تحریر: علی کاظم
(چوتھا حصہ)
“أَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ آنَاء اللَّیْْلِ سَاجِداً وَقَاءِماً یَحْذَرُ الْآخِرَۃَ وَیَرْجُو رَحْمَۃَ رَبِّہِ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُونَ إِنَّمَا یَتَذَکَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَاب”[46]
وہ شخص جو رات کی گھڑیوں میں سجدے اور قیام کی حالت میں عبادت کرتا ہے ۔اور آخرت سے ڈرتا ہے ۔اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے رکھتا ہے۔کہدیجیے کیا جاننے والا اور نہ جاننے والا یکساں ہو سکتے ہیں ۔بے شک نصیحت تو صرف عقل والے ہی قبول کرتے ہیں ۔
ابو علی حسان عجلی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق ؑسے اللہ تعالیٰ کے قول (ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُونَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُون) کے متعلق پوچھا میں آپ کے پاس بیٹھا ہو ا تھا تو آپؑ نے فرمایا وہ جاننے والے ہم ہیں۔اور ہمارے دشمن جاہل ہیں ۔اور ہمارے شیعہ اولو الباب ہیں۔[47]
“إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَاءِکَۃُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُون”[48]
جو کہتے ہیں ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر ثابت قدم رہتے ہیں۔ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ۔(اور ان سے کہتے ہیں ) نہ خوف کرو ۔نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جسکا تم سے وعدہ کیاگیاہے۔نہ غم کرو اور اس جنت کی خوشی مناؤ جسکا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔۔
حضرت امام جعفرصادق ؑسے روایت ہے آپؑ نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر میں بیان فرمایا کہ یہ آیت ہمارے اور ہمارے ان شیعوں کے ساتھ خاص ہے کہ جو ہماری اتبا ع اور ولایت پر قا ئم ہیں۔[49]
شیعہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والے ہوتے ہیں۔
“وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُونَ کَبَاءِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ “[50]
اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کردیتے ہیں ۔
جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقرؑ سے اس روایت کی تفسیر کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے فرمایا بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب کرنے والے آل محمدؑ اور انکے شیعہ ہیں۔
شیعہ بچے حضرت زہرا ؑ کی تربیت میں۔
“وَالَّذِیْنَ آمَنُوا وَاتَّبَعَتْہُمْ ذُرِّیَّتُہُم بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَمَا أَلَتْنَاہُم مِّنْ عَمَلِہِم مِّن شَیْْءٍ کُلُّ امْرِءٍ بِمَا کَسَبَ رَہِیْنٌ”[51]
اور جو لوگ ایمان لے آئے ۔اور انکی اولاد نے بھی ایمان میں انکی پیروی کی ۔انکی اولاد کو (جنت میں) ہم ان سے ملحق کر دیں گے ۔اور ان کے عمل میں سے ہم کچھ بھی کم نہیں کریں گے ۔ہر شخص اپنے عمل کا گروی ہے۔
حضرت امام جعفر صادق ؑسے روایت ہے کہ مومنین میں شیعوں کے بچوں کی حضرت فاطمہؑ تربیت کرتی ہیں۔اور اللہ تعالیٰ کے قول (أَلْحَقْنَا بِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ) متعلق فرمایا قیامت کے دن انکے باپ کودیے دئیے جائیں گے۔[52]
“وَالسَّابِقُونَ السَّابِقُونَ ۔أُوْلَءِکَ الْمُقَرَّبُونَ”[53]
سبقت لے جانے والے تو آگے بڑھنے والے ہیں ۔یہی وہ مقرب لوگ ہیں۔
“وَأَمَّا إِن کَانَ مِنَ أَصْحَابِ الْیَمِیْنِ ۔فَسَلَامٌ لَّکَ مِنْ أَصْحَابِ الْیَمِیْنِ”[54]
اور وہ اصحاب یمین میں سے ہے تو (ان سے کہا جائے گا ) اصحاب یمین کی طرف سے سلام ہو ۔
حضرت امام محمد باقر سے روایت ہے کہ آپ ؑ نے اللہ تعالیٰ کے قول کے متعلق فرمایا کہ وہ ہمارے شیعہ اور محبین ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ؐسے فرمایا ہے کہ تجھ پر سلام ہو اصحاب یمین کی طرف سے ۔یعنی ؟ آپ انکی طرف سے محفوظ رہیں گے یہ آپ کی اولاد کو قتل نہیں کریں گے۔انک نعیم لا یقتلون ولدک۔[55]
“لا یَسْتَوِیْ أَصْحَابُ النَّارِ وَأَصْحَابُ الْجَنَّۃِ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمُ الْفَاءِزُون”
اہل جنت اور اہل جہنم برابر نہیں ہو سکتے ۔اہل جنت ہی کامیاب ہیں۔
حضرت امام ابو الحسن علی رضاؑ اپنے آباؤ اجدادسے امیر المومنین ؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑ نے فرمایا کہ پیغمبر اسلام نے اس آیت کی تلاوت کی تو فرمایا اصحاب جنت سے وہ مراد ہیں جو میری اطاعت کریں میرے بعد علی بن ابی طالب ؑ کو تسلیم کریں ۔اور انکی ولایت کا اقرار کریں۔اور اصحاب سے مراد وہ جو ولایت کو خاطر میں نہ لایا ۔عہد کو توڑا اور میرے بعد انہیں قتل کیا ۔
“إِلَّا الْمُصَلِّیْنَ ۔الَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَاتِہِمْ دَاءِمُونَ۔وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ”[56]
سوائے نماز گذاروں کے جو اپنی نمازوں کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
محمد بن فضل اللہ تعالیٰ اس قول کی تفسیر حضرت امام علی رضاؑ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ؑ نے فرمایا (إِلَّا الْمُصَلِّیْنَ ۔الَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَاتِہِمْ دَاءِمُون) سے اللہ کی قسم ہمارے وہ شیعہ مراد ہیں جو نماز روزانہ پڑھتے ہیں ۔میں نے عرض کیا (وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُون) سے کون مراد ہیں تو آپ نے فرمایا اس سے مراد پانچ اوقات کی نماز پڑھنے والے شیعہ ۔میں نے پو چھا اصحاب الیمین سے کون مراد ہیں تو فرمایا ۔اللہ کی قسم اس سے مراد ہمارے شیعہ ہیں ۔[57]
شیعہ جنت کی نعمتوں سے بہرمند ہوں گے۔
“إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ ظِلَالٍ وَعُیُونٍ ۔وَفَوَاکِہَ مِمَّا یَشْتَہُونَ ۔ کُلُوا وَاشْرَبُوا ہَنِیْئاً بِمَا کُنتُمْ تَعْمَلُونَ ۔ إِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِیْ الْمُحْسِنیْن”[58]
اور تقویٰ اختیار کرنے والے یقیناسایوں اور چشموں میں ہوں گے اور ان پھلوں میں جنکی وہ خواہش کریں گے اب تم اپنے اعمال کے صلے میں خوشگوار ی کے ساتھ کھاؤ اور پیو۔ہم نیکی کرنے والے کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔
محمد بن فضیل حضرت امام علی رضاؑ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے متعلق عرض کیاتو فرمایا وہ ہم ہیں اللہ کی قسم اور ہمارے شیعہ ہیں۔[59]
قیامت کے دن شیعوں کا نامہ اعمال دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا۔
“فَأَمَّا مَنْ أُوتِیَ کِتَابَہُ بِیَمِیْنِہِ ۔ فَسَوْفَ یُحَاسَبُ حِسَاباً یَسِیْراً ۔ وَیَنقَلِبُ إِلَی أَہْلِہِ مَسْرُوراً”[60]
پس جس کا اعمال نامہ اس کے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا اس سے عنقریب ہلکا حساب لیا جائیگا اور وہ اپنے گھر والوں کی طرف خوشی سے پلٹے گا۔
حضرت امام جعفر صادق ؑسے روایت ہے آپ نے مندرجہ بالا قول کے متعلق فرمایا ۔وہ علی بن ابی طالب ؑ اور انکے شیعہ ہیں جنکے دائیں ہاتھوں میں اعمال نامے ہوں گے۔
“إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْکَبِیْر”[61]
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجالاتے انکے لئے ایسی جنتین ہیں ۔جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہی بڑی کامیابی ہے۔
صباح الازرق سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق ؑسے سنا آپؑ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر فرما رہے تھے کہ اس سے مراد امیر المومنین ؑ اور انکے شیعہ ہیں۔[62]
قیامت کے دن شیعوں کے چہرے شاداب ہوں گے۔
“وُجُوہٌ یَوْمَءِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۔ لِسَعْیِہَا رَاضِیَۃ”[63]
اس دن کچھ چہرے شاداب ہوں گے اور اپنے عمل پر خوش ہوں گے اور بہشت بریں میں ہو گے۔
اہل بیت ؑ سے روایت ہے کہ اس سے مراد آل محمد ؑ کے شیعہ ہیں۔[64]
۔” بِسْمِ اللہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیْم۔ وَالْفَجْرِ (1) وَلَیَالٍ عَشْرٍ (2) وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (3) وَاللَّیْْلِ إِذَا یَسْرِ (4) ہَلْ فِیْ ذَلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ (5) أَلَمْ تَرَ کَیْْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍ (6) إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ (7) الَّتِیْ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُہَا فِیْ الْبِلَادِ (8) وَثَمُودَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (9) وَفِرْعَوْنَ ذِیْ الْأَوْتَادِ (10) الَّذِیْنَ طَغَوْا فِیْ الْبِلَادِ (11) فَأَکْثَرُوا فِیْہَا الْفَسَادَ (12) فَصَبَّ عَلَیْْہِمْ رَبُّکَ سَوْطَ عَذَابٍ (13) إِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ (14) فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاہُ رَبُّہُ فَأَکْرَمَہُ وَنَعَّمَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَکْرَمَنِ (15) وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّیْ أَہَانَنِ (16)کَلَّا بَل لَّا تُکْرِمُونَ الْیَتِیْمَ (17) وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (18) وَتَأْکُلُونَ التُّرَاثَ أَکْلاً لَّمّاً (19) وَتُحِبُّونَ الْمَالَ حُبّاً جَمّاً (20) کَلَّا إِذَا دُکَّتِ الْأَرْضُ دَکّاً دَکّاً (21) وَجَاء رَبُّکَ وَالْمَلَکُ صَفّاً صَفّاً (22) وَجِیْءَ یَوْمَءِذٍ بِجَہَنَّمَ یَوْمَءِذٍ یَتَذَکَّرُ الْإِنسَانُ وَأَنَّی لَہُ الذِّکْرَی (23) یَقُولُ یَا لَیْْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْ (24) فَیَوْمَءِذٍ لَّا یُعَذِّبُ عَذَابَہُ أَحَدٌ (25) وَلَا یُوثِقُ وَثَاقَہُ أَحَدٌ (26) یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَءِنَّۃُ (27) ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً (28) فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ (29) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ (30) [65]
قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی اور جفت اور طاق کی ۔اور رات کی جب جانے لگے ۔یقیناًاس میں صاحب عقل کے لئے قسم ہے ۔کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے قوم عاد کے ساتھ کیا کیا؟ستونوں والے ارم کے ساتھ ،جس کی نظیر کسی ملک میں نہیں بنائی گئی ،اور قوم ثمود کے ساتھ جنہوں نے وادی میں چٹانیں تراشی تھیں ،اور میخوں والے فرعوں کے ساتھ ،ان لوگوں نے ملکوں میں سر کشی کی ۔اور ان میں کثرت سے فساد پھیلایا ۔پس آپ کے پر وردگار نے ان پر عذاب کا کوڑا بر سایا ۔یقیناآپ کا رب تاک میں ہے ۔مگر جب انسا ن کو اس کا رب آزما لیتا ہے ۔پھراسے عزت دیتا ہے اور اسے نعمتیں عطا فرماتا ہے تو کہتا ہے :میرے رب نے مجھے عزت بخشی ہے۔اور رب اسے آزما لیتا ہے اور اس پر روزی تنگ کردیتا ہے تو کہتا ہے : میرے رب نے میری تو ہین کی ہے۔ہر گز نہیں !بلکہ تم خود یتیم کی عزت نہیں کرتے ۔اور نہ ہی مسکین کو کھلانے کی تر غیب دیتے ہو ،اور میراث کا مال سمیٹ کر کھاتے ہو ۔اور مال کے ساتھ جی بھر کر محبت کرتے ہو ۔ہر گز نہیں ! جب زمین کوٹ کوٹ کر ہموار کی جائے گی،اور آپ کے پروردگا ر (کا حکم ) اور فرشتے صف در صف حاضر ہوں گے ۔او ر جس دن جہنم حاضر کی جائے گی،اس دن انسان متوجہ ہوگا،لیکن اب متوجہ ہونے کا کیا فائدہ ہوگا؟،کہے گا:میں نے اپنی اس زندگی کے لئے آگے کچھ بھیجا ہوتا ۔پس اس دن اللہ کے عذاب کی طرح عذاب دینے والا کوئی نہ ہوگا۔اور اللہ کی طرح جکڑنے والا کوئی نہ ہو گا۔اے نفس مطمئنہ!اپنے رب کی طرف پلٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ہو۔پھر میرے بندوں میں شامل ہو جا۔اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
حضرت امام جعفر صادق ؑنے سورہ فجر کے متعلق فرمایا کہ حضرت امام حسین ؑ اور آپ ؑ کے شیعہ اور آل محمد ؑ کے شیعہ کے ساتھ خاص ہے ۔جو سورہ فجر کی قر أت کا عادی ہو وہ جنت میں حضرت امام حسینؑ کے ساتھ ہو گا ۔بے شک اللہ تعالیٰ بڑا غالب او ر حکمت والا ہے ۔[66]
[46]۔ سورہ الزمرآیت9
[47]۔ البرھان4/265
[48]۔ سورہ حم سجدہ آیت30
[49]۔ غرر الاخبار الدیلمی 184
[50]۔ سورہ شوری آیت37
[51]۔ سورہ طور آیت 21
[52]۔ بحار الانوار5/279،البرھان7/331
[53]۔ سورہ واقعہ آیت10،11
[54]۔ سورہ واقعہ آیت90/91
[55]۔کافی 8/26،البرھان7/432
[56]۔ سورہ معارج آیت 22،23،24
[57]۔ بحار الانوار27/139،البرھان8/120
[58]۔ سورہ مرسلات آیت21،22،23
[59]۔تاویل الایات732
[60]۔ سورہ انشقاق آیت7،8،9
[61]۔ سورہ بروج آیت11
[62]۔البرھان ۸/۲۵۴،تاویل الایات۷۵۹،بحا ر الانوار ۲۳/۳۸۹
[63]۔ سورہ غاشیہ آٰیت8،9
[64]۔ تاویل الایات ۷۶۲،البرھان ۸/۲۸۰
[65]۔ سورہ فجر آیت 1تا30
[66]۔ البرھان 8/284
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔