصیات میں سے ایک ہیں۔عمران خان 1992 میں برطانیہ میں ہونے والے کرکٹ کے ورلڈ کپ کے فاتح ہیں۔برصغیر پاک ہند میں کرکٹ کا  جنون ہر عمر کے افراد میں یکساں ہے۔اور ہماری ہردلعزیز شخصیت عمران خان واحد کپتان ہیں جس نے پاکستان کو کرکٹ کا عالمی فاتح کا اعزاز دیا ہے۔خان صاحب نے ایک اور بہت ہی نادر تحفہ پاکستان کو دیا وہ پاکستان کا پہلا کینسر ہسپتال تھا۔جو انہوں نے اپنی والدہ کی یاد میں بنوایا۔اور نام بھی والدہ کے نام پر شوکت خانم رکھا۔

یوں ہمارے کپتان کی شہرت کو چار چاند لگ گئے۔

لیکن ان تمام کامیابیوں میں ایک کمی تھی وہ تھی زوجہ لہذا کپتان نے وہ بھی ایسا کام کیا کہ سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔اور کپتان نے شادی برطانیہ کے ارب پتی  خاندان میں کی اور یوں وہ مزید عالمی طور پر بھی  مشہور ومعروف ہوگئے۔

لیکن عمران خان اتنی شہرت اور عزت پر ۔قانع نہیں تھے لہذا عمران خان نے ملکی سیاست میں قدم رکھ دیا اور پاکستان تحریک انصاف کے نام سے ایک سیاسی جماعت کی بنیاد رکھ دی۔لیکن شروع میں اس جماعت کو عوامی پزیرائی نہیں مل سکی اور خان صاحب صرف میانوالی کی سیٹ سے منتخب ہوتے رہے

مشرف کے مارشل لاء میں خان صاحب نے پرویز مشرف کی کسی حد تک  حمایت کی اور ریفرنڈم میں عوام کو مشرف کا ساتھ دینے کا مشورہ دیا۔

عدلیہ بحالی تحریک میں بھی سرگرم رہے۔اور ایک ہفتہ جیل میں بھی رہے۔

لیکن عمران خان کی سیاست میں ایک انقلابی موڑ2011میں آتا ہے

جب جرنل شجاع پاشا خان صاحب سے ملتے ہیں اور تعاون  کی پیش کش کرتے ہیں۔مالی امداد کی بھی افر کرتے ہیں لیکن خان صاحب یہ کہ کر مالی اگر ٹھکرا دیتے ہیں کہ اس سے میری کارکردگی میں فرق آئے گا۔

بقول شخصے یہ بیان مقتدر ادارے کے سربراہ کو گھائل کر جاتا ہے

یوں اس دن اسٹیبلشمنٹ نے تہیہ کر لیا کہ اب ملک کے اقتدار کے سنگھاسن پر کوئی جچتا ہے تو وہ عمران خان نیازی ہیں۔

اور یوں 2011 مینار پاکستان لاہور کا تاریخ ساز جلسہ ملکی سیاست کی سمت متعین کرگیا۔

مختصراً خان صاحب 2013٫کا الیکشن تو نہ جیت سکے لیکن ملک کے پختون صوبے میں حکومت بنا گئے۔دوسری طرف ملکی اسٹیبلشمنٹ کی مسلم لیگ ن سے ٹھن گئی۔2013کے الیکشن کے بعد سے ہی عمران خان نے دھاندلی کا نعرہ لگایا اور۔ جلسے جلوس کے زریعے ن لیگ کی حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کیا دھرنے دیے۔لیکن کوئی فائیدہ نہ ہوا۔

2018میں عمران خان جس طرح بھی حکومت میں اگئے۔

لیکن یہاں سے خان صاحب کے مقدر خراب ہونا شروع ہوئے۔اسد عمر وزیر خزانہ تھے لیکن موصوف ایک مہینہ تک ائی ایم ایف سے ڈیل نہ کر سکے۔ملک بحران کا شکار ہونے لگا۔لیکن اسٹیبلشمنٹ سامنے آئی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سابقہ وزیر خزانہ حفیظ شیخ کو دبئی سے بلا کر وزارتِ خزانہ کا قلم دان سونپ دیا گیا۔لیکن ناتجربہ کاری اور نالائق ٹیم کی وجہ سے مہنگائی روز بروز بڑھتی گئی۔اور عوام کا اعتماد خان صاحب سے اُٹھتا گیا۔

اس پہ طرہ پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار تھے۔جو بلکل بھی اتنے بڑے صوبے کے سربراہ ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے

انہوں نے رہی سہی کسر نکال دی۔

دوسری طرف ن لیگ اور پی پی کو مسلسل شکنجے میں رکھا سابقہ وزیر اعظم نواز شریف انکی بیٹی مریم نواز دونوں کو جیل بھیجا کرپشن کے الزام میں لیکن ایک روپیہ بھی برآمد نہ کروا سکے۔

آصف زرداری انکی بہین فریال تالپور کو اندر کیا مگر ان سے بھی پیسہ نہ وصول کر سکے۔

اس تمام جنگ میں مولانا فضل الرحمان بہت ذلیل کئے گئے ہر جلسے میں ڈیزل ڈیزل کے نعرے انکے لیے وبال جان بن گئے لہذا مولانا کی کاوشوں سے تمام جماعتوں نے ملک کر پی ڈی ایم کے نام سے جماعت بنائی۔

اور بللآخر پی ڈی ایم نے خان صاحب کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی جو کہ کامیاب ہوئی خان صاحب پھر سڑکوں پر تھے۔

خان صاحب نے اسمبلیاں توڑی کہ فوری الیکشن ہوں بے سود

خان صاحب نے لانگ مارچ کئے بے سود خان صاحب نے ہر حربہ اپنایالیکن بے فائیدہ و بے سود ثابت رہا۔

یہاں پر ہمارے ہردلعزیز کپتان سے تاریخی غلطی سر زد ہوئی۔

کہ 9مئی انکی گرفتاری پر بلوے ہوئے۔

اور پی ٹی آئی کے ورکرز نے ٹارگٹ کر کے فوجی تنصیبات پر حملے کیے اور بہت سی جگہوں پر آرمی آفس پر حملے کئے

البتہ خان صاحب اپنی معزولی کے دن سے ہی فوج کو براہ راست نشانہ بنارہے تھے۔

اب صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام بڑے لیڈر پارٹی چھوڑ چکے

اور پی ٹی آئی سے مزید دو بڑی پارٹیاں وجود میں اچکیں۔

تحریک انصاف کے بہت سے رہنماء سیاست سے ہی تائب ہوچکے

اور خود عمران خان اس وقت ااٹک جیل میں قید ہیں۔

کیا کھویا کیا پایا۔۔۔۔

خان صاحب نے پاکستان کی سیاست میں ہلچل مچائی کرپشن کے سدباب کو اپنی پارٹی کا بیانیہ بنایا۔

اس سے پاکستان کی عام عوام میں شعور پیدا ہوا اور لوگوں میں انصاف پسندی اور ایمانداری کا جزبہ پیدا ہوا۔

خان صاحب نے موروثی سیاست کو للکارا۔اور اپنی پارٹی میں الیکشن کروائے۔یوں پہلے سے موجود آمریت اور بادشاہت والی پارٹیوں ن لیگ پی پی کو بہت سبکی ہوئی۔

ملکی ماحولیات پر بہت اہم کام سر انجام دیے بلین ٹری کا منصوبہ شروع کیا ملک کی فضاء ماحول بہتر ہوا اور پلوشن  بہت کم ہوئی۔

ملک میں دو پارٹی سیاست کو چیلنج کیا اور انکی اجارہ داری ختم کی۔

لیکن خان صاحب کی طرز سیاست نے مجموعی طور پر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا

کہ ایک چلتی حکومت اور بہتر ٹریک پر آئے ملک کو ڈی ٹریک کیا۔دھرنوں سے نواز شریف کی حکومت گرائی۔جس سے ملک میں معاشی بحران شروع ہوا۔جو چیز 2015٫16میں 140کی تھی اس وقت وہ چیز 600روپے میں مل رہی ہے۔

ملک میں افواج پاکستان کی عزت ووقار کو داوو پر لگا دیا۔اب ہر کوئی آٹھ کر پہلے ملک کی افواج پر انگلی اٹھاتا ہے۔

ملکی سیاست میں اس وقت جو ماحول چل رہا ہے۔اب نظریات کی سیاست کی گنجائش نہیں ہے اس وقت مفادات کی سیاست چلے گی۔

اگلے کم ازکم بیس سال اس ملک میں مفادات اور گندی سیاست ہوگی نہ صرف گندی بلکہ معاف کرنا ننگی سیاست ہوگی۔اس کی وجہ؟؟؟اس لیے کہ ادارے عمران خان کو برداشت نہیں کریں گے عوام میں ن لیگ اور پی پی کی اب جڑیں نہیں اب کیا سیاست ہوگی اب پیسے کی اب سرعام جوڑ توڑ کی موروثیت کی سیاست ہوگی۔

اور ملک جو کچھ حد تک آزاد ہوا تھا اب پھر امریکہ اور عالمی طاقتوں کا غلام ہے گا۔

یہ سب کس وجہ سے ہے۔یہ سب خان صاحب کے غرورو تکبر اور ہوس اقتدار کی وجہ سے ہے۔

کبھی کبھی انسان کی نجات اس کی کسی ایک خوبی کی وجہ ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی کسی کی بربادی اس کی کوئی ایک شامی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

لہذا انسان کو ہر وقت اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور ایسے دوست بنائے جو اسکو آئینہ دکھائیں نہ کہ اس کو ہلاشیری دیتے رہیں۔

اور بلآخر ہلاکت تک لے جائیں۔

Facebook
Twitter
Telegram
WhatsApp
Email

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

2 × four =