سیاسیات-افغانستان میں طالبان حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اپنی ناکامی کا ملبہ ان پر پھینک رہی ہیں۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے پیر کو پشاور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اور پاکستان میں ایسے واقعات میں افغان باشندوں کا ملوث ہونا خطے کے استحکام اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
انہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ کارروائیاں دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہیں۔‘
لیکن طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ ’پاکستان کو اپنی سرحدوں کے اندر ایسے مسائل کا حل یا جواب تلاش کرنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ اپنے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ انہیں اپنی کوتاہیوں کے لیے افغانستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔‘
طالبان حکومت کے ترجمان کے مطابق یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو علاقائی سطح پر موجود ہے اور ان کے الفاظ کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ دونوں فریق اس کا حل کیسے نکال سکتے ہیں۔
افغان طالبان کے اس سخت رد عمل پر ابھی حکومت پاکستان کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد نے بی بی سی پشتو سے ایک انٹرویو میں کہا کہ پاکستانی سکیورٹی اہلکار اپنے ملک میں سکیورٹی کو مضبوط کرنے میں ناکامی کے بعد ایسے بیانات دے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت کی پوزیشن واضح ہے اور وہ بار بار دہراتے رہے ہیں کہ وہ کسی کو افغانستان کی سرزمین دوسروں کے خلاف اور (خصوصاً) پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
پاکستان کے قبائلی ضلع باجوڑ حملے کا ذکر کرتے ہوئے ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اور داعش ایک علاقائی رجحان ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’گذشتہ سال ہم نے داعش گروپ سے تعلق رکھنے والے 18 پاکستانیوں کو مارا اور 43 دیگر کو گرفتار کیا جو افغانستان میں حملہ کرنا چاہتے تھے، لہذا ہم ان لوگوں کو آپ کے پاس واپس بھیجنے کا الزام پاکستان پر نہیں لگا سکتے۔‘
باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ایک جلسے پر 30 جولائی کو حملے میں 60 سے زائد افراد مارے گئے تھے جب کہ درجنوں زخمی بھی ہوئے۔
پشاور میں پیر کو قبائلی عمائدین سے ایک ملاقات میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے پاکستان میں حالیہ حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ افغانستان میں موجود عناصر ایسے حملے کر رہے ہیں۔
ماضی میں پاکستان کی وزارت خارجہ اور دفاع کی جانب سے بھی ایسے ہی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان کی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان کے عدم تحفظ میں کچھ ’افغان بھی ملوث‘ ہیں اور انہوں نے ثبوت و شواہد طالبان حکومت کے ساتھ شیئر کیے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد نے اس حوالے سے کہا کہ ’کچھ لوگوں کے انفرادی جرم کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم پاکستانی عوام یا حکومت کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے اور پاکستانی سکیورٹی حکام کو بھی اپنے ملک میں سکیورٹی کو مضبوط بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔‘
انہوں نے پاکستانی طالبان کے معاملے کو پاکستان کا (اندرونی) معاملہ قرار دیا اور وہ کہا کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہیں کہ وہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین کو مزید عدم استحکام کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ’ہم اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ خطہ بدقسمتی سے گذشتہ 20 برسوں تک امریکہ کی قیادت میں بیرونی جارحیت اور ’خطے کے بعض ممالک کی غلط سیاسی پالیسیوں کا شکار رہا جس کے اثرات اب تک محسوس کیے جارہے ہیں‘۔
’اگر کوئی پاکستان میں حملہ کرتا ہے یا داعش کے نام پر افغانستان اور پاکستان کے مسلمانوں کا خون بہاتا ہے تو اس کے حل کے لیے مشترکہ کوشش ہونی چاہیے۔ الزام تراشی مسئلے کا حل نہیں۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ جس طرح سے افغانستان اور خطے میں علمائے دین اور مدارس کے خلاف حملوں کا ایک بڑا منصوبہ جاری ہے، ’اس بارے میں ہمارے انٹیلی جنس ادارے پہلے سے معلومات حاصل کر چکے ہیں اور اس حوالے سے خطے کے ممالک سے معلومات بھی شیئر کی گئی ہیں لیکن افسوس کہ کچھ ممالک نے اس حوالے سے اقدامات نہیں کیے ہیں‘۔
امارت اسلامیہ ایک بار پھر تاکید کے ساتھ کہتی ہے کہ وہ پاکستان میں کسی قسم کے حملے کی حمایت نہیں کرتے اور نہ کسی کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔